لاہور (جدوجہد رپورٹ) پشاور میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عوامی اجتماعات پر پابندی کے فیصلے کے باوجود ہزاروں افراد نے ہفتے کے روز عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا۔
انتظامیہ نے ہفتہ کو شہرمیں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا، جس کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں 5 یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
تاہم قوم پرست جماعتوں بشمول نیشنل عوامی پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، پشتون تحفظ موومنٹ اور دیگر سول سوسائٹی گروپوں کی حمایت سے پشاور میں اولسی پاسون (عوامی مزاحمت) تحریک کے تحت ریلی منعقد کی گئی۔
مظاہرین میں نوجوانوں اور خواتین کی کثیر تعداد بھی شامل تھی، مظاہرین نے سفید جھنڈے، پلے کارڈز اوربینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر امن کیلئے صوبے میں عسکریت پسندی کے خلاف موثر کریک ڈاؤن کے مطالبات درج تھے۔
پولیس نے بڑی تعداد میں نفری تعینات کی، جبکہ پشاور پریسکلب جانے والی سڑکوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیاتھا۔
ریلی سے اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین، پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین اور این ڈی ایم رہنما محسن داوڑ سمیت دیگر نے خطاب کیا۔
پشاور میں ہونے والے اس بڑے احتجاج کو پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پرکہیں نہیں دکھایا گیا۔ اس احتجاج کا مکمل بلیک آؤٹ کیاگیا، جس کے خلاف سوشل میڈیا پرشدید رد عمل کا مظاہرہ کیاجا رہا ہے۔
معروف صحافی حامد میرنے ٹویٹر پر لکھا کہ ’سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان تو ٹیلی ویژن سکرین پر لمبی لمبی تقریریں کر سکتے ہیں، لیکن منظور پشتین کو ٹی وی سکرین پر کیوں نہیں دکھایا جا سکتا؟ فرق صرف اتنا ہے کہ خان صاحب طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں اور منظور پشتین کو طالبان اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔‘
ایک اور ٹویٹر صارف ندیم اکسر نے پشاور مظاہرے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پشاور کے شاندار امن مارچ اور میڈیا کے بلیک آؤٹ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست دہشت گردی کے خلاف کتنی سنجیدہ ہے۔ اب پشتون وطن کے بچے بچے کو معلوم ہوا ہے کہ میڈیا کتنا آزاد ہے؟ اس ریموٹ کنٹرولڈ جمہوریت، میڈیا اور ریاستی اداروں سے عوام کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔‘