دنیا

بھارت: ریپ کلچر کے خلاف اجتماعی جدوجہد

جہلم رائے

تقریباً پورے علاقے پر خواتین کا قبضہ تھا۔ ڈاکٹرز، نرسیں، ٹیچرز اور گھریلو ملازمائیں سبھی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی تھیں۔مظاہرین میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والی وہ خواتین شامل تھیں جنہیں اپنے کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی وہ طالبات شامل تھیں جنہیں اپنے کیمپس میں خود کو مضبوط رکھنے کے لیے ہر ایک انچ جگہ کے لیے لڑنا پڑتاہے۔ وہ عورتیں شامل تھیں جو گھریلو کام کی روزمرہ کی مشقت میں جکڑی رہتی ہیں۔

5رات قتل ایک رہائشی ڈاکٹر کو اس کی رات کی شفٹ کے دوران سیمینار ہال میں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے والدین کو مطلع کیا گیاکہ اس نے ’خودکشی‘ کر لی ہے اور انہیں کمرے کے اندر جانے کی اجازت ملنے سے قبل تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔

اس ڈاکٹر کی نفسیاتی صحت پر سوالیہ نشان لگا کر افواہیں پھیلائی گئیں۔ دراصل آر جی کار میڈیکل کالج کے پرنسپل نے سیمینار ہال میں ’لڑکی اتنی رات گئے کیا کر رہی تھی، جیسا سوال پوچھتے ہوئے ایک انتہائی لاپرواہی پر مبنی تبصرہ کیا۔ اس کے باوجود پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ گلا گھونٹنے سے قبل اس کی عصمت دری کی گئی۔

پرنسپل کے اس تبصرے نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا۔ بھارت میں ’یوم آزادی‘ کے موقع پر ٹیک بیک دی نائٹ ایونٹ (ایک بین الاقوامی تحریک جو جنسی اور گھریلو تشدد کے خاتمے کی وکالت اور بیداری کے لیے جانی جاتی ہے۔ مترجم)کی کال جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اس کال نے ملک بھر میں ایک دہائی سے زائد عرصے بعد بہت بڑی عوامی تحریک کو بھڑکا دیا۔ صرف مغربی بنگال میں ہی شہروں، ضلعی قصبوں اور دیہاتوں میں تقریباً250مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔ خواتین، ٹرانس اور کوئیر لوگوں نے سماجی بندھنوں کو توڑتے ہوئے انصاف کے حصول کے لیے سڑکوں پر قبضہ جما لیا تھا۔

14اگست کی رات تاریخ ساز تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ملک میں جنسی ہراسانی کے خلاف ٹیک بیک دی نائٹ مہم چلائی جا رہی ہو۔ یہ بھی پہلی بار نہیں تھا کہ بھارت میں خواتین اتنی بڑی تعداد میں یکجہتی کے ساتھ اور شدید غصے میں عصمت دری اور جنسی ہراسانی کے خلاف انصاف کی مانگ کرنے کے لیے باہر آرہی تھیں۔

یہ بھی پہلا موقع نہیں تھا کہ بھارت میں اس طرح کا وحشیانہ جرم کیا گیا ہو۔ آج کے بھارت میں طاقتیں ہر حکومت میں عصمت دری کے کلچر کو پروان چڑھاتی آرہی ہیں۔ ایسے میں آرجی کار میں جو ہوا وہ اس سب سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ آج کے بھارت میں ایک فاشسٹ دائیں بازو کی حکومت کی سربراہی میں آرجی کار میں قتل اور پھر اہلکاروں کی طرف سے انصاف کا گلا گھونٹنے کی کوشش جیسے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے جس کے رہنما کھلے عام بدعنوانی کرتے ہیں، اورجنہوں نے عصمت دری کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر اختلاف رائے کو روکنے اور خواتین کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کرنا ایک معمول بنا رکھا ہے۔

