دنیا

سول ملٹری تعلقات اور پاک بھارت امن

عصمت اللہ نیازی

’سول ملٹری دراڑ کیوجہ سے چار بار پاک بھارت امن ناکام ہوا‘ کے عنوان سے دیرینہ دوست عائشہ صدقہ کا مضمون نظروں سے گزرا جس میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام اور ملک کی سول ملٹری لیڈرشپ کے درمیان سنگین اور ہمیشہ بڑھتی ہوئی خلیج کی درست نشان دہی کی ہے۔

ایک طرح سے انہوں نے مضمون فضائیہ کے ایک سابق افسر مبینہ دفاعی تجزیہ نگار ایئر وائیس مارشل (ریٹائرڈ) ارشد چودھری کے مضمون کے جواب میں لکھا۔ ارشد چودہری نے اپنے مضمون میں اقرار کیا تھا کہ بھارت ایک بڑی علاقائی طاقت اور پاکستان کے مقابلے میں معاشی اور سماجی طور پربرتر ہے۔

نشریاتی صحافت کے بتیس سالوں میں مجھے بہت سے دوسرے اہم ترین تاریخ ساز واقعات کے علاوہ 1999ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور کے دورے سے لیکر’لاہور دہلی دوستی بس‘ اور پھر 2003ء سے 2007ء تک ہونے والے ’کمپوزٹ ڈائیلاگ‘ اور اسلام آباد اور دلی کی سارک کانفرنسوں کی رپورٹنگ کا موقع ملا۔

جنرل پرویز مشرف جو اس وقت آرمی چیف تھے انہوں نے لاہور میں بھارتی وزیر اعظم کی بذریعہ واہگہ بس پر لاہور آمد پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ سروسز چیف کی باڈی لینگویج سے لگتا تھا کہ بھارت کے ساتھ امن کی سول حکومت کی کوشش کو فوج کی حمایت حاصل نہیں۔ اسکا ثبوت وزیر اعظم واجپائی کے دورے کے دوران ہی مل گیا جب اسٹبلشمنٹ کے ہمیشہ قریب رہنے والی جماعت اسلامی کو لاہور کی سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کی کھلی چھٹی دی گئی۔ فروری کی سرد راتوں میں جب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم (نواز شریف) کی طرف سے شاہی قلعہ میں دی گئی ضیافت میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے تو جماعت اسلامی کے کارکنوں نے انکے کارواں کو نشانہ بنایا اور لاہور کی شاہراہوں کو پتھروں سے بھر دیا۔

پرویز رشید جو اس زمانے میں سرکاری ٹی وی کے چیئرمین ہوا کرتے تھے، نے دوسرے دن مجھ سے رابطہ کر کے حکم دیا کہ آج رات کے خبرنامہ میں جماعت کے کارکنوں کی لاہور کی سڑکوں پر اس غنڈہ گردی کی رپورٹ چلنی ہے۔

پی ٹی وی کی تمام ترسہولیات واجپائی کی مصروفیات کو کور کرنے پر مامور تھیں جس وجہ سے جما عت اسلامی کی ہنگامہ آرائی کو کور نہ کیا جا سکا تھالیکن میں نے جنگ کے ایک فوٹوگرافر سے رابطہ کر کے اور اخراجات ادا کر کہ اس ہنگامہ آرائی کی ایک رپورٹ خبرنامہ میں بنا کر چلائی۔ تا ہم، ادارے کی انتظامیہ اتنی سہمی اور محتاط تھی کہ میری اپنی آواز کے بجائے نیوز کاسٹر کی آواز میں رپورٹ چلی۔

گو کہ دونوں ملکوں کی منتخب لیڈرشپ کی کامیاب بات چیت کے بعد لاہور ڈیکلریشن میں یہ طے ہو چکا تھا کہ دونوں ملک ایک دسرے کے خلاف ’روایتی اور غیر روایتی تنازعات‘سے گریز کریں گے، لیکن جنرل مشرف کو یہ بالکل نامنظور تھا۔ یوں بھارتی وزیر اعظم کے دورے کے چند ماہ بعد ’کارگل ایڈونچر‘ کیا گیا۔ اس مہم کی وجہ سے پاکستان کو نہ صرف اپنے جوانوں کی جانیں قربان کرنی پڑیں بلکہ عالمی طور پر بھی پاکستان کو شدید تنقید اور ہزیمت کا شکار ہونا پڑا۔

