عمران کامیانہ
7 اکتوبر 2023ء سے مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والا نیا بھونچال نہ صرف تھمنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ تباہی اور خونریزی کی شدت اور وسعت میں مزید اضافے کے امکانات بھی اپنی پرانتشار اور تضادات سے بھرپور کوکھ میں سمیٹے ہوئے ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی واحد فنکشنل ’جمہوریت‘ اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو، جو بنیادی طور پر ایک چھٹا ہوا سامراجی بدمعاش، عادی جنگی مجرم اور کٹر صیہونی ہے، شیشے کے برتنوں کی دکان میں گھسے بدمست گینڈے کی طرح اشتعال انگیزی، شرارت اور بربادی کی ہر حد کو عبور کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ حالیہ جارحیت کے پہلے صرف چھ مہینے کے دوران صیہونی ریاست‘ غزہ پر 70 ہزار ٹن بارود برسا چکی تھی جو پوری دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ اور جرمنی کے بڑے شہروں پر ہونے والی مجموعی بمباری سے زیادہ بنتا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک کے تقریباً چھ مہینوں کے دوران برپا کی جانے والی وحشت اس سے زیادہ ہی ہو گی۔ جس نے سکولوں، ہسپتالوں، رہائشی عمارتوں اور دوسرے بنیادی انفراسٹرکچر سمیت غزہ کی پٹی کو عملاً ملبے کے ایک ڈھیر میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
پچھلے 12 مہینوں کے دوران 43 ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی افواج کی فضائی بمباری اور زمینی کاروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں سے (انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق بھی) 90 فیصد عام شہری جبکہ 60 فیصد سے زائد بچے، بوڑھے اور خواتین ہیں۔ آکسفیم کے مطابق یہ حالیہ تاریخ کے کسی بھی تنازعے میں مارے جانے والے انسانوں میں خواتین اور بچوں کی سب سے بلند شرح ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں تقریباً ڈیڑھ سو صحافی اور 225 امدادی سرگرمیاں انجام دینے والے کارکنان بھی شامل ہیں۔ زخمی یا عمر بھر کے لئے اپاہج ہو جانے والے تقریباً ایک لاکھ افراد اس کے علاوہ ہیں۔ مزید برآں صیہونی جارحیت کے نتیجے میں بالواسطہ وجوہات (علاج معالجے کی عدم فراہمی، غذائی قلت وغیرہ) سے ہونی والی ہلاکتوں کو شمار کریں تو جانی نقصان اس سے کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ برطانوی جریدے ’لانسٹ‘ کے مطابق فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار بنتی ہے۔ امریکی آبادی میں اگر اس شرح سے ہلاکتیں ہوں تو ان کی تعداد دو کروڑ 80 لاکھ ہو گی!
یہ نہ رکنے والا قتل عام جمہوریت اور انسانی حقوق کی علمبردار ’مہذب‘ سرمایہ دارانہ دنیا کے رکھوالوں کی نظروں کے سامنے ہی نہیں بلکہ ان کی پوری آشیرباد، معاونت اور پشت پناہی سے ہو رہا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا بھی نہیں ہے۔ نیتن یاہو کی پوری کوشش ہے کہ صیہونی یلغار کو ہر ممکن حد تک پھیلا کے ایک بڑی علاقائی جنگ میں بدلا جائے۔ رواں سال اپریل میں دمشق (شام) میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ، جولائی میں تہران میں حماس کے قائد اسماعیل ہانیہ کا قتل، حالیہ ہفتوں میں حزب اللہ کے مواصلاتی آلات میں دھماکے، دارالحکومت بیروت اور ملک کے جنوبی علاقوں سمیت لبنان پر فضائی حملوں میں شدت (جس میں تین دہائیوں سے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت تنظیم کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی قتل کر دیا گیا) اور اب جنوبی لبنان پر زمینی چڑھائی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان حالیہ کاروائیوں کے نتیجے میں لبنان میں ہلاکتوں کی تعداد پہلے ہی ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ دس لاکھ لوگ ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں‘ اسرائیل مرکزی بیروت پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ہلاکتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ انتہا درجے کی سرد مہری، اشتعال انگیزی اور ڈھٹائی پر مبنی صیہونی ریاست کی یہ کاروائیاں اس قدر غیر متوقع اور اچانک رہی ہیں کہ شاید حماس اور حزب اللہ کے قتل ہونے والے مرکزی رہنما خود بھی اپنی ہلاکتوں کی توقع یا پیش بینی سے قاصر تھے۔ بلکہ کئی صورتوں میں تو اسرائیل کی پشت پناہ مغربی سامراجی ریاستیں بھی تذبذب، حیرانی اور ’’شاک‘‘ پر مبنی کیفیت کا شکار نظر آتی ہیں۔ جس میں خود امریکی سامراجی اسٹیبلشمنٹ کے بیشتر حصے بھی شامل ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ آخر نیتن یاہو کا ٹولہ خود سامراجی ورلڈ آرڈر کی تمام تر اخلاقیات، قوانین اور حدود کو پامال کرنے پر کیوں بضد ہے۔ عالمی منظر نامے میں سلگتے بین السامراجی تضادات، اسرائیل کی داخلی سیاست اور مغربی سامراج بالخصوص امریکہ کے اپنے داخلی بحران اور زوال پذیری کو مدنظر رکھے بغیر اس پہیلی کو سلجھانا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے اپریل 2024ء کی ایک تحریر میں معاملے کے بنیادی پہلو اور آگے کے امکانات کا احاطہ کچھ ان الفاظ میں کیا تھا:
’’حماس کو کچلنے میں ناکام نیتن یاہو… اب غزہ میں جاری قتل و غارت گری کو ایران کیساتھ ایک کھلی جنگ کی صورت پورے خطے میں پھیلانے کے درپے ہے۔ کیونکہ مسلسل جنگی حالات ہی اس کے اقتدار میں رہنے کی ضمانت ہیں۔ بصورت دیگر کرپشن کے سنگین مقدمات بھگت رہا ہو گا۔ لیکن اس بنیادی مقصد سے ہٹ کے بھی امریکہ سمیت مغربی سامراج کو خطے میں براہِ راست مداخلت اور اسرائیل کی بھرپور پشت پناہی پر مجبور کرنے، غزہ میں جاری بربریت سے دنیا کی توجہ ہٹانے اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے جیسے عزائم اسرائیل کی حالیہ اشتعال انگیزیوں کے پیچھے کارفرما ہیں… اس صورت میں ممکنہ جنگ کے بالکل بے قابو ہو کر نہ صرف سارے مشرقِ وسطیٰ بلکہ اس سے باہر بھی پھیل جانے، ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال، خطے کی رجعتی اور عوام دشمن ریاستوں کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بغاوتوں کی شکل میں پھٹ پڑنے اور پہلے سے زبوں حالی کا شکار عالمی معیشت کے گہرے بحران میں دھکیلے جانے جیسے خدشات کے پیش نظر تمام سامراجی طاقتیں بشمول امریکہ، یورپ، روس اور چین اسرائیل کو مزید کسی اشتعال انگیزی سے منع کر رہی ہیں۔ لیکن یہ انتباہ، تاکیدیں اور اپیلیں نیتن یاہو کے باز رہنے کی ضمانت نہیں ہیں۔‘‘