اس سب کے باوجود اس احتجاج کے بارے میں سب سے تاریخی بات یہی تھی کہ یہ خواتین کا بے ساختہ اور خودرو احتجاج تھا۔ مغربی بنگال کے مختلف حصوں میں خواتین نے تحفظ اور بلا خوف و خطر چلنے پھرنے کے حق، محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ، عوامی بیت الخلاء، ہر کام کی جگہ پر فعال داخلی شکایات کمیٹی کے قیام، منظم اور غیر منظم شعبوں میں خواتین کے لیے بنیادی لیبر رائٹس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے مطالبات پر احتجاجی مظاہرے کیے۔

ان میں سے بہت سی خواتین کے لیے یہ ان کا پہلا احتجاج تھا۔ بہت سی خواتین کے لیے یہ کھلے آسمان تلے ان کی پہلی رات بھی تھی۔ بہت سی خواتین کے لیے یہ ان کی زندگیوں میں نعرے لگانے کا پہلا موقع تھا۔ بہت سی خواتین کے لیے یہ سیاسی تنظیم سازی کا پہلا تجربہ بھی تھا۔ وہاں خواتین گیگ ورکرز تھیں، جو اپنی ورک یونیفارم میں کام پر پیش آنے والے ہراسانی کے تجربات شیئر کر رہی تھیں۔ وہاں نجی اور سرکاری ہسپتالوں کی نرسیں تھیں، جو رات کو اپنی ڈیوٹی بحفاظت انجام دینے کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر کی سہولت نہ ہونے کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ وہاں تھیٹر کے فنکار اپنے کام میں ہونے والی ہراسانی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

خواتین، کویئر اور ٹرانس لوگ تھے، جنہوں نے احتجاجی مقامات تک پہنچنے کے لیے دو سے تین گھنٹے کا سفر کیا تھا۔ جب پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی محسوس ہوئی تو خواتین نے اپنی ٹرانسپورٹ کو منظم کرنے کے لیے گروپس بنائے اور ساتھ سفر کیا۔ وہاں قریبی کچی آبادیوں سے تعلق رکھنے والی خواتین گھر یا کام پر ہراساں کیے جانے، تشدد کے تجربات شیئر کر رہی تھیں۔ مائیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ آئیں۔ بہنیں اکٹھی ہوئیں۔ جلسوں میں پرانے دوست جڑ گئے۔ یہ مزاحمت کا تہوارتھا۔

مظاہرین کو اپنے واش رومز استعمال کرنے کی اجازت دینے کے لیے اجنبیوں نے رات بھر اپنے گھر کھلے رکھے۔ علاقے میں مارکیٹ کوآپریٹیو نے خواتین کے لیے اپنی جگہیں کھلی رکھی تھیں۔ قریبی پبلک یونیورسٹی کیمپس کے طلبہ نے کیمپس کے گیٹ اور خواتین کے ہاسٹلز کو کھلا رکھنے کے لیے اپنے حکام سے مذاکرات کیے۔ ایسی خواتین بھی تھیں جو رات کے وقت مردوں کے ساتھ کے بغیر اپنے گھر وں سے باہر نکلیں اور اپنے محلوں میں احتجاجی مظاہروں کو منظم کرتے ہوئے اپنے لیے عوامی مقامات پر جگہ حاصل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

’آزادی‘

’آزادی‘کا نعرہ لگاتے ہوئے خواتین نے عصمت دری، گھریلو تشدد، کام کی جگہ پر ہراسانی، اخلاقی پولیسنگ، گھریلو مشقت، کام کی جگہوں پر امتیازی اجرت، باپ اور بھائیوں کی سرپرستی کرنے والے تبصروں اور برہمنی پدرانہ سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ وہاں خواتین سرخ پرچم کو ہوا میں لہرا رہی تھیں، جب کہ ٹرانس اور کویئر لوگ قوس قزح کے رنگوں والے جھنڈے لے کر آئے تھے۔