جولائی 2001ء میں دونوں ملکوں کے مابین آگرہ کانفرنس کسے یاد نہیں۔ اس وقت بھی دونوں ملک سمجھوتے پر دستخط کرنے کے قریب تھے گو بھارتی قیادت، خاص کر وزیر اعظم واجپائی کو جنرل مشرف پر قطعاً بھروسہ نہیں تھا۔

جنرل مشرف کو پورا بھارت آج بھی کارگل جنگ کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ جنرل مشرف آگرہ سے ناکام واپس آئے تو 2001ء کے آخر 2002ء کے اوائل میں دونوں ملکوں کی فوجیں ایک بار پھرآمنے سامنے آ گیں۔ امریکہ کی مداخلت پر معاملہ سلجھا۔ فروری 2002ء کھٹمنڈو میں، سارک کانفرنس میں جنرل مشرف نے اپنی تقریر کے بیچ روسٹرم چھوڑ کر اٹل بہاری واجپائی کے پاس گئے جو جنرل مشرف کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کر رہے تھے اور انکی طرف ہاتھ بڑھایا۔ دونوں کے مصافحے کو دنیا بھر میں ٹی وی سکرینوں پر دکھایا گیا۔ یوں لگا کہ بس اب دونوں پڑوسیوں کے درمیان امن قائم ہوا چاہتا ہے۔

2003ء کی اسلام آباد سارک کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی مختصر ملاقات نے ایک بار پھر عالمی میڈیا میں جگہ پائی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان ’کمپوزٹ ڈائیلاگ‘ کے آغاز پر اتفاق کیا گیا۔ یوں کشمیر سمیت تمام امور پر بات چیت کا آغاز ہوا۔

2006ء میں دونوں ملکوں کے درمیان سیکرٹری لیول کی بات چیت کی کوریج کے لئے مجھے دہلی بھیجا گیا۔ مذاکرات کے آغاز سے قبل خارجہ امور اور پاک بھارت تعلقات کی کوریج کرنے ولے بھارتی صحافیوں سے ملاقاتوں میں سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ تجارت اور میری ٹائم کے علاوہ سر کریک اور سیاچن کے مسئلے پر ان مذاکرات پر اتفاق ہو جائے گا اور دستخط بھی ہونگے۔ بھارتی صحافیوں کا خیال تھا کہ اس کے بعد کشمیر پر حتمی بات چیت کا آغاز ہو گا۔

2006ء کی سارک کانفرنس کی کوریج کے لئے دوبارہ دہلی جانا ہوا جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم شوکت عزیز نے کی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں چیف جسٹس افتخار چودھری معطل کر دیے گئے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔

چند سال پہلے نیشنل پریس کلب میں ’سینئر جرنلسٹس فورم‘ میں پاکستان کے بھارت میں تعینات ایک سابق ہائی کمشنر سے جب سر کریک اور سیاچن پر سمجھوتے نہ ہونے کا سوال کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں ملکوں کے درمیان ان دونوں مسئلوں پر اتفاق ہو چکا تھا تاہم وکلا تحریک کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی مقبولیت کھو چکے تھے، جس کی وجہ سے بھارت نے ان اہم ترین مسئلوں پر سمجھوتوں پر دستخط سے گریز کیا۔

2019ء میں، اس وقت کے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اقتصادی معاشی ماہرین کی کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے ایک تحقیق کرائی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت سے کس کو فائدہ ہو گا۔ کانفرس میں شریک ایک معاشی ماہر کے مطابق انہوں نے اعتراف کیا کہ اسکا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان اور خاص کر فوج کو ہو گا جس کے پاس مال کی ترسیل کے لئے نیشنل لاجسٹک سیل جیسے ادارے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد کی خلیج کارگل وار اور ممبئی حملوں کی وجہ سے بہت گہری ہے۔ بعد ازاں، کلبھوشن کی گرفتاری اوربھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری سے یہ خلیج مزید گہری ہوئی۔ اس خلیج کا بھرنا وقت کی ضرورت ہے جس کے لئے دونوں ملک کی قیادت کو انتھک محنت کرنا ہو گی اور دونوں اطراف کی فوجی لیڈرشپ کو اس کوشش کا احترام کرنا ہو گا۔

Asmat Ullah Niazi
+ posts

عصمت اللہ نیازی سینئر براڈ کاسٹ جرنسلٹ ہیں۔ وہ ایک عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) سے وابستہ رہے۔ ان دنوں بطور فری لانس کام کر رہے ہیں۔ ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