صیہونی ریاست کا بحران
یہ درست ہے کہ ملک کے اندر یا باہر خود پر کسی حملے کی صورت میں انسانی جان و مال کی قیمت سے قطع نظر کئی گنا‘ بلکہ درجنوں گنا سخت جواب دینا اسرائیل کی پرانی پالیسی رہی ہے۔ لیکن اگر ایک وسیع تاریخی تناظر میں دیکھیں تو یہ ساری صورتحال صیہونی ریاست کے اپنے داخلی بحران اور ملک کی سیاسی و نظریاتی سمت کو لے کے اسرائیلی سماج میں موجود گہری تقسیم کے ناگزیر نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ایک طرف مڈل کلاس یورپی یہودیوں وغیرہ پر مبنی آبادی کے وہ سیکولر، لبرل حصے ہیں جو صیہونی ریاست کو ایک جمہوری اور ’پلورلسٹ‘ معاشرے کے طور پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی زمینوں کو ہتھیانے والے قبضہ گیر، نوآبادکار اور قدامت پرست سماجی دھڑے ہیں جو اپنے قدیم مذہبی صحیفوں کی تعلیمات اور پیش گوئیوں کی روشنی میں اسرائیل کو ایک یہودی تھیوکریٹک ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لئے وہ اسرائیل کے جغرافیائی پھیلاؤ، ہمسایہ خطوں پر قبضے، فلسطینیوں کی نسل کشی اور بے دخلی کی ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران موخرالذکر رجحانات کا اثر و رسوخ ملک کی سرکاری مشینری اور سکیورٹی اسٹیبلشمٹ میں تیزی سے بڑھنے کی طرف گیا ہے اور اسرائیلی ریاست دائیں بازو کی طرف جھکتے چلے جانے کے مسلسل عمل کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ رجعتی اور وحشی ہوتی گئی ہے۔ اس صورتحال کو دنیا بھر میں ’فار رائٹ‘ کے ابھار کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نتیجتاً اس وقت نیتن یاہو کے اتحادیوں، حکومتی اہلکاروں اور کابینہ میں بیٹھے لوگوں (ڈینیل ہاگاری، یواف گیلنٹ، بن گویر، بیزالل سموترچ وغیرہ) کو صیہونی داعش یا طالبان کہا جائے تو یہ قطعاً کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ نیتن یاہو سمیت یہ پورا ٹولہ تاریخی صیہونی پراجیکٹ کو زیادہ جبر سے لاگو کرنے اور اسرائیلی ریاست کو ایک زیادہ فسطائی ساخت اور ہیئت میں ڈھالنے کے درپے نظر آتا ہے۔ جس میں جمہوری آزادیوں پر قدغنیں اور عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔ اس سارے عمل کے خلاف اپوزیشن کی نسبتاً لبرل پارٹیوں اور عام اسرائیلی شہریوں کی مزاحمت اور ایجی ٹیشن بھی احتجاجی مظاہروں کی شکل میں جاری رہی ہے۔ 7 اکتوبر کے واقعات نے اس سلسلے کو اگرچہ وقتی طور پر منقطع کر دیا اور ملکی دفاع و وطن پرستی کے جذبات غالب آ گئے۔ لیکن تلخ معاشی حالات اور مسلسل غیر یقینی صورتحال میں یہ تضادات دوبارہ بھڑک رہے ہیں۔ جس کا اظہار حماس کے قبضے میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی ہلاکتوں کے نتیجے میں نیتن یاہو کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور یکم ستمبر کو ہونے والی آٹھ گھنٹے کی عام ہڑتال کی شکل میں ہوا ہے (جسے سپریم کورٹ کے ذریعے ختم کروایا گیا) اور آگے اس سے بھی زیادہ شدت سے ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی معیشت کی حالت بھی بہت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ پچھلے سال کے صرف آخری تین مہینوں کے دوران معیشت کا ہجم 20 فیصد سکڑا ہے۔ یہ بڑی معاشی گراوٹ ہے جو وقتی بحالی کے باوجود موجودہ حالات میں جاری ہی رہے گی۔ فی کس جی ڈی پی اور آمدن کے اعتبار سے اسرائیل اگرچہ ایک بڑے معاشی ہجم کا حامل امیر ملک ہے اور تکنیکی حوالے سے بھی خاصا ترقی یافتہ ہے۔ لیکن یہ ساری ترقی و خوشحالی بڑی حد تک مغربی سامراج‘ بالخصوص امریکہ کی امداد و سرمایہ کاری کی محتاج ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل تاریخی طور پر امریکی امداد کا سب سے بڑا وصول کنندہ ہے جو 1946ء سے اب تک 300 ارب ڈالر سے زائد امداد کی مد میں وصول کر چکا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ ہر سال چار تا پانچ ارب ڈالر اسرائیل کو صرف عسکری امداد کی مد میں ادا کرتا ہے۔ جبکہ اس سال تقریباً 13 ارب ڈالر اس مد میں ادا کیے جائیں گے۔ ایک کروڑ سے بھی کم آبادی کے ملک کے لئے یہ بہت بڑا مالیاتی ہجم بنتا ہے۔ لیکن مسلسل اور براہِ راست جنگ کے حالات بڑی سے بڑی معاشی طاقت کو بھی ناقابل برداشت خساروں اور قرضوں میں مبتلا کر کے اندر سے کھوکھلا کر سکتے ہیں۔
ایس اینڈ پی اور موڈیز جیسے اداروں نے ایران کے یکم اکتوبر کے میزائل حملے کے بعد اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کی ہے۔ علاوہ ازیں موجودہ جنگ اگر جاری رہتی ہے تو اس کی قیمت جی ڈی پی کے 10 فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں بہت سے سرمایہ دار اپنا سرمایہ اسرائیل سے باہر منتقل کرنے کی طرف بھی جا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ امریکی سامراج‘ اسرائیلی صیہونی ریاست کو مشرق وسطیٰ میں اپنی چوکی‘ بلکہ شاید اپنی ’ایکسٹینشن‘ کے طور پر دیکھتا ہے اور ہر حالات میں اسے بیل آؤٹ کرنے کو تیار ہو گا۔ لیکن حالات زیادہ خراب ہوتے ہیں تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ درکار ہو گا جس کی فراہمی عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے عدم استحکام کے موجود حالات میں یقینا آسان نہیں ہو گی۔
صیہونی ریاست کے بحران کا ایک اور پہلو عالمی سطح پر اس کی بڑھتی ہوئی تنہائی بھی ہے۔ خود مغربی سامراجی اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑی اور پسماندہ خطوں میں ان کی کٹھ پتلیاں اسرائیل کے حق میں تمام تر بڑھک بازی یا اس کے جرائم پر خاموشی کے باوجود نیتن یاہو کی روش سے بیزار نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کی حالیہ تقریر کے دوران بھی ہوا۔ جہاں بیشتر مندوبین کے واک آؤٹ کے بعد اسے خالی کرسیوں سے خطاب کرنا پڑا۔ اگرچہ مخصوص فرعونی لہجے میں اس کی بکواس مسلسل جاری رہی۔
