لاہور(جدوجہد رپورٹ) بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے کئی اضلاع میں عوامی مقامات پر عید کی نماز ادا کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ میرٹھ پولیس نے پابندی کا فرمان جاری کیا۔ پولیس نے خبردار کیا ہے کہ اگر کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، فوجداری مقدمات بھی درج کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاسپورٹ اور لائسنس منسوخ کرنے کی وارننگ بھی دی گئی ہے۔
’دی وائر‘ کے مطابق بدھ کو میرٹھ پولیس نے 8افراد کی فہرست ضلع مجسٹریٹ ڈاکٹر وجئے کمار سنگھ کو سونپی، جن پر گزشتہ سال عید کے دوران سڑک پر نماز پڑھنے کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے ان کے لائسنس اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
میرٹھ شہر کے ایس پی آیوش وکرم سنگھ نے کہا،‘ہم نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ قریبی مساجد میں نماز ادا کریں یا وقت پر عیدگاہ پہنچ جائیں۔ ہم نے سخت ہدایات دی ہیں کہ کسی بھی صورت میں سڑکوں پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کچھ لوگوں نے سڑک پر نماز پڑھی تھی جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اگر اس بار بھی کوئی کھلے میں نماز پڑھتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ہم لوگوں سے مسلسل اپیل کر رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال کانوڑ یاترا کے دوران پوری دہلی میرٹھ ایکسپریس 28 جولائی سے 4 اگست تک بند کی گئی تھی۔
نماز پر ایسی پابندیاں صرف میرٹھ میں ہی نہیں لگائی جا رہی ہیں بلکہ یوپی کے کئی اضلاع سے بھی ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔ لوگوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ وہ نہ صرف عوامی مقامات پر بلکہ اپنی چھتوں پر بھی نماز نہ پڑھیں۔
سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشن کمار بشنوئی نے بتایا کہ پولیس نے سڑک پر نماز پڑھنے کے خلاف ایک ایڈوائزری جاری کی ہے کہ کوئی بھی شخص سڑک پر نماز نہیں پڑھے گا۔ گھر پر اجتماعی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
علی گڑھ کے ایس پی مرگانک شیکھر پاٹھک نے کہا کہ عید کی نماز کو لے کر کوئی خاص حکم جاری نہیں کیا گیا ہے۔ہم اتر پردیش حکومت کی ایڈوائزری پر عمل کر رہے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ عوامی مقامات پر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ امن کمیٹی کا اجلاس بلا کر لوگوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں۔
ہاتھرس کے ایس پی چرن جیو ناتھ سنہا نے کہا ہے کہ انہوں نے بھی کوئی خاص حکم جاری نہیں کیا ہے۔ہم کسی بھی برادری کے کسی کو سڑکوں یا عوامی مقامات پر عبادت کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ایک تہوار کا دن ہے اور لوگ اسے اپنے گھروں میں منا سکتے ہیں۔
غازی آباد پولیس نے کہا ہے کہ اگر بھیڑ زیادہ ہو جاتی ہے تو لوگوں سے شفٹوں میں نماز پڑھنے کو کہا جائے گا۔ ٹرانس ہندن ڈی سی پی کا کہنا ہے کہ‘ہم نے تمام حساس علاقوں، مساجد اور عیدگاہوں کے قریب سیکورٹی فورسز کو تعینات کر دیا ہے۔۔۔ڈرون کے ذریعے مسلسل نگرانی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ عام طور پر نماز کو مکمل کرنے میں 5 سے 10 منٹ لگتے ہیں، جبکہ کانوڑیاترا پورے مہینے چلتی ہے۔ رام نوامی جیسی یاترا کئی گھنٹے اور لمبی دوری تک چلتی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اتر پردیش کی حکومت ہندو تہواروں میں جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے،سیکورٹی کے نام پر کوئی پابندی نہیں لگاتی بلکہ زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرتی ہے۔
کمبھ اس کی تازہ ترین مثال ہے، جس کی وجہ سے الہ آباد کے آس پاس کے اضلاع میں بھی ٹریفک جام کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ کمبھ کی وجہ سے عام شہری کی زندگی درہم برہم ہوگئی تھی، لیکن اس کی وجہ سے حکومت نے کمبھ کو بند نہیں کیا۔ کانوڑ یاترا کے دوران مذہبی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف نان ویجیٹیرینز کی دکانیں بند کرائی گئیں بلکہ دیگر اشیاء فروخت کرنے والے مسلمان دکانداروں کو بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بعد میں عدالت کی مداخلت کے بعد ا س پر روک لگی۔