عمران کامیانہ
آرٹ کی حالیہ بحث کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم چاہیں گے کہ ان بنیادی منطقی مغالطوں پر روشنی ڈالیں جن کا استعمال ایسی بحثوں یا مناظروں میں ان عناصر کی جانب سے کیا جاتا ہے جن کے پاس اپنے مخالف فریق کی بات کو رد کرنے کی کوئی معقول دلیل و منطق نہیں ہوتی ہے۔ بہت سے دوست پہلے سے ان وارداتی ”دلائل“ سے واقف ہوں گے۔ لیکن موجودہ بحث میں ان مغالطوں کا استعمال ایسے افراد کی جانب سے کیا گیا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف خود شاعر اور ادیب ہیں بلکہ شعر و ادب کے سمندر میں یوں غوطہ زن ہیں کہ ہر روز نئے موتی تلاش کے لا رہے ہیں۔ یہاں ہماری مراد وہ ترقی پسند اور انقلابی ساتھی ہرگز نہیں جو سنجیدگی سے سیکھنا اور سکھانا چاہتے ہیں لیکن اپنی معصومیت اور بھولے پن میں ان نوسربازوں کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔ بلکہ ہمارا مقصد خود ان نوسربازوں، منافقوں اور انسان دشمن لوگوں کو بے نقاب کرنا ہے جو ”غیرجانبداری“، ادب و شاعری کی ”گہرائی“، پیچیدہ اصطلاحات اور دلفریب ظاہریت وغیرہ کی آڑ میں استحصالی طبقات کا ایجنڈا آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔
منطقی مغالطوں کا استعمال دانستہ یا غیردانستہ طور پر بنیادی موضوع سے توجہ ہٹانے اور دلیل سے بھاگنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ڈھائی ہزار سال پہلے کے یونانی فلاسفر بھی ان مغالطوں سے واقف تھے اور مناظروں میں انہیں ملحوظ رکھتے تھے۔ لیکن آج کے یہ نام نہاد ”جدید“ (بلکہ مابعدالجدید) شاعر اور ادیب ”دانستہ“ طور پر بحث میں ان کا بے دریغ استعمال کر کے ثابت کرتے ہیں کہ ان کی سمجھدانیوں میں تذبذب، قنوطیت اور انسانیت کے بغض و حقارت کے سوا کچھ موجود نہیں ہے اور فلسفے، نظرئیے، سیاست اور آرٹ کی کسی سنجیدہ بحث میں اترنا ان کا نصب العین ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ان کی چوری پکڑی جاتی ہے۔ اسی لئے یہ ویسے ہی معنویت اور مقصدیت کا براہِ راست یا بالواسطہ انکار کر جاتے ہیں۔
اس پوسٹ کا مقصد یہ بھی ہو گا کہ منطقی مغالطوں کو بیان کرتے ہوئے آرٹ پر ہم اپنا موقف بھی مزید واضح طریقے سے بیان کر سکیں۔ اس مقصد کے لئے زیادہ تر (حقیقی) مثالیں بھی ہم اسی بحث میں سے لیں گے۔
اصل موضوع کی طرف آئیں تو فارمل اور انفارمل کے زمروں میں مغالطوں کی بے شمار اقسام اور ذیلی اقسام موجود ہیں۔ ہم فی الوقت ان کی ترتیب، پیچیدگی یا تفصیل میں جانے کی بجائے عام مغالطوں کی طرف جائیں گے جن کا استعمال سوشل میڈیا اور عام زندگی کے مذاکروں میں بے دریغ ہوتا ہے۔ مزید تفصیلات میں دلچسپی رکھنے والے دوستوں کو بہت سا مواد انٹرنیٹ سے ہی مل جائے گا۔ لیکن ہم بات کو مختصر اور آسان ہی رکھنا چاہیں گے۔