باقی مضمرات کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ ناگزیر طور پر پہلے سے زبوں حال عالمی معیشت پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرے گی۔ تیل کی قیمتیں آسمان تک پہنچ جائیں گی اور اقتصادی عدم استحکام کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ لیکن اس سے بڑھ کر شاید سامراجیوں کو اپنی عام آبادی‘ بالخصوص نوجوانوں کی طرف سے دباؤ، نفرت اور حقارت کا سامنا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی اور مسلسل بدمعاشی پر مبنی صیہونی ریاست کا طرز عمل پوری دنیا میں سامراجی منافقت کے خلاف شدید غم و غصے کو جنم دے رہا ہے۔ جس کا اظہار احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا ایکٹوزم وغیرہ پر مبنی بین الاقوامی یکجہتی کی مہم کی شکل میں بھی ہو رہا ہے۔ ’یوگوو‘ (YouGov) کی جانب سے پانچ یورپی ممالک (اٹلی، بیلجئم، سویڈن، فرانس، جرمنی) میں کی جانے والی ایک رائے شماری کے مطابق ووٹ ڈالنے کی اہل آبادی کا کم از کم نصف حصہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا حامی ہے۔ جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ جبکہ اس سے بھی بڑی تعداد میں لوگ اسرائیل پر پابندیاں لگانے کے حق میں ہیں۔ یہ نتائج پوری دنیا میں عام لوگوں کی رائے عامہ میں ایک بڑی شفٹ کی غمازی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ حالات و واقعات اسرائیل سے باہر یہودی نوجوانوں کی بڑی تعداد کو بھی صیہونیت سے دور ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ جو اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کے لئے دھچکے سے کم نہیں ہے۔
خود اسرائیل میں تمام تر جنگی جنون کے باوجود نیتن یاہو کی پوزیشن بہت مستحکم نہیں ہے۔ حسن نصراللہ کے قتل کے بعد اس کی مقبولیت میں کچھ اضافہ ضرور ہوا ہے۔ لیکن اسرائیل کے ’چینل 12‘ کی ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق اگر آج انتخابات ہوں تو نیتن یاہو کا اتحاد پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔ آنے والے دنوں میں جنگ کی تباہ کاریاں نیتن یاہو کی مقبولیت میں مزید کمی کا باعث ہی بنیں گی۔ جس کا ازالہ کرنے کے لئے وہ مزید جارحیت اور مہم جوئی پر مجبور ہو گا۔ یوں ان حالات میں نیتن یاہو اور اس کے ٹولے کی سیاسی بقا کی واحد ضمانت جنگ کا تسلسل ہے۔ بنیادی طور پر درندہ صفت انسانوں کا یہ گروہ ایسی ڈھلوان پر بھاگ رہا ہے جس کی مزاحمت کی صورت میں منہ کے بل لڑھک جائے گا۔ لیکن اس دوڑ کا حتمی انجام بھی تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ویسے اگر غور کریں تو تاریخی طور پر فسطائی یا نیم فسطائی رجحانات (جن میں آج کل کے بیشتر پاپولسٹ اور فار رائٹ کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے) کے بیشتر رہنما اسی المیے کا شکار نظر آتے ہیں ۔
نیتن یاہو کی کرسی خود اس سے بھی بڑے پاگلوں اور جنونیوں کے سہارے پر ٹکی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے اتحادیوں کے خلاف جا کے کوئی معقول طرز عمل اپنانے کا نہیں سوچ سکتا۔ فراڈ اور رشوت ستانی کے سنگین الزامات کے تحت حکومت سے باہر ہوتے ہی اسے جیل کی ہوا اور عدالتوں کے دھکے کھانے پڑ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے ہٹ کے بھی شاید وہ اسرائیل کے دشمنوں کی ہر ممکن حد تک خونریزی اور بربادی کی قیمت پر جنگی فتح کے ذریعے ’فیلڈ مارشل‘ جیسا رتبہ حاصل کرنے یا تاحیات اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اس ساری منصوبہ بندی میں بالآخر غزہ سے تمام فلسطینی آبادی کا انخلا بھی شامل ہے۔ جس کی طرف ابتدائی اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں۔ لیکن اکثر جنگوں کے مضمرات اور نتائج موضوعی خواہشات سے خاصے مختلف ہوتے ہیں۔
امریکی سامراج کا زوال
موجودہ صورتحال کی تشکیل میں امریکی سامراج کی تاریخی گراوٹ اور سامراجی اسٹیبلشمنٹ میں موجود گہری تقسیم بھی اہم عنصر کے طور پر شامل ہے۔ ایک طرف معاشی یا اقتصادی حوالے سے چین کے مقابلے میں امریکہ کا نسبتی زوال ہے۔ چین اس وقت لاطینی امریکہ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ (مجموعی طور پر دنیا کے 120 ممالک) کا سب سے بڑا تجاری پارٹنر ہے اور اپنی بیرونی سرمایہ کاری میں روز افزوں اضافہ کر رہا ہے۔ دنیا میں اس کے مسلسل بڑھتے مالیاتی ہجم اور اقتصادی اثر و رسوخ کا ناگزیر مطلب سیاسی و سفارتی وزن میں اضافہ ہے۔ جس نے سنجیدہ سامراجی پالیسی سازوں کے اوسان خطا کیے ہوئے ہیں اور جس کا ازالہ وہ عسکری دھونس کے ذریعے کرنے کی کوشش میں ہیں۔
لیکن عراق اور افغانستان میں امریکہ کی براہِ راست ذلالت، شام میں بالواسطہ شکست اور دوسری بیشتر صورتوں میں معاملات کو کنٹرول نہ کر پانے کی خجالت نے امریکی سامراج کی ساکھ، رعب و دبدبے اور اس کے پالیسی سازوں کے اعتماد اور حوصلے کو گہری چوٹ پہنچائی ہے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ وہ فی الوقت اسرائیل کے چکر میں مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑے جنگی تنازعے کے براہِ راست فریق بننے سے کترا رہے ہیں۔
پھر ٹرمپ کا مسئلہ ہے۔ جو ایک ’آؤٹ سائیڈر‘ ہونے کے باوجود امریکی آبادی کے بڑے حصے کی حمایت اور مروجہ سیاست و ریاست کے اندر گہرا اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے، دہائیوں میں تعمیر کیے گئے عالمی لبرل آرڈر کو تہس نہس کرنے کے درپے ہے اور سنجیدہ سامراجی پالیسی سازوں کے لئے ایک مسلسل دردِ سر بنا ہوا ہے۔ اسرائیل کی طرح امریکہ میں بھی یہ صورتحال گہری سماجی بے چینی اور تقسیم کی غماز ہے اور امریکی حکمران طبقے و ریاست کو مسلسل تذبذب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