خواتین نے انقلابی خواتین کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں، جو لوگوں کو خواتین کی مزاحمت کی میراث کی یاد دلاتی تھیں۔ شہید ہندوستانی انقلابی پریتلتا وڈیدر کی تصویر کے ساتھ ایک بہت بڑا سرخ جھنڈا اونچا اڑتا ہوا ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو خود کو اس کے ساتھی سمجھتے تھے۔ نا تجربہ کار وں کے لکھے ہوئے ہاتھ سے بنے پوسٹر تھے، جن پر ان لوگوں کے حق میں نعرے درج تھے جن پر آواز اٹھانے کی پابندی عائد ہے۔ مظاہرین نے رات گانے گاتے، پرفارمنس اور تجربات کا اشتراک کرتے، چیختے اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کرتے کھلے آسمان تلے گزاری۔

جیسے ہی رات ہوئی، خبریں آنا شروع ہوئیں کہ آر جی کار میں ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں پر حملہ کیا گیا۔ غنڈوں کا ایک گروپ جاری احتجاجی دھرنے کے احاطے میں گھس گیا تھا،دھرنا اکھاڑ دیا گیا، احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں پر تشدد کیا گیا اور کرائم سین کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ واضح تھا کہ ان کا مقصد ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا اور مظاہرین کو دھمکی دینا تھا۔ اس دوران ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کو لاتعلق رہنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔

احتجاجی پروگرام کے طور پر شروع ہونے والا یہ ایونٹ ایک بھرپور تحریک میں تبدیل ہو گیا، جس میں ان لوگوں نے بھی شرکت کی جو اب تک سڑکوں پر بہنے والے اس خون سے بے نیاز تھے۔ یہ ایک ایسی تحریک تھی جو خواتین کے تحفظ اور وقار کو سمجھتی تھی اور اس کا تعلق صحت عامہ کے اس نظام کے حق سے تھا،جو عام لوگوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس کی بجائے جب بدعنوانی نے اقتدار سنبھالا تو نظام درہم برہم ہو رہا تھا، یہاں تک کہ مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیاتھا۔

استثنیٰ، نجکاری اور نیو لبرل ریاست کا کلچر

آرجی کار میں احتجاجی مرکز کی توڑ پھوڑ کے ذریعے پیغام دینے اور طاقت کا کھلے مظاہرہ کرنے کے عمل نے اس غصے کو بھڑکا دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں سطح کے نیچے پک رہا تھا۔ ہم میں سے وہ لوگوں نے،جو 2012کے دہلی عصمت دری کیس کے دوران طالبعلم تھے، ہزاروں طالبات اور متوسط طبقے کی خواتین کو انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر قابض ہوتے دیکھا تھا۔ اس وقت ایک نوجوان متوسط طبقے کی خاتون کی عصمت دری کی گئی تھی اور بعد میں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس کے بعد مظاہروں نے صنفی تشدد پر گرما گرم بحث شروع کر دی تھی۔ بعد میں ایک عدالتی کمیٹی نے رپورٹ کیا کہ ناکافی انفراسٹرکچر اور حکومت اور پولیس کی جانب سے ناکامیاں خواتین کے خلاف جرائم کی جڑ ہیں۔ اس شور و غل کی وجہ سے بھارت میں عصمت دری کے قوانین میں تبدیلی آئی۔ پھر بھی ایک دہائی بعد جب ہم دوبارہ سڑکوں پر نکلے تو ہمیں اب بھی استثنیٰ کی ثقافت نے چیلنج کیا ہے۔

پارلیمانی بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو تک تقریباً ہر سیاسی جماعت نے انتخابی سیاست میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے بار بار عصمت دری کرنے والوں کو ڈھال دی اور عصمت دری کے کلچر کو پروان چڑھایا ہے۔ ہندوتوا فاشزم کے عروج کے بعد صنفی تشدد میں بھیانک اضافہ ہوا ہے۔ عصمت دری کو اکثر مظاہروں کو دبانے اور اقلیتوں پر اختیار جمانے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

عصمت دری کرنے والوں کے ذریعے پروان چڑھنے والے استثنیٰ کے اس کلچرمیں شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ملزمان کوبچانے کے لیے ریاستی مشینری کے بے دریغ استعمال نے ایسی مثالیں قائم کیں جن پر ہر حکمران جماعت عمل کر سکتی ہے۔ مغربی بنگال میں حکمراں جماعت نے آر جی کار کرائم میں مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے اپنی تمام تر مشینری استعمال کی، یہ کوئی حیرت کی بات بھی نہیں تھی۔ تاہم اس بار اس واقعے نے لوگوں میں بھرے غصے کو بھڑکا دیا۔

شاید آر جی کار کے عصمت دری اور قتل کے واقعے نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو اس لیے بھی جنم دیا، کیونکہ متاثرہ خاتون ایک ڈاکٹر تھی۔ وہ ایک معزز وائٹ کالر جاب کرتی تھی اور اس پر اس وقت حملہ کیا گیا تھا، جب وہ ایک سرکاری ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی پر موجود تھی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ خواتین کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس واقعے نے یہ بھی بے نقاب کیا کہ ہمارے کام کی جگہیں کتنی غیر مساوی ہیں، انہیں کس طرح کام کرنے والی خواتین، ٹرانس اور کوئیر لوگوں کو کمزور بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منظم اور غیر منظم شعبوں سے تعلق رکھنے والی محنت کش خواتین ریلیوں میں امڈ آئیں۔

آنگن واڑی(دیہی بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے)ورکرز، دوپہر کا کھانا دینے والی ورکرز، آئی سی ڈی ایس(چائلڈ ہیلتھ) ورکرز، گھریلو ملازماؤں، آئی ٹی ورکرزاور گیگ ورکرزکی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں۔ انصاف اور وقار کے مطالبات کا شور کام کی جگہوں تک پہنچا۔ انہوں نے آجر کے احتساب کا مطالبہ کیا کہ وہ خواتین، ٹرانس، اور کوئیر کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور اس بات کا تعین کریں کہ صنفی تشدد کو کون حل کرے گا۔

ماضی میں صنفی تشدد کے واقعاتکے بعد اس طرح غم و غصے کا اظہار نہیں ہوا۔ آر جی کار واقعے کے گرد ہونے والے احتجاج نے خاموشی کے تمام امکانات کو توڑ کر رکھ دیا۔ ماضی میں عصمت دری کو ریاستی جبر کے ایک حصے کے طور پر اندرونی علاقوں میں تحریکوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، صنفی تشدد کو ذات پات کے مظالم کو برقرار رکھنے، یا قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس بار ہر ایک پہلو پر بات ہو رہی تھی۔

’ری کلیم دی نائٹ‘ تحریک نے صنفی انصاف پر بات چیت کا آغاز کیا، جس نے کواتین کے کام کی جگہوں اور عوامی مقامات پر تحفظ اور وقار کو یقینی بنانے کے لیے ادارہ جاتی میکانزم کی ناکامی کو بے نقاب کیا۔ استثنیٰ کے خلاف اس لڑائی نے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کی آوازوں کو بھی تقویت بخشی جو سرکاری اسپتالوں میں بدعنوانی سے متاثر ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔

مختلف سرکاری ہسپتالوں سے بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے، جس سے ایک بڑے نظام کا پردہ فاش ہو گیا جسے صحت کی دیکھ بھال کو پسماندہ افراد کے لیے مزید ناقابل رسائی بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ان بیانیوں نے ایک کمزور نظام کو بے نقاب کیا جس میں زیادہ کام کے بوجھ کا شکار کارکن مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ نظام جان بوجھ کر صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو نجکاری کی طرف دھکیلنے والے سنڈیکیٹس کے ذریعے غیر فعال بنایا گیا ہے۔

بھارت میں صحت عامہ کے نظام کی مخدوش حالت وبائی امراض کے دوران پہلے ہی بے نقاب ہوچکی تھی۔ ان سے 1980 کی دہائی کے دوران ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے حکم پر قرض کی شرائط کے طور پر عائد کردہ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسیوں کے بارے میں بات چیت کا آغاز ہوا۔ اس نے پرائیویٹائزیشن کی راہ ہموار کی اور اس طرح حکومت کو صحت کی خدمات کے بنیادی ضامن اور فعال کرنے والے کے طور پر اپنی ذمہ داری سے نجات ملی۔

