دیپانکر بھٹاچاریہ
ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک اب ایک صدی پرانی ہوچکی ہے۔ اگرچہ کمیونسٹ پارٹی کے حقیقی یوم تاسیس کے حوالے سے مختلف آراء ہیں، تاہم سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم ایل) 26دسمبر1925کو بطور پارٹی سی پی آئی کے یوم تاسیس کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ تمام حوالوں سے بھی ہم 1920کی دہائی کے اوائل کو اس دور کے طور پر شناخت کر سکتے ہیں، جب ہندوستان میں کمیونسٹ نظریات کے گرد سرگرمیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اس لیے یہ تحریک واضح طور پر ہندوستان میں ایک صدی پرانی ہے۔
تاہم اس مقالے کا مقصد ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کی تاریخ پر نظرثانی کرنا نہیں ہے،بلکہ موجودہ چیلنجز پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ماضی سے ترغیب اور سبق حاصل کرنا ہے۔ عمومی طور پر ہم ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کی پہلی صدی کو چار مرحلوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، نوآبادیاتی دور، آزادی کے بعد کا دور جو ایمرجنسی اور اس کے بعد کی صورتحال پر محیط ہے،نیو لبرل پالیسیوں کا 1990کے بعد ہندوتوا کے جارحانہ عروج کا دور، اور صریح فسطائی جارحیت کا موجودہ دور۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اس مدت کو اسی طرح کے مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1949تک کا عرصہ، جب روس(نومبر1917)اور چین(اکتوبر1949) میں فاتحانہ انقلابات اور دوسری عالمی جنگ میں فاشسٹ اتحاد کی فیصلہ کن سیاسی و فوجی شکست کی وجہ سے کمیونسٹ تحریک کو نمایاں عالمی عروج اور استحکام ملا، 1959میں کیوبن انقلاب کی فتح، اور ویتنام کی جنگ میں امریکی سامراج کی شکست(1975)، جس نے پوسٹ وار عہد میں نمایاں نشان چھوڑے۔
سوویت یونین کے انہدام نے سرد جنگ کے مرحلے کا خاتمہ کیا اور دنیا کو سامراجی جارحیت اور کارپوریٹ لوٹ مار کے ایک نئے دور میں دھکیل دیا۔ اگرچہ کمیونسٹ یا سوشلسٹ تحریک نے ابھی تک پرانے سوویت بلاک کے علاقے میں کھوئی ہوئی گراؤنڈ حاصل نہیں کی ہے،البتہ اس عرصے کے دوران اس نے لاطینی امریکہ اور ایشیا میں زیادہ بہتر کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ تاہم دنیا کے بڑے حصوں میں ہم فی الحال فاشسٹ انتہائی دائیں بازو کے نئے عروج کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اپنے ابتدائی سالوں کے دوران کمیونسٹ تحریک کے لیے ابتدائی تحرک روس کے انقلاب کی کامیابی اور ہندوستان کے اندر نوآبادیاتی حکمرانی، جاگیردارانہ جبر اور سماجی غلامی سے آزادی کی گہری خواہشوں سے ملا۔ کمیونسٹوں کے رسمی کیمپ سے آگے، روسی انقلاب کا اثر ہندوستان کی اینٹی کلونیل بیداری، سماجی مساوات اور آزادی کی جستجو میں گہرا تھا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سے لے کر نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور تک اور امبیڈکر سے پیریار تک، ہم ہندوستان کی تحریک آزادی، سماجی انصاف کی تحریک، ادب اور مقبول ثقافت کے دیگر شعبوں میں اس کا اثر دیکھ سکتے ہیں۔
کچھ ممالک میں کمیونسٹ اینٹی کلونیل جدوجہد کے دوران ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے اور قومی آزادی کے ایجنڈے کو سوشلزم کی تعمیر کے کام کے ساتھ مربوط کرنے میں کامیاب رہے۔ ہندوستان میں کمیونسٹوں نے کافی ترقی کی، لیکن وہ سرکردہ قیادت کے طور پر ابھرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود کمیونسٹ نظریہ اور تحریک کاعمل انگیز کے طور پر اثر کمیونسٹ پارٹی کی اصل تنظیمی طاقت سے کہیں زیادہ تھا۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے یوتھ آئیکن اور لافانی شہید بھگت سنگھ کئی طریقوں سے کمیونزم کے علمبردار تھے۔ کمیونسٹ قیادت نے جاگیرداری سے لڑنے، محنت کش طبقے کو منظم کرنے، سماجی مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے طاقتور تحریکوں کی تعمیر میں وسیع اثر پیدا کیا اور تحریک آزادی کو ایک وسیع پیمانے پر ترقی پسند رجحان عطا کیا۔
دوسری جانب نوآبادیاتی قبضے سے آزادی علاقائی تقسیم، بے مثال فرقہ وارانہ قتل عام اور سرحد کے دونوں اطراف لاکھوں خاندانوں کے بے گھر ہونے کے صدمے کے ساتھ آئی۔ یہ بات اہم تھی کہ بھارت کا آئین ہندوستانی تاریخ کے اس تکلیف دہ موڑ کے بعد لکھا اور اپنایا گیا تھا،تاہم اس میں بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے خیال کو مسترد کیا گیا اور تمام شہریوں کے مساوی حقوق کے ساتھ نئی جمہوریہ کے لیے ایک سیکولر جمہوری کردار کا انتخاب کیا گیا، جس میں تمام شہریوں کو ان کی مذہبی شناخت سے قطع نظر برابری کی بنیاد پر حقوق کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا۔ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا ہندو راشٹر چاہتے تھے اور آئین کی سخت مخالفت کرتے تھے، وہ اس وقت الگ تھلگ اور کمزور رہے۔ 25 اکتوبر 1951 سے 21 فروری 1952 کے درمیان ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی 16 ایم پیز کے ساتھ دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور آر ایس پی، پی ڈبلیو پی اور فارورڈ بلاک کے ساتھ مل کر بائیں بازو کے کیمپ نے 22 سیٹیں جیتیں اور اس کے بعد سوشلسٹوں نے 12 سیٹیں جیتیں، جبکہ ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ نے بالترتیب صرف 4 اور 3 سیٹیں جیتیں۔
بھارت کے انتخابی نقشے میں کمیونسٹوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے دیکھا کہ کمیونسٹ ریاستی حکومت کی سربراہی کرنے والی پہلی غیر کانگریس پارٹی کے طور پر ابھرے۔ کامریڈ ای ایم ایس نمبودیریپاڈ کی قیادت میں کمیونسٹوں نے کیرالہ کی نو تشکیل شدہ ریاست میں پہلے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ یقیناحکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور وہ اپوزیشن کی حکومت کے خاتمے کا پہلا شکار بنی۔ یہ رجحان اب موجودہ مودی دور میں غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔
کمیونسٹ تحریک کے ریڈیکل رجحان نے تیبھگا اور تلنگانہ کی جدوجہد کے انقلابی شعلے کو بھی دوبارہ جلانے کی کوشش کی اور اسی طرح مئی 1967 میں نکسل باڑی شروع ہوئی اور دو سال بعد سی پی آئی (ایم ایل) کا جنم ہوا۔ کسانوں کی نکسل باڑی بغاوت نے پورے ملک میں ایک انقلابی لہرکو بھڑکا دیا اور انتہائی وحشیانہ ریاستی جبر کے باوجود یہ جذبہ برقرار ہے۔ اگرچہ عسکریت پسندوں کی بغاوت 1970 کی دہائی کو عوامی آزادی کی دہائی میں تبدیل کرنے کے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی، لیکن اس نے کمیونسٹ تحریک کو بھارت کے سب سے زیادہ مظلوم سماجی طبقات اور پسماندہ علاقوں تک پہنچایا۔
انتخابی لحاظ سے بھی کمیونسٹ اثر و رسوخ کی سب سے بڑی توسیع 1967 کے بعد کے عرصے میں ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب 1960 کی دہائی کے آخر میں اور خاص طور پر ایمرجنسی کے بعد کانگریس کے تاریخی زوال اور تقسیم کا آغاز ہوا تھا۔ زمینی اصلاحات، اجرت کی جدوجہد،اور مقامی سیلف گورمنٹ کے ذریعے جمہوریت کا دفاع اور توسیع وہ کلیدی چیزیں تھیں جنہوں نے کمیونسٹ اثر و رسوخ کو برقرار رکھا اور بڑھایا۔ اس طریقے نے بائیں بازو کو اس قابل بنایا کہ وہ تین ریاستی حکومتوں کی قیادت کر سکے اور صرف دو دہائیاں قبل پارلیمنٹ میں 60 اراکین کا مضبوط دستہ بھیج سکے۔
پچھلی ڈیڑھ دہائی کے دوران بھارت میں بائیں بازو کی انتخابی طاقت میں مسلسل اور سنگین کمی واقع ہوئی ہے۔ مغربی بنگال میں زوال کی وجہ فلاحی ایجنڈے کی قیمت پر کارپوریٹ کلچر پر مبنی ترقی کے نمونے کے ساتھ پالیسی ایڈجسٹمنٹ کی کوشش تھی۔ اس کے نتیجے میں ریاست کے اندر دائیں طرف کی تبدیلی کو جلد ہی پورے بھارت کے تناظر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے فاشسٹ استحکام سے تقویت ملی۔
درحقیقت آج بھارت میں فاشزم کا عروج اور استحکام نہ صرف کمیونسٹوں کے لیے بلکہ ایک سیکولر جمہوری جمہوریہ اور ایک کھلے اور متنوع معاشرے کے طور پر جدید بھارت کے آئینی وژن کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کمیونسٹوں کو اس موڑ پر اپنے آپ کو جمہوریت کے سب سے زیادہ دلیر اور مستقل چیمپئن اور بھارتی فاشزم کے حملے کے خلاف مزاحمت کی قوت کے طور پر دوبارہ قائم کرنا ہوگا۔
میں آج کے بھارت میں فاشزم کی قومی اور تاریخی خصوصیات کو مناسب طور پر نوٹ کرنے کے لئے بھارت میں زیادہ عام اصطلاح فاشزم پر بھارتی فاشزم کے اظہار کو ترجیح دیتا ہوں۔ اٹلی، اسپین اور جرمنی میں فاشزم کے عروج کے ابتدائی دور میں بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک نے بجا طور پر فاشزم کو قومی خصوصیات کے ساتھ بین الاقوامی سیاسی رجحان کے طور پر شناخت کیا تھا۔ آج بھارت میں فسطائیت کا عروج انتہائی دائیں بازو کے ایک نئے جارحانہ اضافے کے عالمی پس منظر میں ہو رہا ہے، لیکن ہم خاص طور پر آر ایس ایس کے اہم تاریخی کردار کو دیکھتے ہوئے اس رجحان کی عام طور پر بھارتی جہتوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔
بیسویں صدی کے پہلے نصف میں یورپی فسطائیت کی مختلف مثالوں کے برعکس،جس میں ایک طوفانی عروج و زوال تھا، بھارتی فاشزم کا عروج صرف پچھلی تین دہائیوں میں ہوا، خاص طور پر 2014میں مودی حکومت کے عروج کے بعد سے ہوا۔ بھارتی معاشرے کی رجعت پسند خصوصیات خاص طور پر ذات پات کے نظام، پدرشاہی نظام اور جاگیرداری کا خاتمہ ایک فاتح جمہوری انقلاب کے ذریعے ہی ہوسکتا تھا، تاہم ایسا نہ ہونے کی وجہ سے بھارتی معاشرے نے ان رجعت پسند خصوصیات کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارہ ہے۔ انہی خصوصیات سے طاقت حاصل کرتے ہوئے بھارتی فاشزم نے پارلیمانی جمہوریت کے ادارہ جاتی میکانزم میں بھی گہری جگہ بنا لی ہے اور بھارت کی کرونی سرمایہ داری کے ساتھ ایک پیچیدہ گٹھ جوڑ قائم کر لیا ہے۔ یہ امریکی واسرائیلی محور کے ساتھ بھارتی ریاست کی تذویراتی شراکت داری، بھارتی منڈی کے لیے عالمی کشش اور بھارت کے وسائل اور بین الاقوامی میدان میں بھارتی تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمیں صیہونیت کے ساتھ ہندوتوا کے قریبی نظریاتی تعلقات اور قومی قدامت پرستی کے ابھرتے ہوئے بین الاقوامی برانڈ کے تحت دوسرے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے درمیان بڑھتی ہوئی رسائی کو بھی نوٹ کرنا چاہیے۔
بڑھتے ہوئے فسطائی حملوں کے خلاف ایک طاقتور مزاحمت پیدا کرنے کے لیے کمیونسٹ تحریک کو محنت کش عوام کے مسلسل کارپوریٹ مخالف تحرک کے ساتھ ساتھ ذات پات اور پدر شاہی مخالف جدوجہد کی سمت کو تیز کرنا ہوگا۔ ریاستی اقتدار پر قابض فسطائی قوتوں سے انتخابی نجات کبھی بھی آسان نہیں رہی، لیکن انتخابی میدان میں فسطائی کیمپ کو کمزور اور تنہا کرنے اور آئین اور جمہوریہ کو ان کے چنگل سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ بلاشبہ اس کے لیے متحدہ محاذ کی حکمت عملی کے بھرپور استعمال، فسطائی حکومت کے خلاف تمام قوتوں کے وسیع تر ممکنہ تحرک، نفرت، جھوٹ اور تشدد کی فسطائی مہم کا مقابلہ کرنے اور عوام کے حقوق اور مفادات کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔
اب ہم بھارتی جمہوریہ کی 75ویں سالگرہ کے قریب ہیں۔ یہ قابل ذکر ہے کہ آئین کو اپنانے کے وقت ہی اس کے معماروں نے ہمیں ان خرابیوں کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا،جو جمہوریہ کے سفر میں رکاوٹ ڈال اور پٹڑی سے اتار سکتی ہیں۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے 25 نومبر 1949 کو آئین کی منظوری کے موقع پر دستور ساز اسمبلی میں اپنے خطاب میں کچھ انتہائی بصیرت افروز تبصرے کیے تھے۔ یہ امبیڈکر تھے، جو دستور ساز اسمبلی کی طرف سے مقرر کردہ مسودہ ساز کمیٹی کے چیئرمین تھے، جنہوں نے اس وقت ہمیں متنبہ کیا تھا کہ”آئین چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، یہ یقینی طور پر برا نکلے گا (اگر) وہ لوگ بہت برے ہوں جنہیں کام کرنے کے لیے منتخب جاتا ہے۔“ آج ہم بالکل ایسے موڑ کا سامنا کر رہے ہیں جب آر ایس ایس ریاستی اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے،جو کہ ابتدائی سالوں میں آئین اور اس کے بنیادی نظریات اور اصولوں کی کھلم کھلا مخالف تھی،اور اس تضاد کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اب ہمارے پاس ہائی کورٹ کے جج ہیں جو کہتے ہیں کہ اکثریت پسندی قانون ہے، گورنر ہیں جو غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کو روکنے اور گرانے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں، اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو اختلاف رائے اور بحث و مباحثے کی قتل گاہ کے طور پر اورصرف مشکوک غیر آئینی قوانین کو منظور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی خطاب میں امبیڈکر نے سیاست میں بھکتی (ہیرو کی پوجا کرنے والے فرقے)کی نشاندہی ”انحطاط اور بالآخر آمریت کے لیے ایک یقینی راستے“ کے طور پرکی تھی اور سماجی جمہوریت کے ساتھ سیاسی جمہوریت کو تقویت دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ ایک سال قبل آئین کا مسودہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بھارت میں جمہوریت کو ”بھارتی سرزمین پر ایک ٹاپ ڈریسنگ،جو بنیادی طور پر غیر جمہوری ہے“ کے طور پر بیان کیا تھا۔ اسی طرح بھارتی سماجی سرزمین کو جمہوری بنانے کا کام آئینی ’ٹاپ ڈریسنگ‘ کی بقا کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کہ آئین نے زیادہ رومانوی حیثیت رکھنے والی روایتی دیہی برادریوں کی بجائے انفرادی شہریوں کی حیثیت کو جمہوریہ کے اجزاء کے طور پر برقرار رکھااور ’ہم بھارت کے لوگ‘ کے اظہار کو تمام تنوع میں اجتماعی جمہوری شناخت کے طور پر ترجیح دی، بجائے اس کے کہ اس فریب کا شکار ہوا جاتا ہے بھارت پہلے ہی ایک قوم بن چکا ہے۔ امبیڈکر نے واضح طور پر ذات پات کو سب سے بڑی ملک دشمن رکاوٹ قرار دیا اور سماجی جمہوریت اورقومی ہم آہنگی کی بنیاد کے طور پر آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی لازم و ملزوم تثلیث پر زور دیا۔
آئین اکثریت پسندی اور زیادہ مرکزیت کے خطرات کے لیے بھی موثرتھا اور اقلیتوں کے حقوق اور وفاقی مفادات کو ان مہلک خطرات سے بچانے کے لیے محتاط تھا۔ ہمیں سب سے واضح انتباہ کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہندو راج کا حقیقت بننا بھارت کے لیے سب سے بڑی آفت ہوگی اور اسے ہر قیمت پر روکنا ہوگا۔
آج کمیونسٹ تحریک کو بھارت کو اس آفت کے موڑ سے نکالنا ہے۔ ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہر روز جس آفت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا،تاکہ مصیبت زدہ جمہوریہ کو بچایا جا سکے اور جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔ کمیونسٹ تحریک کو اس موقع پر اٹھنا ہوگا اور سماج اور ریاست کی ہمہ جہت جمہوریت کے ذریعے فسطائیت کی فیصلہ کن شکست کو یقینی بنانا ہوگا۔
بھارت میں کمیونسٹوں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک کے سامنے حل طلب چیلنجوں کا بھی حل تلاش کریں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کچھ سوالات باقی رہ گئے ہیں جو حکومت کے عہدوں پر کمیونسٹ پارٹیوں کے لیے خاص طور پر متعلقہ ہیں، چاہے انقلاب کے بعد کی صورت حال میں ہوں یا دوسری صورت میں۔ سوویت یونین میں بالآخر کمیونسٹ پارٹی عوام سے اس قدر منقطع ہو گئی تھی اور گورننس اور ریاست کے بیوروکریٹک اپریٹس میں اس قدر غرق ہو گئی تھی کہ 7 دہائیوں کے بعد بالآخر پورا ڈھانچہ باہر یا اندر سے کسی بڑی فوجی مداخلت کے بغیر ختم ہو گیا۔ معاشی جمود اور خارجہ پالیسی میں بگاڑ کے علاوہ واضح طور پر داخلی جمہوریت اور حرکیات کا بہت بڑا فقدان تھا جس کی وجہ سے عوامی حمایت اور یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹی کے حکمرانی کے کردار کی قانونی حیثیت کو بھی نقصان پہنچا۔ پارٹی اور عوام کے درمیان’عوام سے اور عوام تک‘ رابطے کا کٹاؤ عوام، پارٹی اور ریاست کے درمیان توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ کسی بھی سیٹ اپ میں اقتدار میں کمیونسٹوں کو بورژوا نظام کے مقابلے میں جمہوریت، شفافیت اور احتساب کے لحاظ سے برتر دکھنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا سبق ہے جو ہر جگہ کمیونسٹوں کو سوویت یونین کی شکست سے سیکھنا چاہیے۔
ہر جگہ سوشلسٹ ماڈلز نے دوبارہ تقسیم مساوات، غربت اور بے روزگاری کے خاتمے اور محنت کش لوگوں کے لیے حالات زندگی اور کام میں بنیادی بہتری کے حوالے سے اپنے لیے ایک مقام بنایا ہے۔تاہم جب پیداوار کے عمل، مشینوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال اور ماحولیاتی انحطاط اور انسانی بیگانگی کے حوالے سے اس کے منفی اثرات کی بات آتی ہے تو موجودہ سوشلزم کو سرمایہ داری سے الگ کرنے کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہے۔ یہ ایک اور شعبہ ہے جہاں آج کل کے موسمیاتی بحران، ماحولیاتی انحطاط اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مزدوروں کو بے گھر کرنے والی ٹیکنالوجیز کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے بے کار ہونے کے حالات میں سوشلسٹ ماڈلز کو سرمایہ داری کے تباہ کن راستے کے مقابلے میں معیار کے مطابق کھڑا ہونا پڑے گا۔
نتیجہ اخذ کرنے کے لیے مجھے مجبوراًقومی سیاق و سباق کی طرف لوٹنا ہوگا۔ جیسا کہ تاریخ میں یہ بات ہوگی، پچھلی چند دہائیوں میں آزادی کے بعد بھارت میں کمیونسٹ تحریک متنوع دھاروں اور تشکیلات میں پھیل گئی تھی۔ آج ہماری جمہوریہ کے بے مثال بحران اور آئینی قانون کی حکمرانی کے پیش نظر، کمیونسٹوں کو فوری ضرورت کے احساس کے ساتھ قریب آنا چاہیے۔ جنگجو صفوں کا اتحاد جتنا زیادہ ہوگا، فسطائیت مخالف مزاحمت اتنی ہی مضبوط ہوگی اور بھارت کی جمہوریت کا مستقبل اتنا ہی روشن ہوگا۔ کمیونسٹ منشور کی تشریح کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے،سوائے فسطائیت کی زنجیروں کے جب کہ آزادی کے وعدے چھڑائے جانے کے منتظر ہیں۔
(یہ مقالہ ’مارکسزم، جمہوریت اور سوشلزم کے مستقبل‘پر بین الاقوامی سیمینار (18-20 دسمبر 2024) میں پیش کیا گیا تھا، جس کا اہتمام EMS چیئر فار مارکسیئن اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، یونیورسٹی آف کالیکٹ نے کیا تھا۔)
(بشکریہ: لنکس، ترجمہ: حارث قدیر)