لیکن پھر دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری قوت اور واحد سپر پاور کے سربراہ کی اپنی حالت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ایک انسانی شکل میں مذکورہ سامراجی ورلڈ آرڈر کی زندہ لاش معلوم ہوتا ہے۔ جسے آئندہ امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ سے نکالنے کے لئے پہلے منت سماجت سے کام لینے کی کوشش کی گئی لیکن آخر کار تقریباً لات مار کے باہر کرنا پڑا۔ یہ بھی کیسی مضحکہ خیز قسم کی ستم ظریفی ہے کہ کم از کم شروعات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سنجیدگی سے جو بائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں اتارنے کا سوچ رہی تھی۔
لیون ٹراٹسکی نے مختلف تاریخی ادوار اور نظاموں کی اہم شخصیات (چاہے ان کے بیچ زماں و مکاں میں سینکڑوں سال اور ہزاروں میل کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو) کی ثقافتی و نفسیاتی مماثلت پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ایک جیسے حالات انسانوں کو ایک جیسا ردِ عمل دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اور حالات کا جبر جتنا شدید ہوتا ہے‘ انسانوں کے پاس مختلف طرزِ عمل اپنانے کی گنجائش اتنی ہی محدود ہوتی ہے۔ اس تناظر میں جو بائیڈن کا موازنہ بالکل بجا طور پر لیونڈ برژنیف سے کیا جا سکتا ہے۔ جو سوویت یونین میں سٹالنزم کی زوال پذیری اور سٹالنسٹ بیورکریسی کے خود اپنے نظام کے اوپر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا شخصی اظہار تھا۔ اس کے بڑھاپے، بھلکڑ پن اور مخبوط الحواسی کو لے کے سوویت یونین میں کئی سیاسی لطیفے مشہور تھے۔ جن میں سے ایک کے مطابق جب برژنیف نے اپنی تقاریر لکھنے پر معمور پارٹی عہدیدار کو ڈانٹا کہ میں نے تمہیں پندرہ منٹ کی تقریر لکھنے کو کہا تھا‘ تم نے پینتالیس منٹ کی کیوں لکھی تو اس بیچارے نے عرض کی کہ جناب میں نے آپ کو پندرہ منٹ کی تقریر کی تین کاپیاں دی تھیں۔ جو بائیڈن کی ذہنی و جسمانی حالت بھی برژنیف سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ شاید آج کے امریکی سامراج اور آخری دہائیوں کے سوویت یونین کے درمیان بھی کم از کم جزوی تمثیل یا انالوجی قائم کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ دونوں ریاستیں بالکل مختلف بلکہ متضاد سماجی نظاموں کی نمائندہ تھیں۔
ان حالات میں امریکی ریاست کی پالیسی سازی اور پھر اپنی پالیسیوں کو نافذ کروانے کی صلاحیت کا اندازہ لگانا محال نہیں ہے۔ متضاد بیانات، بے بسی اور تذبذب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو اسرائیل کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کے بیانات سے غیر اعلانیہ یا نیم مذمت تک چلا جاتا ہے (جس میں کبھی ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنے کی نیم دلانہ دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں)۔ اسرائیل کے سامنے ایک ریڈ لائن کھینچتے ہیں۔ جب وہ اسے عبور کر لیتا ہے تو دوسری کھینچ دیتے ہیں۔ لکیریں کھینچنے اور مٹانے کا یہ سلسلہ پچھلے ایک سال سے جاری ہے۔ جس کے پیچھے محض منافقت کا عنصر ہی کارفرما نہیں ہے۔ جو بائیڈن کی ذہنی حالت کے پیش نظر اس کی عملداری یا اتھارٹی ناپید نہیں تو انتہائی محدود ضرور ہے۔ یوں بطور امریکی صدر اس کی اہمیت زیادہ تر علامتی ہی ہے۔ اسی دوران صدارتی انتخابات کی مہم کا شور و غوغا جاری ہے۔ نتیجتاً ریاستی و عسکری افسر شاہی کا کردار لامحالہ طور پر بڑھ جاتا ہے جس میں بائیڈن سے بھی بڑے جنگی قاتلوں اور جنونیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
ان حالات کا بھرپور فائدہ ٹرمپ بھی اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس نے اسرائیل پر ایران کے تازہ میزائل حملے کے بعد دلچسپ تبصرہ کیا:
’’دنیا کے حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے ایران نے اسرائیل پر 200 بیلسٹک میزائل پھینکے ہیں اور ہم ایک عالمی تباہی کے اتنے قریب پہنچ گئے جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ ہمارا ایک صدر ہے جو ویسے ہی غائب ہے اور ایک نائب صدر ہے جسے معاملات کو سنبھالنا چاہئے۔ لیکن وہ سانفرانسسکو میں (اپنی انتخابی مہم کے لئے) فنڈ اکٹھے کرتی اور تصویریں کھینچتی پھر رہی ہے۔ کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے اور یہ بھی نہیں پتا کہ کون زیادہ کنفیوژ ہے: بائیڈن یا کمالا۔ دونوں کو نہیں معلوم کہ ہو کیا رہا ہے۔‘‘
سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور مبالغہ آرائی سے قطع نظر ٹرمپ کا یہ تبصرہ کچھ ایسا نامعقول بھی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ خود صدر ہوتا تو اسے بھی پتا نہ ہوتا کہ ’’ہو کیا رہا ہے‘‘ اور کرنا کیا ہے۔ بلکہ ایسے لوگ اپنے ڈھٹائی اور حماقت پر مبنی ’کانفیڈنس‘ میں زیادہ تباہ کن حرکتیں کر بیٹھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ہر فن مولا پاکستان کی اڈیالہ جیل میں بھی سڑ رہا ہے۔
بہرحال مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں امریکی پالیسی کے بنیادی نکات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ واضح ہے کہ امریکہ‘ اسرائیل کی حمایت، پشت پناہی و امداد سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ لیکن موجود حالات میں امریکی‘ اسرائیل کو خطے میں کوئی بڑی جنگ بھی کھولنے دینا نہیں چاہتے۔ بالخصوص ایک ایسا تصادم جس میں ایران براہِ راست ملوث ہو۔ کیونکہ اس صورت میں وسیع پیمانے کی ہجرتوں، معاشی بحران اور تباہی کا ایسا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جو بعض صورتوں میں بالکل بے قابو ہو کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک جا سکتا ہے (یاد رہے کہ اسرائیل کی پالیسی ہے کہ کسی وجودی خطرے کی صورت میں وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے نہیں کترائے گا)۔ علاوہ ازیں وہ بطور فلسطینی آبادی غزہ (یا مغربی کنارے) کا خاتمہ یا اسرائیل میں ادغام بھی نہیں چاہیں گے۔ کم از کم ایسے یکلخت اور تباہ کن انداز سے نہیں جیسے کہ نیتن یاہو جیسوں کی خواہش ہے۔ کیونکہ ایسا کوئی بھی اقدام نہ صرف دو ریاستی حل کی دہائیوں سے تخلیق کردہ منافقت کو ہمیشہ کے لئے تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دے گا بلکہ عرب آبادیوں میں پہلے سے موجود شدید غم و غصے کو نقطہ اشتعال تک پہنچا کے خطے میں بغاوتوں، سیاسی عدم استحکام اور ریاستوں کے دھڑن تختوں کے نئے سلسلے کا آغاز کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے چین، یورپی طاقتیں اور بیشتر عرب ریاستیں‘ امریکیوں کی ہم خیال نظر آتی ہیں۔ اسی لئے ہر اشتعال انگیزی کے بعد ہر طرف سے ’’ہر ممکن حد تک صبر و تحمل‘‘ کی اپیلیں جاری ہوتی ہے۔ اگرچہ سعودی حکمرانوں کی دلی خواہشات کا معاملہ مختلف ہو سکتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نیتن یاہو امریکیوں کی وضع کردہ حدود میں رہنے کو تیار نہیں ہے اور امریکی چار و ناچار اس کی ہر ضد کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ یوں اسرائیل کی حمایت اور نیتن یاہو کی سرزنش کے درمیان توازن قائم کرنا امریکیوں کے لئے ناممکن ثابت ہو رہا ہے۔ اگر غور کریں تو پچھلے ایک سال کے دوران حالات و واقعات کی سمت کے تعین میں امریکہ کا کردار کسی متحرک پلیئر سے زیادہ نیم مجہول تماشائی کا رہا ہے۔ نتین یاہو کو اپنی پیروی پر مجبور کرنے کی بجائے عملاً وہ اس کی کھینچی ہوئی لکیروں کے فقیر بن کے رہ گئے ہیں۔ اور یہ راستہ کسی امن و استحکام کی منزل کی جانب ہرگز نہیں جاتا۔ کسی انتہائی صورتحال میں نیتن یاہو کوجسمانی یا سیاسی طور پر راستے سے ہٹائے جانے کی صورت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ کام نہ تو آسان ہو گا‘ نہ خطرات سے خالی۔
ایران کا المیہ
گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیل کی پوری کوشش رہی ہے کہ حماس کے خلاف آپریشن کو خطے میں ایرانی پراکسیوں (حوثی، حزب اللہ و دیگر) کے خلاف کاروائیوں تک توسیع دے کر ایران کے پر کترے جائیں اور ہر ممکن حد تک ایران کو ایک کھلی جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کی جائے۔ جس میں ایران کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جائے۔ جبکہ ایران کی اسی قدر کوشش رہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ براہِ راست جنگ میں جانے سے گریز کرے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کی طرح ایرانی ریاست خود ایک گہرے داخلی بحران سے دوچار ہے۔ ریاستی طاقت کیساتھ نتھی ایرانی ملائیت کی وسیع بدعنوانی اور لوٹ مار، مذہبی جبر پر مبنی پالیسیوں، عوام کی معاشی بدحالی اور گٹھن کے حالات کے خلاف نئی نسل کی بے چینی جیسے عوامل نے تھیوکریٹک ریاست کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران ایران میں کم از کم دس بڑی احتجاجی تحریکیں ابھر چکی ہیں جن کے مطالبات جمہوری و شہری آزادیوں، صنفی امتیاز و جبر کے خاتمے، طبقاتی مسائل کے حل اور معاشی حالات میں بہتری سے لے کے موجودہ ریاست کے یکسر خاتمے تک جاتے ہیں اور جنہیں انتہائی بے دردی سے کچلا گیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ لامحالہ طور پہ ایران کی پہلے سے نحیف اور پابندیوں سے دوچار معیشت کا مزید بیڑہ غرق کر دے گی۔ ایرانی ریاست کو اپنے اور اپنی پراکسیوں کے جنگی اخراجات میں کئی گنا اضافہ کرنا پڑے گا۔ جان و مال کا یہ بے نظیر ضیاع ایران کے داخلی بحران کو زیادہ شدت سے بھڑکانے کا موجب بن کے نئی عوامی بغاوتوں کو مشتعل کر سکتا ہے۔
تاریخی طور پر ایران کی پالیسی اپنی پراکسیوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ ایک بالواسطہ، مبہم اور کم شدت پر مبنی طویل جنگ لڑنے کی رہی ہے جس میں دشمن کو تھکا کے مجہول رکھا جائے یا بے بس کیا جائے۔ کیونکہ ایرانیوں کو اسرائیل کی بے انتہا معاشی، تکنیکی اور عسکری برتری کا پورا احساس ہے۔ جس کا مظاہرہ اسرائیلیوں نے حزب اللہ کے پیجروں میں دھماکوں سے لے کر اسماعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کے قتل تک کیا ہے۔ مثلاً اسماعیل ہانیہ کو کس طرح قتل کیا گیا‘ اس بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک ممکنہ صورت یہ ہے کہ تہران میں ان کی رہائش گاہ پر ایران کے اندر سے ہی میزائل داغا گیا۔ جبکہ ایک اور امکان یہ بھی ہے تہران میں جس جگہ انہوں نے رہائش اختیار کرنی تھی‘ وہاں کئی ہفتے یا مہینے پہلے ہی بم نصب کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈرون سے نشانہ بنائے جانے کی چہ مگوئیاں بھی ہیں۔ بہرصورت گھر آئے مہمان کا اس طرح سے قتل ایران کے لئے بڑی خجالت اور شرم کا باعث بنا ہے۔ جو ایرانی انٹیلی جنس کی بڑی ناکامی کے ساتھ ساتھ خود ایرانی ریاست میں موجود موساد کے وسیع و عریض نیٹ ورک کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
اسی طرح کا معاملہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کا ہے۔ جنہیں عین اس وقت ایک زیر زمین بنکر میں نشانہ بنایا گیا جب وہ حزب اللہ کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے۔ تاکہ قیادت کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا جا سکے۔ کثیر منزلہ عمارت میں موجود نصراللہ کا بنکر سطح زمین سے بھی 18 میٹر نیچے تھا جسے نشانہ بنانے کے لئے تقریباً ایک ہزار کلوگرام وزنی امریکی بنکر شکن بموں کا استعمال کیا گیا اور عمارتوں کے پورے بلاک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیل کی اس حکمت عملی کو ’ڈاہیا ڈاکٹرائن‘ کا نام دیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر دشمن تنظیموں یا حکومتوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے پورے پورے رہائشی علاقوں کو ملیا میٹ کر دینے پر مبنی ہے اور جس کا بے دریغ استعمال گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔ غزہ پر حالیہ وحشت کے دوران اس نام نہاد ڈاکٹرائن کو نئی انتہاؤں پر لے جایا گیا ہے۔
