لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سٹیشن انچارج کرنل لیاقت نے پیرکے روز طبی بنیادوں پر استعفیٰ دے دیا۔ انکے استعفے کے بعد سوشل میڈیا پر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے مختلف تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر اطلاعات یہ دی جا رہی ہیں کہ کرنل لیاقت 2 دیگر افسران سمیت مستعفی ہوئے ہیں جبکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا ہے۔
معروف صحافی اسد علی طور نے اپنے وی لاگ میں کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کرنل لیاقت پرہی الزام عائد کیا تھا کہ وہ پارلیمان چلاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے ایم این اے پورے کرنے کا ٹاسک بھی انہوں نے ہی سرانجام دیا، جس دوران 2 ایم این اے مبینہ طور پر اغوا بھی کئے گئے تھے۔
اسد طور کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں کیمرے نصب کرنے والا الزام بھی انہی پر لگایا جا رہا تھا جبکہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ بننے سے روکنے کیلئے رہ ہموار کرنے کا الزام بھی انہی کے سر تھا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے سے بھی پہلے اس وقت کر لیا گیا تھا جب کرنل لیاقت کی ملاقات کی خواہش جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹھکرا دی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک طاقتور افسر کو فائز عیسیٰ سے ملنے کا مشورہ دیا لیکن انہیں بھی انکار کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ملاقات کر کے فائز عیسیٰ کو فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کچھ نرمی برتنے کا کہنا چاہتے تھے۔
اسد طور کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ملاقات سے انکار کے بعد ان کے خلاف ریفرنس کا ٹاسک بھی کرنل لیاقت کو ہی سونپا گیا تھا۔