ڈاکٹر مظہر عباس
پاکستان میں پہلے دن سے ہی مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر ریاست کی تعمیر اورقومی تعمیر میں نظریہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ 1947ء میں تقسیم ہندوستان کے بعدکے نظریاتی رجحانات نے ہماری تاریخ اور علمی تحریروں کے صفحات سے بہت سے باصلاحیت اور قابل افراد کو خارج کر دیا ہے۔
آزادیِ ہندوستان کے عظیم رہنما بھگت سنگھ کو ہمارے ادب میں اور اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کی فرقہ واریت کے ذریعے نظر اندازکر دیا ہے۔ اگرچہ اس نے برطانوی سامراج کے خلاف اور سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے خلاف مذہب، رنگ اور عقیدے سے قطع نظر پسماندہ طبقے کے انصاف، مساوات اور حقوق کے لیے جدوجہد کی لیکن بھگت سنگھ بڑی حد تک نو آبادیاتی مخالف جدوجہد کے ہمارے اجتماعی ورثے سے خارج ہو چکے ہیں کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ سنگھ نے خود کو ملحد، سوشلسٹ، انقلابی اور غیر مذہب قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں مذہب کے نام پر سزا دیتے ہوئے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مقامی نصابی کتابوں کے برعکس، بھارتی اداکار عامر خان کی فلم، رنگ دے بسنتی، نے سنگھ کے نظریے کو 2000ء کی دہائی میں زیادہ نوجوانوں کو متعارف کرایا۔
بھگت سنگھ نے شیورام، راج گرُو، اور سُکھ دیو تھاپڑ کے ساتھ مل کر’انقلاب زندہ باد‘ اور ’برطانوی سامراج مردہ باد‘جیسے نعرے لگا کر برطانوی استعمار کے خلاف ہندوستان کے لوگوں کی جدوجہد آزادی کی قیادت کی۔ اس کے بعد انگریز سامراج نے انہیں 23 مارچ 1931ء کو لاہور میں پھانسی دے دی۔ ہر سال 23 مارچ کو آزادی کے جنگجوؤں کی یاد منانے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شادمان، لاہور، فوارہ چوک (وہ جگہ جہاں انہیں پھانسی دی گئی تھی) کے ارد گرد بمشکل چندلوگ جمع ہوتے ہیں۔ وہاں جمع ہونے والوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورمذہبی جنونیوں اور انتہا پسندوں کی طرف سے دھمکیاں بھی ملتی ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ مذہبی گروہوں، جیسا کہ جماعت الدعوۃ اور جماعت اسلامی، جو اپنے بھارت مخالف موقف کے لیے مشہور ہیں، نے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہورکے ایک اقدام، فوارہ چوک کا نام بدل کر بھگت سنگھ (غیر ملکی سامراج کے خلاف جدوجہد کے ایک آئیکن) کے نام پر رکھنے کو روکنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کو رجوع کیا۔ مزید یہ کہ انہوں نے فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں تشدد کی دھمکی دی۔ بالآخر اس منصوبے کو غیر معینہ مدت کے لیے روک دیا گیا۔
بھگت سنگھ کا تعلق بنگے گاؤں، جسے رسمی طور پر چک 105 گب کہا جاتاہے اور اب ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں ہے، کے سیاسی طور پر باشعوراور فعال خاندان سے تھا۔ وہ 27 ستمبر 1907ء کو ٹھیک اس دن پیدا ہوئے جس دن ان کے والد جیل سے رہا ہوئے۔ انہوں نے اپنے والد اور چچا اجیت سنگھ، جو پگڑی سنبھال او جٹا تحریک کے بانی تھے، سے سیاسی تربیت حاصل کی۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سنگھ نے مہاتما گاندھی کے ساتھ جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم، وہ بعد میں گاندھی سے الگ ہو گئے کیونکہ: ا) ان کے فلسفے پر سوشلزم اور کمیونزم کے اثرات تھے؛ اور ب) عدم تعاون کی تحریک میں گاندھی کا وہ کردار جس کے نتیجے میں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔
عدم تعاون کی تحریک کے نتائج نے انہیں احساس دلایا کہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو مارنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور انہوں نے مارکس، لینن، ٹراٹسکی اور دوسرے انقلابیوں کو پڑھناشروع کیا۔ انہوں نے مذہب کو چھوڑ دیا اور سوشلسٹ بن گئے۔ انہوں نے مذہب اور ذات سے قطع نظر اپنی زندگی ہندوستان کے لوگوں کی بھلائی کے لیے وقف کر دی۔
