عمران کامیانہ
پچھلے دو سال میں بجلی کا ملک گیر نظام تین بار تعطل کا شکار ہو چکا ہے، جس سے اربوں روپے کے نقصانات کیساتھ ساتھ پتا چلتا ہے کہ مسلسل معاشی بحران کے تحت ریاستی سرمایہ کاری کے فقدان اور ماڈرنائزیشن میں ناکامی کی وجہ سے ملک کا بنیادی انفراسٹرکچر کس قدر زبوں حال ہو چکا ہے۔
یہی حال پانی کی فراہمی، نکاس، تعلیم، علاج، ریلوے، شہری سڑکوں وغیرہ سمیت ایسے تمام شعبوں اور پبلک سروسز کا ہے، جن کی بنیادوں پر کوئی معاشرہ تعمیر پاتا ہے۔ نام نہاد ترقی پذیر ممالک، جو درحقیقت غربت اور پسماندگی کے گھن چکر میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور جہاں انسانیت کی وسیع اکثریت بستی ہے، میں صنعتکاری اور جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے درکار وسائل اور دستیاب وسائل کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہے، جسے سرمایہ داری کے تحت عبور نہیں کیا جا سکتا۔
الٹا سرمایہ داری کے نیولبرل مرحلے میں ان میں سے بیشتر ممالک ڈی انڈسٹرئیلائزیشن کا شکار ہوئے ہیں اور معیشتیں نجی سروسز اور رئیل اسٹیٹ کی سٹے بازی کی مرہون منت ہو کے پیداوار کی بجائے بیرونی اجناس کی کھپت کی منڈیاں بن کے رہ گئی ہیں۔
تاہم یہ سلسلہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا، کیونکہ کوئی معیشت صرف کھپت کی بنیاد پر نہیں چل سکتی۔ مختلف قانونی و غیر قانونی چینلوں سے ان ممالک سے ہر سال دولت کا ایک بڑا حصہ کلیدی سامراجی ممالک میں منتقل ہوتا ہے، جس میں مقامی کرپٹ اور تاریخی طور پر نااہل حکمران طبقہ کمیشن ایجنٹ بن کر سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔
ان معیشتوں میں ایک طرف داخلی و بیرونی خساروں کو ملا کر دوہرے/جڑواں خسارے کا مسئلہ ہے۔ دوسری طرف بچتوں (Savings) اور زرمبادلہ کے فقدان کے تحت معیشتیں دوہرے شگاف کا شکار ہیں۔
آج کے عہد میں ان تضادات کو حل کرنا سرمایہ داری کے بس کے بات نہیں ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کے نسخے شاید وقتی دیوالیے سے تو بچا لیں، لیکن لمبے عرصے میں ان تضادات کو شدید تر ہی کرتے ہیں۔
ایک مزدور/سوشلسٹ ریاست کے کنٹرول میں بینکوں سمیت معیشت کے تمام کلیدی شعبوں کی نیشنلائزیشن، تمام بیرونی قرضوں کی ضبطی اور 5 یا10 سالہ منصوبوں پر مبنی ٹھوس اور دور رس معاشی منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ان تضادات کو حل کیا جا سکتا ہے۔
یہ اگرچہ ملکی و عالمی سطح پر ایک طویل عبوری سفر کا آغاز ہو گا، لیکن اس آغاز کے لئے بھی منڈی کی معیشت کا اختتام ضروری ہے۔