بہرحال نصراللہ کا قتل بھی حزب اللہ میں موجود اسرائیلی جاسوسوں سے حاصل کردہ معلومات کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ گزشتہ چند مہینوں میں ہونے والے یہ واقعات دشمن ممالک یا تنظیموں میں موساد کی گہری سرایت اور بے رحمی کی ہر حد تک جانے کی خاصیت کو واضح کرتے ہیں۔ اس سے قبل بھی اسرائیل کی جانب سے ایران کے اندر اور باہر ایرانی ایٹمی سائنسدانوں اور اہم عسکری شخصیات کو قتل کرنے کی طویل تاریخ موجود ہے۔ اس عسکری تناظر میں اسرائیل کے ساتھ جنگ ایران کے لئے بڑی بربادی کا موجب بن سکتی ہے جس میں سب سے پہلے امریکہ کے عطا کردہ جدید ترین جنگی جہازوں کے ذریعے ایرانی جوہری تنصیبات اور تیل کے انفراسٹرکچر وغیرہ کو تباہ کیا جائے گا۔ اسرائیل کے مقابلے میں ایران کی ایئر فورس عملاً ناپید ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران نے اسرائیل سے براہِ راست ٹکر لینے سے اجتناب برتنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ متحارب ترین سامراجی طاقتوں کے درمیان بھی کسی نہ کسی سطح پر انڈرسٹینڈنگ اور مفاہمت موجود ہوتی ہے جس کے تحت تمام تر مخالفت اور عداوت کے باوجود مخصوص حالات میں مشترکہ مفادات کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ ایران، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان یہ جزوی یا وقتی مفاہمت ماضی میں کئی مواقع پر نظر آئی ہے۔ لیکن حالات پھر انہیں ایسی نہج پہ بھی لے جا سکتے ہیں جہاں تصادم اور خونریزی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ 7 اکتوبر کے واقعات کے بعد مذکورہ وجوہات کی بنا پہ اسرائیل نے ایران کو زچ کرنے اور اشتعال دلانے کی ہر حد کو عبور کیا ہے۔ ان حالات میں اپنے عوام، افواج اور علاقائی پراکسیوں کے سامنے ’فیس سیونگ‘ کے لئے جوابی کاروائی ایرانی ریاست کی مجبوری بن چکی تھی۔ اس سلسلے میں اسرائیل پر 13 اپریل اور پھر یکم اکتوبر کے میزائل حملے بنیادی طور پر علامتی اہمیت کے حامل تھے جن کا مقصد اسرائیل کو وارننگ دینا تھا۔ دونوں مرتبہ حملوں کے بعد ایران نے واضح کیا کہ وہ مزید تصادم نہیں چاہتا۔ تاہم 13 اپریل کی خاصی ’’دوستانہ‘‘ کاروائی (جس کی اطلاع بھی پیشگی دی گئی تھی اور نسبتاً بے ضرر ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا) کی نسبت یکم اکتوبر کا حملہ ایک زیادہ سخت اور سنجیدہ وارننگ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کیفیت میں پھر ناگزیر طور پر ایران کی اپنی عسکری صلاحیتوں کا جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ معاشی و عسکری حوالے سے ایران‘ اسرائیل سے خاصا کمتر ملک ہے۔ لیکن اس باوجود یہ علاقائی پیمانے کی ایک بڑی سامراجی طاقت ہے جس کے پاس بنیادی صنعتی انفراسٹرکچر، خود انحصاری پر مبنی دفاعی تحقیق اور پیداوار کا نظام (جس میں یہ جدید ڈرون اور میزائل بھی تیار کر رہا ہے اور حالیہ عرصے میں روس کو بیچ بھی رہا ہے)، تیل کے وسیع ذخائر، بالائی درمیانے درجے کی آمدن والی معیشت اور مقداری حوالے سے خاصی بڑی جبکہ معیاری حوالے سے درمیانے درجے کی فوج موجود ہے۔ مثلاً آسانی کے لئے معاشی حوالے سے ہی موازنہ کریں تو ایران کا فی کس جی ڈی پی پاکستان سے تین گنا ہے!
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایران نے اسرائیل کے وجود کے حق کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ ایرانی ملاں ریاست نے اپنے وجود کا جواز ہی ہمیشہ امریکہ و اسرائیل دشمنی کے ذریعے پیش کیا ہے۔ جنہیں وہ شیطانی قوتیں قرار دیتا ہے اور مسلمان دنیا میں خود کو ان کے خلاف مزاحمت کے علمبردار کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل کیساتھ براہِ راست جنگ میں نہ جانے کی تمام تر کوشش کے باوجود ایران نے طویل عرصے سے ایسی ممکنہ صورتحال کی تیاری کم از کم جاری رکھی ہے۔ فضائی جنگ اور ایئر ڈیفنس وغیرہ میں اسرائیل کی غیر متنازعہ برتری کے باوجود ایران نے ایسے جنگی شعبوں میں ترقی جاری رکھی ہے جن کے ذریعے وہ اپنی مذکورہ بالا کمزوریوں کا ازالہ کر سکے۔ اس حوالے سے اسرائیل پر حالیہ فضائی حملہ خاصی اہمیت کا حامل تھا۔ جس میں ایران نے پہلی بار اپنے ’ہائپر سانک‘ میزائلوں (’’فتح‘‘) کا استعمال کر کے ایک واضح پیغام دیا ہے۔ یہ میزائل مبینہ طور پر آواز کی رفتار سے پانچ سے پندرہ گنا تیزی سے اپنے اہداف کو ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور تک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں ہوا میں تباہ کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی محال ضرور ہے۔ مزید برآں حملے کے لئے دانستہ طور پر رات کا وقت منتخب کیا گیا تاکہ پوری دنیا کو یہ میزائل اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں (یروشلم، تل ابیب وغیرہ) کو نشانہ بناتے ہوئے نظر آئیں۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس نے اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور 90 فیصد میزائل اسرائیل کے مشہورِ زمانہ ’آئرن ڈوم‘ اور دوسرے ایئر ڈیفنس کے نظاموں کو چیرتے ہوئے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ اگرچہ پراپیگنڈہ کے مقاصد کے تحت کی جانے والی مبالغہ آرائی ہے لیکن پھر 99 فیصد میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کرنے کے امریکی و اسرائیلی دعوے اس سے بھی بڑی مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ کیونکہ حملے کی ویڈیو فوٹیجز میں سینکڑوں نہیں تو درجنوں میزائلوں کو اسرائیلی علاقوں پر گرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں خود اسرائیلی میڈیا میں ایسی رپورٹیں سامنے آئی ہیں کہ ’نیواتم‘ ایئر بیس سمیت اسرائیلی فضائیہ کے ٹھکانوں کو نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ ایک میزائل تل ابیب میں موساد کے ہیڈ کوارٹر کے بالکل قریب بھی گرا ہے۔
