لاہور(جدوجہد رپورٹ) خیبرپختونخواہ حکومت نے مردان میں قائم یونیورسٹیوں کی زمینوں کے متاثرین کو معاوضے ادا کرنے کیلئے یونیورسٹی کی زمینوں سے ہی کچھ حصہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر ہائیر ایجوکیشن کے مطابق عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، ایگریکلچر یونیورسٹی مردان، انجینئرنگ یونیورسٹی مردان اور عبدالولی خان میڈیکل کمپلیکس کی اضافی زمینیں فروخت کر کے 25ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی۔
خیبرپختونخوا میں اس وقت تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ صوبے کی34یونیورسٹیوں میں سے 20اس وقت وائس چانسلر کے بغیر ہیں اور فیکلٹی اور انتظامی عملہ کے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تاہم زمینیں فروخت کرنے کا اقدام بظاہر2008میں لینڈ ایکوزیشن ایکٹ(قانون حصول اراضی)1894کے تحت یونیورسٹیوں کیلئے حاصل کی گئی زمینوں کے معاوضوں کی ادائیگی کیلئے اٹھایا جا رہا ہے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر عائشہ رزاق کے مطابق اس وقت متاثرین اراضی کو2800روپے فی مرلہ معاوضہ ادا کرنے کا اعلان کر کے زمینیں ہتھیا لی گئی تھیں۔ بعد ازاں ضلعی عدالتوں اور پشاور ہائیکورٹ میں متعدد اپیلوں کے بعد معاوضے کی شرح 20ہزار،45ہزار، 75ہزار اور بالآخر 1لاکھ25ہزار روپے فی مرلہ ادا کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ عدالت نے ادائیگیوں میں تاخیر کی وجہ سے 6فیصد سالانہ شرح سود یا مالی نقصان کا معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔
عدالتی احکامات کے خلاف یونیورسٹیوں کی جانب سے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا،تاہم سپریم کورٹ نے بھی متاثرین کو معاوضہ فی مرلہ1لاکھ25ہزار روپے کے حساب سے ادا کرنے کا حکم دیا۔
اب حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یونیورسٹیوں کے پاس موجود اضافی زمینیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے متاثرین کے معاوضے ادا کیے جائیں۔حالانکہ قانون حصول اراضی کے مطابق اگر زمین کی مزید ضرورت نہیں ہے تو حکومت مالکان کو یہ اختیار دے سکتی ہے کہ وہ اپنی زمینیں واپس حاصل کر لیں۔
تاہم حکومت یونیورسٹیوں کے اضافی زمینوں کو مارکیٹ میں فروخت کر کے مالکان کو رقم فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوں اس اراضی کا ایک چھوٹا سا حصہ فروخت کر کے اس تمام زمین کے مالکان کو معاوضے ادا کئے جائیں گے، جس پر یونیورسٹیاں تعمیر کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ان زمینوں کی اس وقت مارکیٹ میں فی مرلہ قیمت20سے25لاکھ روپے فی مرلہ تک پہنچ چکی ہے، جن کا معاوضہ متاثرین کو1لاکھ25ہزار روپے فی مرلہ ادا کیا جانا ہے۔
یونیورسٹیوں کیلئے زمینوں کا حصول اے این پی کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ تاہم معاوضہ جات بڑھانے کے حوالے سے عدالتی فیصلے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں دیئے گئے۔ اے این پی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے طے شدہ معاوضے دے کر زمینیں حاصل کی تھیں۔ بعد ازاں عدالت نے معاوضوں میں اضافے کا فیصلہ کیا تو پی ٹی آئی حکومت نے معاوضے ادا نہیں کیے۔
ان یونیورسٹیوں کے پاس 10ہزار کنال اراضی ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ ان زمینوں کا 75فیصد حصہ فروخت کر کے 25سے 30ارب روپے حاصل کرنے اور معاوضے ادا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ صرف یونیورسٹی کی زمینوں کو قانون حصول اراضی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹی کی زمین صرف یونیورسٹی ہی فروخت کر سکتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم یونیورسٹی کے اکاؤنٹ میں ہی جمع کروائی جا سکتی ہے۔ زمینوں کے معاوضے صوبائی حکومت نے ادا کرنے ہیں۔ صوبائی حکومت یونیورسٹیوں کی زمینیں فروخت کر کے معاوضے ادا نہیں کر سکتی۔ اس طرح حکومت دہرے غیر قانونی اقدام کی تیاریاں کر رہی ہے۔
صوبے میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی گئی اور یہ فیصلہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