انہوں نے ایک سماجی انقلاب کا خواب دیکھا جس کے لیے انہوں نے ایک انقلابی گروپ قائم کیا جسے ’نوجوانانِ بھارت سبھا‘ کہا جاتا ہے، جس کا مقصد ہندوستان میں مزدوروں اور کسانوں کی ایک آزاد جمہوریہ قائم کرنا تھا۔ بعد میں، انہوں نے اپنی تنظیم کو ’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک ایسوسی ایشن‘کے ساتھ ضم کر لیا تاکہ سر زمین ہندوستان اورلوگوں کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کروانے کی کوششوں کو ہم آہنگ کیا جا سکے۔
سنگھ نے ایک آزاد ہندوستان کا خواب دیکھا تھا اور اسی مقصد کے لیے اپنی جان قربان کردی تھی۔ مذہب کے نام پر اپنی سرزمین اور لوگوں کی تقسیم کا انہوں نے کبھی تصوربھی نہیں کیا تھا۔ مذہب کے نام پر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کی وجہ سے بھگت سنگھ کو مغربی (پاکستانی) پنجاب سے الگ کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا، جبکہ وہ ایک غیر مسلم تھا۔ نوجوان نسلوں کو ان کے بارے میں بہت کم علم ہے اور پرانی نسلیں تاریخ میں ان کے مقام کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے رہنما کی شہادت کی یاد منانے کے لیے چند لوگ ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔
وہ لوگ جو بھگت سنگھ کا نام مقامی بیانئے سے مٹانا چاہتے ہیں وہ ان کے تعاون سے غافل ہیں۔ بھگت سنگھ نے نو آبادیاتی حکمرانی کے تحت استحصال کا شکار مقامی لوگوں کی آزادی کے لیے، مذہب اور طبقے سے قطع نظر، جدوجہد کی۔ بہت سے لوگوں نے محض نظریاتی رجحان کی وجہ سے سنگھ کو متنازع شخصیت بنانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اسی نظریے کا شکار ہو گئے ہیں جس کے خلاف وہ لڑے تھے، یعنی مذہب کی بنیاد پر تقسیم اور نفرت۔ الزام تاریخی تحریروں کے سرپرستوں اور درسی کتب کے مرتب کرنے والوں پر عائد ہونا چاہیے، جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے انہیں متنازع شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
نہ صرف بھگت سنگھ اور ان کی وراثت بلکہ ان کی چیزوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرجہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی وہ پرائمری سکول خستہ حال ہے۔ اور بریڈلاف ہال (موجودہ نیشنل کالج)، جہاں سے انہوں نے اپنی مارکسی تحریکیں چلائی اور ایک رہنما بن گئے، خستہ حالی کی تصویر ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا نیو ہاسٹل، پونچھ ہاؤس، اسلامیہ کالج، فوارہ چوک اور سینٹرل جیل لاہور کے دیگر اہم مقامات ہیں جن کا نام بدل کر بھگت سنگھ سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کی ملکیت اور کنٹرول والی عمارتوں اور نشانیوں کے برعکس، بھگت سنگھ کے گھر کو اچھی طرح سے برقرار رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ثاقب ورک کی نجی ملکیت میں ہے، جو اسے حکومت کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جو کہ بھگت سنگھ کے حوالے سے اچھا اقدام نہیں ہے۔ مقامی بیانیوں میں انہیں کبھی بھی وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں اس وقت شہید کیا گیا جب آل انڈیا مسلم لیگ انگریزوں کی حامی تھی، جو تحریک پاکستان کی چیمپیئن بنی اور بھگت سنگھ کو نصابی کتب اور تاریخی تحریروں سے خارج کر دیا۔
اگرچہ یہ مشکل کام ہے، لیکن بھگت سنگھ اور ان کی میراث کو ہماری نصابی کتب میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں، ماہرین تعلیم کو بھی اپنے مقامی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تحقیق کرنے اور مقامی بیانیہ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے، چاہے ان کے عقائد کچھ بھی ہوں۔ حکومت کو یادگاری طور پر کم از کم ایک تاریخی نشان کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کی پہل کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو مقامی انقلابی کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