اگرچہ پہلے کی طرح اس بار بھی ایران کی کوشش تھی کہ اپنا پیغام کم سے کم نقصان کے ساتھ پہنچایا جائے تاکہ کسی بڑی جوابی کاروائی سے بچا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے عین ممکن ہے کہ ایرانی میزائلوں میں ایسے وارہیڈز کا استعمال کیا گیا ہو جو بڑی تباہی کا موجب نہیں بنتے۔ لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ اپنے عسکری نقصانات کی خبروں کو سختی سے دبانا اسرائیل کی پرانی پالیسی ہے اور اس حوالے سے سنسرشپ کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ بہرصورت اسرائیل کے امریکی و دیسی ایئر ڈیفنس سسٹم اتنے ناقابل تسخیر نہیں ہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ایران خود یا اس کی پراکسیاں اسرائیل کے اندر تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
فضائی جنگ کے میدان میں اگرچہ ایرانی ایئر فورس کا اپنے اسرائیلی مد مقابل سے کوئی مقابلہ نہیں بنتا۔ موخرالذکر ایف 16 سے لے کر ایف 35 جیسے جدید ترین امریکی جہازوں سے لیس ہے۔ لیکن اس میدان میں بھی ایران کے پاس ایک توڑ یہ ہے کہ اس کے پاس زمین سے فضا میں مار کرنے والے نسبتاً جدید ہتھیار موجود ہیں۔ جس میں درجنوں قسم کے خودساختہ میزائلوں سے لے کے ’S-300‘ جیسے جدید روسی میزائل سسٹم بھی شامل ہیں۔ جن کی موجودگی میں اسرائیلی جہازوں کے لئے ایرانی آسمانوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا آسان نہیں ہو گا۔
لیکن ایران کا سب سے اہم جنگی اثاثہ پھر پورے خطے میں پھیلے اس کے پراکسی گروہ ہیں جن کے پاس وسیع افرادی قوت موجود ہے۔ صرف حزب اللہ کے جنگجوؤں کی تعداد کا اندازہ 40 ہزار تک جاتا ہے۔ مزید برآں یہ گزشتہ طویل عرصے سے یمن، عراق، شام، لبنان وغیرہ میں انتہائی خونریز اور پیچیدہ جنگوں میں لڑنے کا تجربہ اور تربیت رکھتے ہیں اور ان کے خصوصی یونٹس خاصے جدید اسلحے سے لیس بھی ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بڑی جنگ، جو آخر کار زمین پر ہی لڑی جائے گی، اسرائیل کے لئے بھی خاصی پریشان کن‘ بلکہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
ان چند ایک حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایران پر براہِ راست چڑھائی اسرائیلیوں کے لئے سالگرہ کا کیک کاٹنے جیسی نہیں ہو گی۔ اسرائیلی اگر یہ حساب لگا کے بیٹھے ہیں کہ بیرونی حملے کی صورت میں بحران زدہ ایرانی ریاست کے اندر تیزی سے ٹوٹ پھوٹ جنم لے گی تو ان کی اپنی داخلی حالت بھی کوئی زیادہ مستحکم نہیں ہے۔ نہ ہی اسرائیلی فوج کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ بہرحال جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ کوئی خوش کن تناظر بھی یقینا نہیں ہے اور ایسے خوفناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے جن کی اندازہ لگانا بھی ابھی محال ہے۔ ایسے حالات ایران کو اپنا ایٹمی پروگرام تیز کرنے اور محض ایٹم بم ’بنانے‘ کی دھمکیاں دینے سے آگے بڑھنے پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔ کچھ اندازوں کے مطابق ایران چاہے تو ایک سال کے اندر اندر جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال اور آگے کے امکانات
پہلے غزہ اور اب لبنان میں حالیہ اسرائیلی جارحیت کو اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اسے ایک بلند تر پیمانے پر ’نکبہ‘ کا تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اتنی بربادی اور خونریزی کے باوجود آج کا اسرائیل 7 اکتوبر 2023ء کی نسبت کہیں زیادہ غیر محفوظ اور غیر مستحکم ہے۔ نہ حماس کو کچلا جا سکا ہے‘ نہ غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکی ہے۔ الٹا کئی حوالوں سے فلسطینیوں میں حماس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ کچھ مہینے قبل ’رائٹرز‘ کی جانب سے رپورٹ کی جانے والی ایک رائے شماری کے مطابق فلسطینیوں میں مسلح جدوجہد کی حمایت 8 فیصد اضافے کے ساتھ 54 فیصد جبکہ حماس کی حمایت 6 فیصد اضافے کے ساتھ 40 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ دو تہائی لوگوں کا خیال تھا 7 اکتوبر کے حملے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ جبکہ صرف 20 فیصد فلسطینی محمود عباس کو سپورٹ کرتے ہیں۔ تقریباً اسی عرصے میں کی جانے والی کچھ دوسرے رائے شماریوں کے مطابق حماس کی حمایت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح خود امریکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق حماس کی سرنگوں کا زیادہ تر نیٹ ورک (65 سے 80 فیصد تک) بدستور قائم ہے جبکہ اس کے ایک تہائی جنگجوؤں کا ہی خاتمہ کیا جا سکا ہے۔ حماس کے اپنے ذرائع کے مطابق اس کے صرف 20 فیصد جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ جنگ کے دوران بھی حماس بڑے پیمانے پر ریکروٹمنٹ کر رہی ہے۔ یکم اکتوبر کو جس وقت ایرانی میزائل اسرائیل پر منڈلا رہے تھے‘ تل ابیب میں حماس کی ایک کاروائی بھی جاری تھی۔ جس میں تنظیم کے دو مسلح جنگجوؤں نے گولیوں اور چاقو چھریوں کے ذریعے سات اسرائیلی شہریوں کو ہلاک اور 17 کو زخمی کیا۔ اسی طرح غزہ کے اندر بھی اسرائیلی سپاہیوں اور ٹینکوں وغیرہ پر حملوں کی اطلاعات اور پراپیگنڈہ ویڈیوز منظر عام پر آتی رہی ہیں۔
اسی قسم کی صورتحال حزب اللہ کی بھی ہے۔ جسے پیجر دھماکوں اور اعلیٰ قیادت کے بیشتر لوگوں کے قتل کے ذریعے ایک شدید وقتی دھچکا ضرور پہنچایا گیا ہے۔ لیکن اس کی اسرائیل کے خلاف لڑنے کی صلاحیت بدستور قائم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حزب اللہ‘ حماس نہیں ہے۔ جس کا اظہار جنوبی لبنان میں داخل ہونے والی اسرائیلی افواج کے خلاف شدید مزاحمت کی صورت میں بھی ہوا ہے۔ کچھ گھنٹے پہلے تک کی اطلاعات کے مطابق لبنان میں آٹھ اسرائیلی فوجی اب تک ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حزب اللہ کی جانب سے جنوبی لبنان اور اسرائیل کے اندر مزید حملوں کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر لبنان کے اندر زمینی لڑائی کا پہلا دن تھا!
