لاہور (جدوجہد رپورٹ) بھارت میں نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں کسان ٹریکٹروں سمیت رکاوٹیں توڑتے ہوئے دارالحکومت نئی دہلی میں داخل ہو گئے۔ کسانوں کی ایک بڑی تعداد لال قلعہ پر پہنچ گئی اور مظاہرین نے قلعہ کی دیواروں پر چڑھ کر اس مقام پر سرخ پرچم لہرا دیئے جہاں بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ کسان یونینوں نے یکم فروری کو پارلیمنٹ کی طرف مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔
حکومت نے کسانوں کو روکنے کیلئے دارالحکومت کے داخلی راستوں پر کنٹینرز اور سیمنٹ کے بھاری بلاک رکھ کر رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی تھیں۔ کسانوں نے ٹریکٹروں کے ذریعے راستوں میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا دیں جس کے بعد پولیس نے کسانوں کو روکنے کیلئے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ایک کسان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ متعدد کسان زخمی ہوئے ہیں۔ کسانوں نے ہلاک ہونے والے کسان کی لاش سڑک پر رکھ کر کئی گھنٹے احتجاجی دھرنا دیا لیکن بعد ازاں پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ سے کسانوں کو منتشر کر دیا۔
بھارتی کسان مودی حکومت کی طرف سے متعارف کروائے گئے کسان مخالف زرعی قوانین کے خلاف نومبر کے آخری ہفتہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج دلی کے نواح میں تین مقامات پر جاری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں کسان اور ان کے خاندان شریک ہیں۔ ہزاروں کسانوں نے دہلی کے داخلی راستوں پر احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے ٹریکٹر ریلی کا انعقاد کر رکھا تھا، اس ریلی کو ٹریکٹر پریڈ کا نام دیا گیا تھا۔
پنجاب، ہریانہ، مغربی اتر پردیش، راجستھان اور کئی دیگر ریاستوں سے ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹر لے کر دلی کے نواح میں پہنچے اور پھر وہ مختلف اطراف سے دارالحکومت میں داخل ہوئے۔ ٹریکٹر پریڈ میں ہزاروں ٹریکٹرز کے ہمراہ کسان شریک تھے۔
کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تینوں متنازعہ قوانین واپس لئے جائیں۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین کے ذریعے منڈیوں پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہو جائے گا اور کسانوں کا معاشی قتل کیا جائے گا۔
مجموعی طور پر یہ اصلاحات زرعی اجناس کی فروخت، ان کی قیمت کے تعین اور ان کے ذخیرہ کرنے سے متعلق طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہیں جو ملک میں طویل عرصے سے رائج ہیں اور جس کا مقصد کسانوں کو آزاد منڈیوں سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔
نئے قوانین کے تحت نجی خریداروں کو یہ اجازت حاصل ہو گی کہ وہ مستقبل میں فروخت کرنے کے لیے براہ راست کسانوں سے ان کی پیداوار خرید کر ذخیرہ کر لیں۔
پرانے طریقہ کار میں صرف حکومت کے متعین کردہ ایجنٹ ہی کسانوں سے ان کی پیداوار خرید سکتے تھے اور کسی کو یہ اجازت حاصل نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ان قوانین میں ’کانٹریٹک فارمنگ‘ کے قوانین بھی وضع کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کو وہی اجناس اگانا ہوں گی جو کسی ایک مخصوصی خریدار کی مانگ کو پورا کریں گی۔
سب سے بڑی تبدیلی یہ آئے گی کہ کسانوں کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی پیداوار کو منڈی کی قیمت پر نجی خریداروں کو بیچ سکیں گے۔ ان میں زرعی اجناس فروخت کرنے والی بڑی کمپنیاں، سپر مارکیٹیں اور آئن لائن پرچون فروش شامل ہیں۔
اس وقت انڈیا میں کسانوں کی اکثریت اپنی پیداوار حکومت کی زیر نگرانی چلنے والی منڈیوں میں ایک طے شدہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
یہ منڈیاں کسانوں، بڑے زمینداروں، آڑھتیوں اور تاجروں کی کمیٹیاں چلاتی ہیں جو کسانوں اور عام شہریوں کے درمیان زرعی اجناس کی ترسیل، ان کو ذخیرہ کرنے اور کسانوں کو فصلوں کے لیے پیسہ فراہم کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔
یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے کچھ قواعد اور اصول ہیں اور جس میں ذاتی اور کاروباری تعلقات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر نئے قوانین سے کسانوں کو فائدہ ہوتا تو وہ یہاں دھرنے پر کیوں بیٹھے ہوتے۔ اناج کی مقررہ قیمت کی قانونی ضمانت کے مطالبے پر زور دینے کے لیے ہزاروں کسان ممبئی کے آزاد میدان میں بھی جمع ہیں۔ منگل کے روز ملک کی مختلف ریاستوں میں پریڈ کے بعد کسانوں کی حمایت میں جلسے جلوس بھی منعقد کئے گئے۔
اس دوران کسان یونینوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے تینوں زرعی قوانین واپس نہیں لیے تو وہ یکم فروری کو عام بجٹ پیش کیے جانے کے روز پارلیمنٹ تک مارچ کریں گے۔