مغالطوں کی فہرست اور وضاحت میں جانے سے قبل ہم یہ بھی واضح کر دیں ان میں سے بیشتر میں مماثلت بھی موجود ہے، یہ ایک دوسرے کیساتھ جڑے بھی ہوئے ہیں اور بحثوں میں ایک میں سے دوسرا مغالطہ نکالتے ہوئے بیک وقت کئی مغالطوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال چلتے ہیں کچھ عام منطقی مغالطوں کی طرف۔
مغالطہ ۱: Straw Man
اس طریقہ واردات میں فریق کی اصل بات کو رد کرنے کی بجائے کوئی اور بات (جو ظاہر ہے اس نے کہی نہیں ہوتی) اس کے ساتھ منسوب کر کے یا جعلی طریقے سے اخذ کر کے اس بات پر یلغار شروع کر دی جاتی ہے۔
مثال: ہمارا دعویٰ ہے کہ زندگی کے کسی بڑے وژن، ورلڈ ویو، انفرادی واقعات و کیفیات کو معاشرتی تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت، موجودہ (سماجی) حالات سے بیزاری لیکن ساتھ ہی مزاحمت کی خواہش اور بہتری کی تڑپ وغیرہ کے بغیر کوئی بڑا آرٹ تخلیق نہیں ہو سکتا۔ ہم اب بھی اپنے دعوے پر پورے استقلال سے قائم ہیں۔ اگرچہ یہ تمام چیزیں ہر تاریخی عہد میں مختلف انداز سے اپنا اظہار کریں گی۔ بلکہ ہمیشہ کرتی آئی ہیں۔
ہمارے اس دعوے سے دانستہ طور پر غلط نتائج نکال کے جواب جن الزامات کے ساتھ دیا گیا ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
٭ آپ نے غالب کو چھوٹا شاعر کہا ہے۔
٭ آپ چاہتے ہیں آرٹ پارٹی کی لائن پر چلے۔
٭آپ نے جون ایلیا اور شو کمار بٹالوی کو رجعتی اور ردِ انقلابی شاعر کہا ہے۔
٭آپ محبت کے المیوں پر شاعری کے خلاف ہیں۔
٭آپ صرف انقلابی آرٹ کو ہی آرٹ مانتے ہیں۔
تبصرہ: یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے ان میں سے کوئی ایک بات بھی نہیں کی۔ غالب کو ہم آج بھی بڑا شاعر مانتے ہیں۔ جس کا تخیل بھی بڑا تھا، تصورات بھی غیرمعمولی تھے اور شاعری کی بنتر بھی عظیم تھی۔ ہاں البتہ آپ جن بونوں کو بڑا شاعر مانتے ہیں اور جن کے اشعار بھی اپنے موقف کے حق میں پیش کر رہے ہیں انہوں نے اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش میں غالب پر خوب کیچڑ اچھالا ہے۔ نہ ہی ہم عشق، ہجر، وصال جیسے موضوعات پر شاعری کے خلاف ہیں۔ ہم نے صرف ان موضوعات کو ولگر طریقے سے پیش کرنے پر تنقید کی ہے اور جون، منٹو یا شو کمار وغیرہ کے بارے صرف یہ کہا ہے کہ ان کا آرٹ عامیانہ ہے۔ بہرحال ان کے مداحوں نے جس چلن کا مظاہرہ کیا ہے خود اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ عامیانہ آرٹ انسان کو کس طرح سے مسخ کر سکتا ہے۔ نہ ہی ہماری مقصدیت اور معنویت کی بات کا مطلب آرٹ کو کسی مخصوص ”لائن“ پر چلانا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس سے ویسے ہی آرٹ کی نفی ہو جائے گی (اس پر آنے والے دنوں میں خود انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی کا نقطہ نظر بھی پیش کیا جائے گا)۔
مغالطہ ۲: Appeal to Authority