موجودہ واقعات کو 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے پس منظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس میں اسرائیل کو خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ درست ہے کہ اس شکست سے اسرائیلی افواج نے بہت سے اسباق حاصل کیے تھے لیکن پھر ایسی ہی تیاری حزب اللہ بھی سالہا سال سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس کے جنگجو اپنے علاقوں کے چپے چپے سے واقف اور مشکل زمینی حالات میں لڑنے کے ماہر ہیں۔ یوں ’ڈاہیا ڈاکٹرائن‘ کے تحت فضا سے اندھا دھند بارود برسانا خاصا آسان کام ہے۔ لیکن زمینی جنگ ایک بالکل مختلف معاملہ بن کے رہ جاتی ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایران کے حالیہ حملے کا جواب اسرائیل کس طرح دے سکتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مساوات ہے جس میں بین الاقوامی دباؤ اور سفارت و مصالحت کی کوششوں کا بھی اہم کردار ہو گا۔ اسرائیل ایران کے اندر بھی کاروائی کرنے کی طرف جا سکتا ہے (جس کے امکانات کا جائزہ اوپر لیا گیا ہے) اور ایران سے باہر ایرانی اثاثوں یا پراکسیوں کے خلاف کسی غیر متوقع کاروائی کی صورت میں بھی جواب دے سکتا ہے۔ لیکن ہر دو صورتوں میں جوابی کاروائی کی نوعیت اور شدت ایران کے ردِ عمل اور آگے کے واقعات کا تعین کرے گی۔
اپریل میں ایران کے علامتی حملے کے جواب میں اسرائیل نے فیس سیونگ کے لئے اصفہان (ایران) پر ایک واجبی سا میزائل حملہ کیا تھا۔ جب کہ شام اور عراق میں بھی ایرانی اتحادیوں کے ٹھکانوں کو ہلکے پھلکے انداز سے نشانہ بنایا تھا۔ جس کے بعد معاملہ کم از کم وقتی طور پہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ تاہم اب کی بار صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اعلانیہ یا معمول سے مختلف کاروائی کرنے کی بجائے یمن اور لبنان وغیرہ میں ایرانی پراکسیوں پر حملوں میں اس قدر شدت لے آئے کہ ایران کو لامحالہ پھر کوئی ردِ عمل دینا پڑے۔
ان سطور کی تحریر کے وقت قطر میں ایران اور خلیجی ریاستوں کے اعلیٰ حکام کے اجلاس کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔ جس میں یقیناً صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کی راہ نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ قطر کے ذریعے ایران کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات بھی ہیں جن میں ایرانیوں نے واضح کیا ہے کہ ’’یکطرفہ صبر و تحمل کا مرحلہ گزر چکا ہے۔‘‘ لیکن شاید اس سے بھی اہم خبر یہ ہے خلیجی ریاستوں نے ایران کو اپنی غیر جانبداری کا یقین دلایا ہے۔ کیونکہ کسی بڑے تصادم کی صورت میں انہیں اپنی تیل کی تنصیبات برباد ہو جانے کا خوف بھی لاحق ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی سطح کے پیچیدہ تنازعات میں بھی قطر کا ’مصالحانہ‘ اور ثالثی پر مبنی کردار اور اثر و رسوخ ایک دلچسپ مظہر ہے۔ جو ظاہر ہے الگ سے ایک تفصیلی تجزئیے کا متقاضی ہے۔
لیکن ایسی کوئی غیر معمولی صورتحال پھر روس کو بھی مشرق وسطیٰ میں اپنی ’سافٹ پاور‘ سفارت کاری کی جگہ زیادہ واضح اور یکطرفہ پوزیشن لینے پر مجبور کر سکتی ہے۔ روس کے اس وقت حماس، الفتح اور اسلامک جہاد جیسے فلسطینی گروہوں کیساتھ بھی مراسم ہیں جبکہ اسرائیل کے ساتھ بھی اس کے تعلقات اس حد تک استوار ہیں کہ شام میں وہ روسی ٹھکانوں یا املاک کو نشانہ بنانے سے اجتناب برتتا ہے۔ اسرائیل نے بھی یوکرائن کے معاملے میں نسبتاً لاتعلقی یا غیرجانبداری کا رویہ اپنایا ہے۔ اس سے ہٹ کے بھی روس اور اسرائیل کے درمیان کئی معاشی و سکیورٹی معاملات میں معاونت موجود ہے۔ دوسری طرف ایران کیساتھ بھی اس کے گہرے سفارتی و عسکری مراسم موجود ہیں۔ عراق، شام، افغانستان اور وسط ایشیا کے ممالک میں دونوں ایک دوسرے کے پارٹنر ہیں اور جدید ملٹری ہارڈویئر کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں روس تیل اور گیس وغیرہ کی صورت میں یورپ کو توانائی کا بڑا فروخت کنندہ ہے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بھی توانائی اور دوسرے شعبوں میں تجارت و سرمایہ کاری کرتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست جنگ روس کے لئے کڑا امتحان ثابت ہو گی۔ لیکن شاید اس سے بھی مشکل صورتحال چین کی ہے جس کا روس سے بھی بڑا کاروبار ہر کسی کے ساتھ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں ابھی تک کھل کے کسی جانبداری کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برت رہی ہیں اور ایک توازن قائم رکھنے کی کٹھن جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ توازن خاصا نازک ہے جسے غیر معمولی واقعات بگاڑ بھی سکتے ہیں۔
حالات ہر لمحہ بدل رہے ہیں اور واقعات بہت تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس بنیادی مارکسی تھیسس کو ایک بار پھر درست ثابت کرتی ہے کہ آج سامراجی سرمایہ داری کے پاس انسانیت کو دینے کے لئے محرومی، ذلت اور جنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس نظام میں سرمائے کے مفادات ہی مقدم ہیں اور پیسے کے رشتے ہی ہر تعلق اور ناطے پر حاوی ہیں۔ یہ آخری تجزئیے میں منافع خوری اور سرمائے کے اجتماع کی ہوس ہی ہے جو مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا کے بیشتر حصوں کو تاراج کرتی جاتی ہے۔ پچھلے ایک سال میں وہ کون سا جبر اور کون سی بربریت ہے جسے غزہ میں روا نہیں رکھا گیا ہے۔ اس نسل کشی کے تماشائیوں اور سہولت کاروں میں سیکولرازم، جمہوریت اور انسانی حقوق کے مغربی علمبرداروں سے لے کے ترکی، سعودی عرب اور پاکستان میں مذہب اور ’امت‘ کی سیاست کرنے والوں تک‘ سب شامل ہیں۔ 7 اکتوبر کے حملے نے صورتحال کو یکسر بدل دیا ورنہ ’’ابراہم اکارڈز‘‘ کے تحت یہ عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھانے میں ہر حد تک جانے کو تیار تھے۔ جس میں شاید پاکستان میں ان کٹھ پتلیاں بھی پیچھے نہ رہتیں۔
یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اس لبرل آرڈر کا مکروہ چہرہ ہے جسے سوویت یونین کے انہدام کے بعد انسانیت کو ترقی، استحکام اور خوشحالی کے بامِ عروج تک پہنچانا تھا۔ دنیا آج ماضی کے کسی دور سے کہیں زیادہ عدم استحکام، انتشار اور خونریزی سے دوچار ہے۔ یہ استحصال، جبر اور انسان دشمنی پر مبنی‘ ایک تاریخی طور پر متروک سماجی نظام کے ناگزیر مضمرات ہیں۔ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ نسل انسان کو بربریت کی طرف دھکیلتا جاتا ہے۔
اسرائیل کا وجود مشرق وسطیٰ کے جسم پر کسی کینسر سے کم نہیں ہے۔ اسے قائم ہی خطے پر سامراجی دھونس اور بدمعاشی کو مسلسل مسلط رکھنے کے لئے کیا گیا تھا۔ آج تمام عرب حکمران اور ان کی ریاستیں اس سامراجی پراجیکٹ کی حصہ دار اور سہولت کار ہیں۔ اس دنیا کے مظلوم اور محکوم عوام کے سوا فلسطینیوں کا کوئی ہمدرد، کوئی دوست نہیں ہے۔ ایرانی ملاں ریاست بذات خود ایک انتہائی جابر اور رجعتی اکائی ہے جس کا کردار اپنے ملک کے اندر اور باہر محنت کش عوام کی تحریکوں کو کچلنے پر مبنی رہا ہے اور جو آخری تجزئیے میں اسی سامراجی نظام کے دوام کا ہی اوزار ہے۔ یہی کردار چین اور روس کی ریاستوں کا بھی ہے۔ لیکن حالیہ بحران اور انتشار بالفرض تھم جاتا ہے تو بھی جب تک اسرائیل کی صیہونی ریاست کا وجود باقی ہے‘ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی دوررس امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔ اسرائیلی ریاست کو یکسر تحلیل کرنے کے پروگرام کے بغیر مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کا نعرہ بھی ایک فریب اور حماقت بن کے رہ جاتا ہے۔ لیکن پھر صیہونی ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کا فریضہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ دارانہ ریاستوں کے دھڑن تختے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیساتھ مشروط ہے۔ جو خطے کے محنت کش عوام کی طبقاتی بغاوتوں کو مسلسل سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام اور لائحہ عمل کیساتھ مربوط کرنے سے ہی ممکن ہے۔