سرکاری ہسپتال میں ریذیڈنٹ ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل نے صحت عامہ کے کارکنوں سے ریاست کی بے حسی کو بے نقاب کر دیا۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ شدت سے کام کریں گے کیونکہ ان کے ارد گرد نظام تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ درحقیقت اس قتل نے ایک بڑی تحریک کو جنم دیا ہے، جس کی سربراہی پورے بنگال کے 22 میڈیکل کالجوں میں جونیئر ڈاکٹروں نے کی ہے، تاکہ صحت عامہ کے بہتر اور محفوظ نظام کا مطالبہ کیا جا سکے۔

احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں نے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی کال دے دی اور وزارت صحت کے سامنے دھرنا شروع کر دیا۔ حکومت نے ہسپتال کے احاطے میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے ذریعے سرکاری ہسپتالوں میں حفاظت کو یقینی بنانے کا وعدہ کرکے احتجاج کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن مظاہرین نے اس خیال کو مسترد کردیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ کام کی جگہ کو جمہوری بنانے، بدعنوانی کو ختم کرنے اور بگڑتے ہوئے نظام کو ٹھیک کرنے میں مدد کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے ہی ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے گا۔

تحریک کے مطالبات خاص طور پر متوسط طبقے اور محنت کش طبقے کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں،جو صحت عامہ کے اس نظام سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے صحت کے شعبے کی نجکاری کے اخراجات خود برداشت کیے ہیں۔

حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی فائدے کے لیے تحریک کو ہائی جیک کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن احتجاج کرنے والے عوام نے اسے مسترد کر دیا۔انہوں نے اب تک تقریباً ہر پارلیمانی سیاسی جماعت کو جمود کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ عوام کے شدید غم و غصے کے پیش نظر حکومت کو مجبور کیا گیا کہ کمشنر پولیس کا تبادلہ کیا جائے، جنہوں نے آر جی کار کیس میں ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں سہولت فراہم کی تھی۔

احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں نے اپنی ہڑتال ختم کر دی، انہیں ایک ایسی حکومت کے سامنے بھوک ہڑتال شروع کرنے پر مجبور کیا گیا جس نے ان کے دیگر مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تاہم وزیر اعلیٰ نے ملاقات کے بعد ان کے مطالبات پر غور کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کے بعد ہڑتال ختم کر دی گئی۔

ایک فیصلہ اور مستقبل کی جنگ…

ٹرائل کورٹ کے فیصلے نے کلکتہ پولیس کے لیے کام کرنے والے ایک شہری رضاکار کو آر جی کار میڈیکل کالج اور ہسپتال میں 31 سالہ رہائشی ڈاکٹر کی عصمت دری اور وحشیانہ قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اس فیصلے نے مظاہروں کو مزید ہوا دی ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس پورے مقدمے میں قاتل کو تحفظ فراہم کرنے اور ہسپتال کے حکام کو اپنے ملازمین کی عزت اور حفاظت کی ذمہ داری سے بری کرنے میں ریاست کی مداخلت کو چھپایا جا رہا ہے۔

ایک طرف بنگال فیصلے میں موجود خامیوں کو چیلنج کرنے کے لیے ایک اور لڑائی لڑنے کی تیاری کر رہا ہے،وہیں ریاست مجرم کو سزائے موت دینے کے لیے آواز اٹھا رہی ہے۔ اس کے باوجود یہ حکمران جماعت ہی ہے جس نے سب سے پہلے ملزموں کو بچایا اور خود بدعنوانی کے مختلف گروہ چلانے والے سنڈیکیٹس کے ہاتھ میں دستانے کے طور پر جانی جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سزائے موت کا مطالبہ جونیئر ڈاکٹروں کی تحریک سے سامنے نہیں آیا تھا اور نہ ہی ’ری کلیم دی نائٹ‘ تحریک نے یہ مطالبہ کیا۔ بھارت میں صنفی انصاف کی جدوجہد نے تاریخی طور پر سزائے موت کے خلاف مہم چلائی ہے۔ اسے ریاستی جبر کا ایک آلہ قرار دیا گیا ہے، جس نے ریاست کو تشدد پر اجارہ داری عطا کی۔ ریاست ہمیشہ کسی بھی نظامی تبدیلی کو شروع کرنے کی اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہوتے ہوئے کسی فرد کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ فیصلہ بنگال کے ایک ضلعی قصبے کے ایک اور سرکاری ہسپتال میں ایک حاملہ آدیواسی خاتون کی موت کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔

وہ خاتون ایک ایسی زہریلی دوا لگائے جانے کے بعد مرگئی، جس پر دوسری بھارتی ریاستوں میں پابندی عائد تھی۔ اس کے باوجود ایک دوا ساز کمپنی کے دباؤ میں بنگال کے سرکاری ہسپتال پسماندہ خواتین کی زندگیوں کی فکرسے آزادہیں اور اب بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار پھر اس کی موت نے صحت عامہ کے نظام کی فالٹ لائنوں کو بے نقاب کر دیا ہے کیونکہ ریاست اور سرمائے کا گٹھ جوڑ خواتین یا پسماندہ لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں بہت کم سوچ بچار کرتا ہے۔
ایک عوامی حقوق نسواں کی تحریک کا کردار

یہ بات اہم ہے کہ کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے بارے میں بھارت میں حقوق نسواں کی تحریک کا آغاز ایک نچلی سطح کی کمیونٹی ورکر کی اجتماعی عصمت دری سے ہوا،جو اپنے گاؤں میں کم عمری کی شادی کے خلاف ریاستی بیداری کا پروگرام چلا رہی تھی۔

1990 کی دہائی کے اوائل میں اس تحریک نے ریاست کو بطور آجر جوابدہ بنانے کے لیے جدوجہد کی۔ یہ قانونی طور پر اس بات پر زور دینے کے قابل تھی کہ کام کی جگہ پر جنس پرستی اور جنسی طور پر ہراساں کرنا کام کا ماحول خراب کرتاہے۔ یہ آجر کا فرض ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی حفاظت اور عزت کو یقینی بنائے۔

30 سال بعد کام کی جگہیں اب بھی خواتین، ٹرانس اور کویئر لوگوں کو ایسے کارکنوں کے طور پر کمزور بنانے کے لیے بنائی گئی ہیں جن کی محنت سستی ہو گی۔ مزید برآں منظم شعبے میں خواتین کی افرادی قوت کی شرکت کا تناسب کم ہو رہا ہے،کیونکہ خواتین کی مزدوری کی غیر رسمی شکل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود غیر رسمی شعبے میں آجروں کو نہ تو کام کے محفوظ حالات فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور نہ ہی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی ضابطے کی پابندی کرناکوئی فرض ہے۔ درحقیقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ کام کی جگہ کے وقار کی جنگ نہ صرف خواتین کی بطور کارکن کے شناخت پر زور دینا ہے، بلکہ خود کام کی قدر کے بارے میں بھی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب نیو لبرل پالیسیاں ریاست کو عوامی خدمات سے ہاتھ کھینچنے کے قابل بناتی ہیں، جب یونین سازی کو جرم بنانے اور مالکان کے خزانے کو بھرنے کے لیے کام کے اوقات میں توسیع کے لیے لیبر کوڈز کو دوبارہ لکھا جارہا ہے، جب فیکٹریوں کی بندش اور پبلک سروس یونٹس کی نجکاری مزدوروں کو غیر رسمی بنانے کے قابل بنا رہی ہے، جب دائیں بازو کی فاشسٹ ریاست ہر روز تشدد کو معمول پر لا رہی ہے اور ممکنہ طور پر ہر روز تشدد کو معمول بنتا جارہا ہے۔ایسے وقت میں تحفظ کے لیے ہر روز اس جنگ کو منظم کرنے کے لیے کھیتوں، کارخانوں، گھروں،ہسپتالوں، اسکولوں اور گلیوں میں کام کرنے والے لوگوں کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

(بشکریہ: انٹرنیشنل ویو پوائنٹ، ترجمہ: حارث قدیر)

Jhelum Roy
+ posts