یہ بھی ایک عام مغالطہ ہے جس میں بات کرنے والے کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم اتنے حقیر ہو کے اتنے بڑے انسان پر تنقید کیسے کر سکتے ہو۔ وہ چونکہ معروف انسان ہے اور اپنے شعبے کی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے تو اس کی بات درست ہی ہو گی۔
مثال: ہم نے کچھ شعرا پر تنقید کی تو جواب میں یہی کہا گیا ہے آپ کی اپنی حقیقت، اپنی اوقات کیا ہے۔ فلاں صاحب بہت بڑے اور مقبول شاعر ہیں تو ظاہر ہے ان کا آرٹ بڑا ہی ہو گا۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ان میں کچھ خودساختہ شاعر، صحافی اور ادیب تو بات کو یہاں تک لے گئے ہیں آپ کی اپنی تحریروں میں ”ادبیت“ نہیں ہے لہٰذا آپ کسی پر کیسے تنقید کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اس قدر رجعتی بات ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ اگر دیانتدار اور سنجیدہ انسان ہے تو اپنے ادنیٰ سے ادنیٰ نقاد کو بھی یہ بات نہیں کر سکتا۔
تبصرہ: ہماری اپنی تحریروں میں ادبیت ہے یا نہیں ہے اس بات کا ہمارے دلائل سے رتی بھر تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اول تو ہمارا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ ہم ادیب ہیں۔ دوسرا کسی ادیب پر تنقید کرنے کے لئے کسی کا خود ادیب ہونا ضروری نہیں۔ ورنہ آرٹ کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یہ انتہائی بھونڈی بات ہے کہ کسی کے آرٹ پر تنقید کرنے سے پہلے آپ اس سے بڑا آرٹ تخلیق کر کے لائیں۔ یعنی آپ نے کسی فلم پر تنقید کرنی ہے تو پہلے اس سے اچھی فلم بنائیں۔ یہ بظاہر بچگانہ بات لگتی ہے لیکن درحقیقت ایک فسطائی نقطہ نظر کا اظہار ہے۔ کہ عام انسان چونکہ جاہل ہے اور آرٹ ”پڑھے لکھے“ و ”نفیس“ لوگوں کا کام ہے لہٰذا عوام اس پر تنقید نہیں کر سکتے۔ فسطائی عناصر یہی بات سیاست کے بارے بھی کرتے ہیں کہ عام لوگ چونکہ جاہل ہیں لہٰذا انہیں سیاست میں حصہ لینے اور رائے دینے کا کوئی حق نہیں اور کوئی مسیحا ہی آ کے ان کی ”رہنمائی“ کرے گا۔ لیکن یہاں آپ دیکھیں کہ ان نام نہاد ترقی پسندوں کے اندر سے بھی آخر میں یہی فسطائیت برآمد ہوتی ہے۔ یعنی ہم جہاں آرٹ کو محلات اور پرتعیش ڈرائنگ روموں سے نکال کر عام لوگوں تک لے جانا چاہتے ہیں وہاں یہ جعل ساز اسے عوام سے چھین کے واپس اشرافیہ کے قبضے میں دینے کے درپے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کو سیاست کی طرح آرٹ پر بھی بات کرنے کا حق حاصل ہے، اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے، فن پارے کے معانی پوچھنے کا حق حاصل ہے۔ غربت اور ذلت سے بھرے اس طبقاتی سماج میں یہ صلاحیتیں اگرچہ محنت کش عوام میں مفتود اور محدود ہوتی ہیں لیکن یہ حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
مغالطہ ۳: Ad Hominem
اس مغالطے میں اصل بات کو چھوڑ کے بات کرنے والے فرد کی ذات پر تنقید شروع کر دی جاتی ہے۔
