تاریخ

ظلم و جبر کے خلاف لڑائی میں فرجاد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا!

مدبر علی

اس تحریر کا مقصد شہید فرجاد حسین کی زندگی کے اس باب کی عکاسی ہے جس سے شاید بیشتر لوگ واقف نہ ہوں۔ دو روز قبل نلترگلگت میں فرجاد کو ایک دہشتگردانہ واردات میں بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ جو لوگ فرجاد کی ذات سے واقفیت رکھتے ہیں وہ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کا روم روم انسانیت کی بے لوث خدمت سے سرشار تھا۔ اسے لوگوں سے جیسے یارانے رکھنے کا شوق تھا۔ اس کے یارانے زبان، قوم اور فرقہ واریت سے کہیں بلند تھے۔ انسانیت کی خدمت اور بے لوث محبت کا اندازہ اس کی سماجی سرگرمیوں میں شمولیت سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے تحت اس نے گلگت بلتستان یوتھ کونسل اور پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹیو کے ساتھ جڑت بنائے رکھی۔

فرجاد یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب میں کھیل کے شعبہ کا طالب علم تھا۔ وہ برفباری کے مشہور زمانہ کھیل ’اسکئی‘ میں سونے کا تمغہ جیتنے والا بڑا ماہر کھلاڑی تھا۔ جس کی وجہ سے اس نے اپنے ادارے کی کئی قومی مقابلوں میں نہ صرف نمائندگی کی بلکہ فتح سے ہمکنار کرایا۔ فرجاد ایک بہترین منتظم تھا۔ جب یہ لاہور کے انارکلی جیسے تاریخ ساز بازار میں ’ممتو دے ہنزے‘نامی ایک نسبتاً چھوٹے سے ریستوران کا منتظم بنا تو یہ مقام بہت سارے نوجوانوں کے لیے ایک متبادل عوامی جگہ کے طور پر سکون و راحت کی آماجگاہ بن گیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج جیسے شہرہ آفاق اداروں کے طلبہ کے جھرمٹوں سے یہ جگہ ہمیشہ بھری رہتی۔ جہاں ان کو فرجاد کی پرخلوص محبت کے ساتھ راحت کے کچھ پل میسر آتے تھے۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی کہ جہاں نوجوان گھنٹوں گزار جاتے تھے اور فرجاد نے کبھی کسی کو فارغ بیٹھے رہنے سے منع نہیں کیا۔ آج ریستورانوں میں بڑے بڑے اعلامیے لگائے جاتے ہیں کہ ’فضول بیٹھنا منع ہے‘ مگر اس جگہ کبھی کسی کو اٹھ کر جانے کو نہیں کہا گیا۔ ریستورانوں پر لکھا ہوتا ہے کہ ’سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘ لیکن یہ جگہ ایسی تمام بندشوں و قدغنوں سے مبرا تھی۔ نہ صرف یہ کہ یہاں سیاسی گفتگو ہوتی تھی بلکہ پاکستان کی حالیہ طلبہ تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں اور مارچوں کی منصوبہ بندی اور میٹنگز ایسی جگہ پر رات گئے تک چلتی رہتی تھیں۔ یہ تھی فرجاد کی سیاسی بصیرت۔ ’ممتو دے ہنزے‘ کئی سیاسی نوجوانوں کے لیے گھر سے کہیں دور ایک گھر جیسی راحت بخش جگہ تھی۔ لیکن جیسے کاروباروں میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ لگا رہتا ہے اور منڈی میں بقا کے لیے ہمیشہ سرمائے کی ضرورت رہتی ہے تو ’ممتو دے ہنزے‘ جیسے گھر سرمائے کی آندھی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی فرجاد نے کئی اور بڑے ریستورانوں کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہا حتیٰ کہ وہ ایک بڑے ریستوران کی فرنچائز نلتر میں کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ وہ اپنے دیس کی خوبصورتی کو لوگوں تک پہنچانا چاہتا تھا۔ گلگت بلتستان کی سحر انگیز خوبصورتی اور سیاحت کے فروغ کے لیے وہ مسلسل کوشاں رہا۔ حتیٰ کہ اس مقصد کے لیے اس نے ایک سیاحتی کمپنی بھی رجسٹر کروا رکھی تھی۔ فرجاد ایک نفیس اور سادہ لوح دوست تھا۔

فرجاد کے نزدیک سب سے برتر قدر انسانیت کی تھی۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ظلم و جبر ہوتا اسے تکلیف دیتا۔ لیکن اسے اپنے وسائل، وقت و حالات اور حدود کا بھی ادراک تھا۔ جس کے مابین وہ ہمیشہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش بھی کرتا اور لاہور میں موجود جبر و استحصال کے خلاف لڑنے والے نوجوانوں کو بھی یہی تلقین کیا کرتاتھا۔

لاہور کے میرے آخری آیام فرجاد کے روم میٹ کی حیثیت سے گزرے۔ ہمارا رشتہ شاید بھائیوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ میرے لیے اپنی آسائشیں قربان کیں بلکہ کئی مقامات پر میرے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دی۔ وہ کبھی افسردہ بھی ہوجایا کرتا تھاکہ وہ اپنے سیاسی شعور کا جبر کے خلاف کسی سیاسی عمل میں اظہار نہیں کر پا رہا۔

فرجاد کی سیاست اور عوام کی خدمت سے متعلق مندرجہ بالا تمام سطور اس بات کا ثبوت ہیں کہ دو دن پہلے ہونے والا ہولناک واقعہ محض فرقہ وارانہ تصادم کا نتیجہ نہیں تھا، جیسا کہ باور کرایا جا رہا ہے۔ اگر یہ کوئی فرقہ وارانہ تصادم ہوتا تو لازماً دوطرفہ ہوتا۔ لیکن فرجاد اور اس کا کزن سلیم تو مبینہ واقعے کے وقت وہاں موجود ہی نہیں تھے۔ فرجاد فرقہ وارانہ تقسیم کی سوچ سے کہیں بالاتر تھا۔ دوسرے مذہبی عقائد رکھنے والوں کے ساتھ اس کے بڑے اچھے مراسم تھے۔ اور نہ ہی نلتر کے باسیوں میں سے کسی کے ساتھ اس کی خاندانی دشمنی تھی۔ ہاں وہ عمومی طور پر گلگت بلتستان کے خطے کے باسیوں کے حقوق کی بلند آواز تھا خصوصاً نلتر میں زمین ہتھیانے کے خلاف آواز اٹھانے میں ایک اہم کردار فرجاد کا تھا۔ فرجاد کا قصور شاید اس کی دھرتی کے ساتھ بے لوث محبت ہے۔ ظلم و جبر کے خلاف لڑائی میں فرجاد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا اور ہم اپنے اس ساتھی کے ساتھ عہد کرتے ہیں کہ جبر و استحصال کے خاتمے تک یہ لڑائی جاری رہے گی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts