خبریں/تبصرے

صرف لاہور میں پورے بلوچستان سے زیادہ یونیورسٹیاں: کے پی کے میں 41، سندھ میں 37، پنجاب میں 73 سرکاری جامعات

فاروق سلہریا

پنجاب کے مقابلے میں دیگر صوبوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کی پسماندگی کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ پنجاب اعلیٰ تعلیم کا مرکزہے جبکہ بلوچستان، سابقہ فاٹا اور گلگت بلتستان وغیرہ اعلیٰ تعلیم کے مضافاتی علاقے ہیں۔

اس کی بد ترین مثال یہ ہے کہ پورے صوبہ بلوچستان کے مقابلے میں صرف پنجاب کے دارلحکومت ’تختِ لاہور‘ میں زیادہ یونیورسٹیاں پائی جاتی ہیں۔ اس گنتی میں نجی شعبے میں چلنے والی جامعات شامل نہیں ہیں۔ اگر صرف سرکاری یونیورسٹیوں اور سب کیمپس شمار کئے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پورے بلوچستان میں کل نو یونیورسٹیاں اور نو سب کیمپس ہیں۔ اس کے مقابلے میں صرف لاہور میں چودہ یونیورسٹیاں اور پانچ سب کیمپس ہیں۔

اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ پنجاب میں زیادہ آبادی کی وجہ سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں تو مندرجہ بالا اعداد و شمار اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ آبادی والی دلیل اسلام آباداور راولپنڈی کے حوالے سے بھی غلط ثابت ہوتی ہے۔ جڑواں شہر میں انیس یونیورسٹیاں اور دو سب کیمپس ہیں۔

اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بلوچستان کی محرومی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 53 فیصد اضلاع میں کوئی جامعہ یا سب کیمپس نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ میں یہ شرح 8 فیصد، سندھ میں 17 فیصداور پنجاب میں 11 فیصد ہے۔

اعلیٰ تعلیم کو ا س حوالے سے بھی مرکز اور مضافات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے کہ بڑے شہروں میں ہائر ایجوکیشن کو مرکوز کر دیا گیا ہے جبکہ پس ماندہ اضلاع کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ مندرجہ ذیل جدول اس کی وضاحت کرتا ہے:

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