مثال: ہم نے آرٹ پر اپنا نقطہ نظر رکھا۔ جواب میں (خود کو اچھا خاصا شاعر اور نقاد وغیرہ سمجھنے والوں کی طرف سے) جو مغلظات سننے کو ملیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
٭آپ شراب پیتے ہیں۔
٭آپ کے تو اپنے تراجم میں فلاں فلاں نقائص موجود ہیں۔
٭آپ نے فلاں جگہ پر فلاں کام یا بات کی تھی۔
٭آپ کا اپنا کیرکڑ ٹھیک نہیں۔
٭آپ خودفریبی کا شکار ہیں۔
تبصرہ: یہ سارے نقائص اور خرابیاں ہم میں موجود ہیں یا نہیں‘ اس کا ہمارے نکتے، دعوے یا دلیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی معیار دنیا کے ہر معمولی و غیرمعمولی انسان کے لئے درست ہے۔ چاہے وہ ہمارا دوست ہو یا دشمن۔ ہماری بات تب ہی غلط ثابت ہو گی جب آپ اس کے اندر کا تضاد واضح کریں گے یا دلیل سے اسے رد کریں گے۔ وگرنہ یہی ثابت ہو گا کہ آپ چھوٹے انسان ہیں۔
مغالطہ ۴: Red Herring
اس طریقہ کار میں غیر متعلقہ باتوں کو بحث میں شامل کرنا شروع کر دیا جاتا ہے تاکہ اصل بات پیچھے رہ جائے یا نیچے دب جائے اور گفتگو کسی اور طرف نکل جائے۔
مثال: ہم نے آرٹ پر بات شروع کی۔ آگے سے جواب ملاحظہ ہو:
٭مارکسزم ایک غلط نظریہ ہے۔
٭کمیونزم ایک ناکام نظام ہے۔ (یعنی جو دنیا میں آیا ہی نہیں وہ پہلے سے ناکام ہے!)
٭بالشویکوں نے ون پارٹی آمریت قائم کر دی۔
٭انقلابِ روس میں اتنے بندے مارے گئے۔
٭آپ کس زمانے کی بات کر رہے ہیں اب تو سٹرنگ تھیوری آ گئی ہے۔
تبصرہ: بات آرٹ، شاعری اور ادب کی ہو رہی ہے۔ آپ یا تو چپ رہیں یا متعلقہ موضوع پر اظہار خیال کریں۔ مارکسزم، سوشلزم اور بالشویزم پر حکمران طبقے کے سدھائے ہوئے دانشوروں نے پہلے بھی بہت کیچڑ اچھالا ہے۔ کامریڈ لال خان کے بقول اس بازار میں سیٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ چلیں آپ بھی مار کے دیکھ لیں۔ آج کی دنیا کے حالات اور زمینی حقائق ہی ہمارے نظریات کی حقانیت کا ثبوت ہیں۔ لیکن آپ کو مارکسزم کی سچائی پر بحث کا زیادہ شوق ہے تو وہ الگ سے شروع کی جانی چاہئے اور کی جا سکتی ہے۔ تاہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہاں سے آپ بحث کو کسی اور طرف لے جانے کی کوشش کریں گے۔ بلکہ شاید اُس بحث میں دوبارہ پینترہ بدل کر آرٹ کی ڈسکشن کھول دیں۔
مغالطہ ۵: Tone policing
اس مغالطے میں بات کی بجائے بات کرنے والے کے لہجے یا انداز پر تنقید شروع کر دی جاتی ہے۔ یہ ’’Ad Hominem“ کی ہی ایک شکل ہے۔
مثال: آپ کا لہجہ بہت سخت ہے لہٰذا آپ کی بات میں وزن نہیں یا آپ کی بات عقیدے پر مبنی ہے یا آپ سے تبادلہ خیال ہی ممکن نہیں، وغیرہ۔
تبصرہ: پہلی بات یہ ہے کہ انسان غصے میں بھی ٹھیک بات کر سکتا ہے۔ بلکہ عام مشاہدہ ہے کہ غصے میں اندر کا سچ زیادہ کھل کے سامنے آتا ہے۔ لیکن لہجے کی سختی کا کیا معیار ہے؟ آپ مارکس، لینن اور روزا لکسمبرگ جیسے عظیم انسانوں بارے جو مرضی بکواس کرتے رہیں وہ ٹھیک ہے۔ لیکن ہم آپ اور آپ کے استادوں اور مالکان کو جھوٹا، مکار اور نوسرباز ثابت کریں تو یہ سخت لہجہ ہے؟ سچائی ہمیشہ تلخ ہی ہوتی ہے۔ ہم سچ کو سچ کہنے کے عادی ہیں چاہے وہ آپ کو تلخ لگے یا سخت۔ لیکن ہماری تلخی اور سختی بھی آپ کے ذاتی حملوں، بہتان تراشیوں اور فتووں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مدلل، نفیس، شائستہ اور گہری ہوتی ہے۔
مغالطہ ۶: Argument to moderation
یہ بنیادی طور پر ”مصالحت“ کی بھونڈی کوشش ہوتی ہے۔ جس کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہے کہ حقیقت ہمیشہ دو انتہائی یا مختلف نقطہ ہائے نظر کے درمیان موجود ہوتی ہے۔
مثال: ہر روز سننے کو ملتا ہے کہ مارکسزم ایک ”انتہا“ ہے جبکہ لبرلزم اور پوسٹ ماڈرنزم (معاشی، سماجی، ثقافتی غرضیکہ ہر حوالے سے) ایک دوسری انتہا ہے۔ لہٰذا دونوں درست نہیں ہیں اور کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جس سے سوشل ڈیموکریسی اور ”مکسڈ اکانومی“ وغیرہ کے دلائل بھی تراشے جاتے ہیں۔ موجودہ بحث میں بھی ایسے دلائل سامنے آئے ہیں۔
تبصرہ: حقیقت یا کسی قابل عمل حل تک پہنچنے کا یہ طریقہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا بلکہ بعض صورتوں میں بڑی گمراہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ایک طبقاتی سماج میں ایسی مصالحت کی کوشش آخر کار حکمران طبقے کے حق میں ہی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کی نفی پر مبنی دو متضاد نظریات کو ایسے جوڑنے کی سعی کوئی معقول طریقہ کار نہیں ہے۔ یہ کوئی کاروباری جھگڑے یا ذاتی رنجش کا عدالتی و پنچایتی معاملہ نہیں ہے۔
مغالطہ ۷: Argumentum ad populum
یہ بھی بحث یا استدلال کا ایک گمراہ کن طریقہ کار ہے جو بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کسی بات کو محض اس بنیاد پر درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سب لوگ یا کم از کم بہت سے لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں۔
مثال: اربوں انسانوں کی دنیا میں آپ مارکس وادی مٹھی بھر بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا آپ غلط ہیں۔
تبصرہ: زمین کے ساکن ہونے پر مصمم یقین رکھنے والے آقاؤں سمیت ساری انسانیت کو عتاب سے دوچار گلیلیو نے صرف اتنا کہا تھا: (آپ جو مرضی کہتے رہیں) لیکن یہ گھومتی ہے!
مباحث اور مناظروں میں استعمال ہونے والی ایسی وارداتوں سمیت ناقص طریقہ استدلال کی صورتوں کی فہرست طویل ہے۔ جن میں سے باقی پر کسی اور وقت بات کریں گے۔ لیکن سماج میں تبدیلی و بہتری کی تڑپ رکھنے والے انسانوں‘ بالخصوص سیاسی و تنظیمی کارکنان کا ان سے آگاہ و باخبر ہونا ضروری ہے۔
باقی جہاں تک پوسٹ کے ساتھ لگائی گئی مولوی صاحب کی تصویر کا تعلق ہے تو یہ ہم ”آرٹ برائے آرٹ“ والے خواتین و حضرات پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس کا کیا مطلب نکالتے ہیں۔ لیکن جن دوستوں نے یہ کلپ دیکھ رکھا ہے وہ محظوظ ضرور ہوں گے۔