الطاف حسین اسد
جب کوئی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سوچتا ہے تو سعادت حسن منٹو کا بھی خیال آتا ہے۔ 1955 میں شائع ہونے والی ان کی ہڈیوں کو ٹھنڈا کرنے والی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘کی یاد آتی ہے، جس میں 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہونے والی خوفناک انسانی حالت اور مصائب کی عکاسی کی گئی تھی۔ منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام کو امر کر دیا۔ اب منٹو کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم کہنے کی حد تک وہ لازم و ملزوم ہیں۔
ایک اور قصہ ہے جسے آنے والی نسلوں کے لیے بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ قصہ ٹیک سنگھ کے بارے میں ہے جنہوں نے اس شہر کو یہ نام دیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ لاہور سے 188 کلومیٹر کے فاصلے پر فیصل آباد ڈویژن میں واقع ہے۔ کبھی یہ فیصل آباد ضلع کا حصہ تھا،لیکن اسے 1982 میں ایک نئے ضلع کے طور پر تشکیل دے دیا گیا۔
یہ شہر لوگوں کو ٹیک سنگھ کی یاد دلاتا ہے۔ وہ سنتی سکھ تھے اور علاقے کے لوگوں کی بے لوث خدمت کیاکرتے تھے۔ ان کی یاد میں اور شہر کے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 2000 میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک پارک بنایا گیا اور اس کا نام ٹیکو پارک رکھا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق جس جگہ ٹیک سنگھ بیٹھا کرتے تھے، وہیں آج ٹیکو پارک بنا ہے۔ ان کی یاد وں کو زندہ رکھنے کے لیے پارک میں ایک ٹیلہ بھی بنایا گیا ہے۔
طارق سعید ایک تجربہ کار صحافی، سیاسی کارکن اور سماجی کارکن ہیں۔ ضلع (ٹوبہ ٹیک سنگھ)، اسکے لوگوں اور اس کی سیاسی تاریخ کے بارے میں وہ انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ طارق سعید کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹیک سنگھ کے ٹیلے (ٹوبہ کا مطلب ٹیلہ) کا ٹھکانہ معلوم کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔ آخر کار وہ ایک بوڑھے آدمی کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے،جس نے انہیں ٹیک سنگھ کے بارے میں کچھ حقائق بتائے۔
طارق سعید کہتے ہیں کہ ”میرے پڑوسی کا کچھ سال پہلے 85 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ اس نے بتایا تھا کہ تقریباً 60 سال پہلے اس کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی تھی۔ 90سال کی عمر کے اس شخص نے اسے بتایا تھا اس نے ٹیک سنگھ کو راہگیروں کو پانی اور بھنے ہوئے چنے پیش کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ پوسٹل سروس کے ملازم تھے۔ وہ جھنگ سے ڈاک لاتے اور ٹوبہ لے جاتے تھے۔ وہ شہر میں اس جگہ بیٹھا کرتے، جہاں موجودہ وقت سیشن جج کا گھر بنا ہوا ہے۔“
بزرگ شخص نے یہ بھی بتایا کہ ٹیک سنگھ کے پاس ہندوؤں اور سکھوں کے لیے مٹی کے دو برتن ہوتے تھے اور وہ پانی یا بھنے ہوئے چنے کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے۔ اگر بزرگ شخص پر بھروسہ کیا جائے تو وہ ٹیلہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیشن جج کی رہائش گاہ کے قریب تھا،جہاں ٹیک سنگھ بیٹھا کرتے تھے۔
اس کے علاوہ ٹیک سنگھ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے۔60 یا 70 سال پہلے شاید کچھ لوگ تھے جنہوں نے ان کی ایک جھلک دیکھی تھی، لیکن اس کے بعد سے بہت وقت گزر چکا ہے۔
ٹیلے کی جگہ سے متعلق اختلاف کے باوجود یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہر آج بھی ان کے نام سے چل رہا ہے اور ان کی یاد کے احترام کے لیے ایک پارک بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
1982 میں جنرل ضیاء الحق کے شہر کے دورے کے دوران کچھ شہریوں نے شہر کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن اس تجویز کی وہاں موجود لوگوں کی اکثریت نے سخت مخالفت کی۔
طارق سعید نے بتایا کہ ایک متحرک رہنما اوررکن ضلع کونسل ٹوبہ ٹیک سنگھ طاہرہ لطیف نے کھڑے ہو کر شہر کا نام تبدیل کرنے والوں کی مذمت کی تھی۔ انہوں نے صدر کو بتایا کہ شہر کا نام اس شخص کے لیے ان کا خراج ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کا نام بالکل نہیں بدلنا چاہیے۔ وہ بائیں بازو کے رہنما میاں لطیف کی اہلیہ اور معروف ٹی وی کمپیئر طارق عزیز کی بہن تھیں۔ سابق ایم پی اے میاں رفیق اس وقت ضلع کونسل کے رکن تھے۔ انہوں نے نام تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والوں کی مذمت کے لیے ضلع کونسل میں ایک قرارداد پیش کی۔ ہاؤس نے اس نام کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا، جو اس شہر کی تکثیری ثقافت کی علامت ہے۔
اس لیے شہر کا اب بھی وہی نام ہے۔ اس شہر نے 23 مارچ 1970 کو تاریخی کسان کانفرنس کی میزبانی کی، جس میں ملک بھر سے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی اس کانفرنس کے مہمان خصوصی تھے اور ان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔مولانا بھاشانی نے اپنے استقبال اور پرجوش شرکاء کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنے خطاب کے دوران اس شہر کو پاکستان کا سٹالن گراڈ قرار دیا۔
ایک ایسے عہد میں کہ جب شہروں اور یادگاروں کے نام تبدیل کرنے کا رجحان غالب تھا، ٹیک سنگھ جیسے لوگوں کی کہانی سن کر خوشی ہوتی ہے، جنہیں ان کا شہر اب بھی شوق سے یاد کرتا ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز، ترجمہ: حارث قدیر)