شاعری

اے شریف انسانو: پاک و ہند جنگ پر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم

صالحہ زریں

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

(۲)

برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں
حاصلِ زندگی خرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں
آو اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقا کے لئے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر
امن بے بس عوام کی خاطر
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن، جمہور کی خوشی کے لئے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پرامن زندگی کے لئے

ساحر لدھیانوی ترقی پسند شاعروں کی فہرست میں ایک نمایاں اور شہرت یافتہ نام ہے۔ وہ ایک نئی اور ہموار زندگی کا شاعر ہے۔ جس نے نہ صرف اپنی غزلوں، نظموں اور گیتوں کی مناسبت سے اپنے ساحرانہ انداز فکر کو معراجیت بخشی بلکہ اپنے فکر و فن کے ذریعہ ترقی پسند خیالات و رجحانات کو بھی عوام کے قریب پہنچایا۔ ساحر نے بہت سی سیاسی، سماجی، انقلابی اور رومانی نظمیں لکھیں۔ چونکہ ساحر کا ذہن بچپن سے ہی برطانوی حکومت اور سامراجیت کے خلاف ایک انقلابی اور باغی شکل اختیار کر چکاتھا، یہی وجہ تھی کہ ان کا مارکسی اور سوشلسٹ ذہن ان کی شاعری میں بھی کام کرتا رہا۔ وہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں تمام ہم وطنوں کے ساتھ قلمی طور پر شریک رہ کر آزادی کے لئے نظمیں بھی لکھتے رہے۔ ان کی زیادہ تر نظمیں ترقی پسند خیالات، مارکسی جمالیات اور رومانی انداز بیاں کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ساحر کی نظم ”اے شریف انسانو“ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے اور معاہدہ تاشقند کی سالگرہ کے موقع پر نشر کی گئی۔

جیسا کہ اس نظم کے عنوان سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان پیدائشی تو شریف اور سادہ ہوتا ہے مگر زندگی میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کی بنا پر اسے تلخ تجربے کا سامنا کرنا ہو تا ہے۔ آگے چل کر حالات کا جبر و قہر اتنا بڑھتا جاتا ہے کہ اس میں ایک مزاحمتی کیفیت کاپیدا ہونا فطری ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ساحر کی شاعری میں ایسے ہی جذبات و کیفیات اور احساسات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ نظم کا پہلا حصہ اور پہلا بند شروع ہوتا ہے:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر

یہیں سے ساحر کے ترقی پسند خیالات کی بھر پور ترجمانی ہونے لگتی ہے کیوں کہ شاعر مساوات کی باتیں کرتاہے کہ خون کسی بھی قوم و نسل کا ہو مگر ہے تو وہ آدم کی اولاد۔ سیکولر ذہن پوری طرح سے اس نظم پر حاوی نظر آتا ہے۔ جنگ مشرق میں ہو یا پھر مغر ب میں یہ تو عالم امن کا خون ہے، بم گھروں پر گرے یا ملک کی سرحد پر اس کا اثر روح کی تعمیر پر پڑتا ہے۔ خواہ نقصان کسی کا بھی ہو، کھیت دوسروں کا جلتا ہے مگر فاقہ خود کو کرنا پڑتا ہے اور جس کی وجہ سے زندگی کی نقل و حرکت سست پڑجاتی ہے۔ ساحر نے اس مصرعہ میں تلملاہٹ کا جو لفظ استعمال کیا ہے وہ فاقے کا احساس رکھنے والا شخص ہی کر سکتا ہے۔ میدان جنگ میں ٹینک کا استعمال سرحد پار توپ کے گولے برسانے کے لئے کیا جاتا ہے مگر گولا سرحد کے پار گرے یا پھر سرحد کے اندر گولے میں استعمال ہوئے نقصان زدہ زرات سے زمین اپنی قوت نباتات کی طاقت کھو دیتی ہے جس کی وجہ سے شاعر نے زمین کے ساتھ لفظ بانجھ کا استعمال کیا ہے۔ جنگ کا مقصد فتح و شکست ہوا کرتا ہے مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہ جانے کتنی زندگیاں ختم ہو گئیں، کوئی یتیم ہو گیا، کسی نے اپنے بھائی باپ کھو دئے تو کہیں پوری آبادی تباہ ہو گئی، نتیجے میں صرف زندگی کی ہی ہار ہوتی ہے۔ ساحر نظم میں ہونے والے نقصانات اور خطرات سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور انجام سے باخبر بھی کرتے ہیں اور آخر میں انسانوں کو خاص طور پر مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جنگ تو خود ہی ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کر دیتی ہے تو وہ مسئلوں کا کیا حل تلاش کرے گی۔ انسان کا خون بہے گا اور ہمیشہ نہ بجھنے والی آگ سلگے گی، بھوک، افلاس، احتیاج سب مستقبل میں پیدا ہو جائے گا۔ بالخصوص عوام سے مخاطب ہو کر ساحر کہتے ہیں کہ اس لئے اے شریف انسانوجنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔ آپ کے اور ہمارے گھروں کی شمع جلتی رہے تو بہتر ہو گا۔ یعنی سکوں اور امن کی زندگی جینی چاہئے۔ نظم کے اس حصے میں ساحر کی پوری ترقی پسند فکر کام کر رہی ہے۔ کیوں کہ ترقی پسندوں نے ہمیشہ زندگی اور انسانیت کو سب سے اہم جانا ہے اور ہمیشہ بہتر انسان بننے کا خواب دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظم کے اس حصے میں بالخصوص نسل آدم کی بات کی گئی ہے اور جب نسل آدم کی با ت کی گئی ہے تو اسی کی مناسبت سے جملے بھی استعمال کئے گئے ہیں جیسے نسل آدم کا خون، امن عالم کا خون، بموں کا گھروں پر گرنا، روحِ تعمیر کا زخم کھانا، کھیت کا جلنا، زیست کا فاقوں سے تلملانا، دھرتی کی کوکھ کا بانجھ ہونا، فتح کا جشن منانا، یتیموں کا رونا اور جنگ میں مسئلوں کا پیدا ہونا وغیرہ۔ یہ ساری چیزیں ناامیدی اور بربادی کی طرف لے جاتی ہیں۔ مگر ساحر کا ترقی پسند ذہن اس حصے کے آخری حصے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ناامیدی میں امید کی شمع کو روشن کرنے کی بات کرتے ہیں جس کی وضاحت اس شعر سے ہوتی ہے:

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

شاعر بہتری کا خواب دیکھنے کا عادی ہے، نظم کا دوسرا اور آخری حصہ اس بند سے شروع ہوتا ہے۔

برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے

شاعر اپنے سوالیہ انداز میں پھر نسل آدم کو مخاطب کر کے کچھ اس طرح کے سوالات قائم کرتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے اور سبقت لے جانے کے لئے ہمیشہ سے ایک دوسرے کو زیر و زبر کرتا رہا ہے مگر اس برتری کے ثبوت کی خاطر خون بہانا کیا ضروری ہوا کرتا ہے۔ ظلمات کی تاریکی کو مٹانے کے لئے کیا گھروں کا جلایا جانا، بستیوں کا اجاڑہ جانا، انسانی زندگی کوتباہ و برباد کرناضروری ہوا کرتاہے۔ اگر اپنے گھروں کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے دوسروں کے گھروں کو تاریک کر دیا جائے تونہ بہتری ہے نہ برتری، بلکہ بے وقوفی ثابت ہوتی ہے۔ جنگ صرف انسانی زندگی کو ختم کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی خود ہی مکمل جنگ ہے جس میں ہر گھڑی، ہر لمحہ ہر پل فتح و شکست ہوتی رہتی ہے اس لئے شاعر کہتا ہے کہ جنگ کے اور بھی میدان ہیں صرف خون بہانا جنگ کا ماخذ نہیں ہے۔ کیوں کہ زندگی کا مقصد اور اس کو حاصل کرنا خرد یعنی عقل مندی ہے نہ کہ اس کا مقصد جنونی کیفیت میں زندگی کو ختم کر دینا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ چھوٹی سی زندگی میں دنیا میں رہتے ہوئے انسان بہتر فکر کی روشنی کو عام کرے۔ امن سے اسے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ جس سے امن و سکون حاصل ہو ایسی جنگوں کااہتمام کرنا چاہئے۔ شاعرنے امن کیا ہے؟ جنگ کیا ہے؟ ایک ایک مصرعہ میں اپنے خیالات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری کو وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگ میں وحشت اور بربریت ہوتی ہے اور امن سے تہذیب اور ارتقا ہوتا ہے۔ جنگ کی سیاست صرف موت سے بھری ہوتی ہے امن انسان کی فلاح و بہبود چاہتا ہے۔ جنگ سے غلامی اور افلاس کا جنم ہوتا ہے اور امن ملک میں ایک بہتراور خوش گوار نظام کی بنیاد ڈالتا ہے۔ جنگ میں کچھ شیطانی وسوسوں سے بھرا ہوا ذہن کام کرتا ہے اور یہی شیطانی عمل اس انسان کی جنگ میں قیادت بھی کرتا ہے۔ امن بے بس انسان کی خاطر ہے اور جنگ سرمایہ داری کے تسلط سے قائم ہوتی ہے۔ امن جمہوریت میں خوش حالی اور زندگی میں رونق پیدا کرتا ہے اور یہ جنگ جنگوں کے فیصلوں کے خلاف ہوتی ہے۔ جنگوں کے فلسفے کے خلاف شاعر نے اس لئے کہا ہے کہ جنگ میں انسان غصے اور نفرت سے اپنے آپ کو کھو دیتا ہے، عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے، صرف جذبات ہی غالب ہوتے ہیں۔

نظم کے دوسرے حصے میں شاعر نے بڑے فلسفیانہ ڈھنگ سے امن اور جنگ کو مثالوں کے ذریعے اپنے مصرعوں میں واضح کیا ہے۔ امن اور جنگ دونوں ہی انسانی زندگی میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نظم جیسے آگے بڑھتی ہے شاعر کے ترقی پسند خیالا ت کی ترجمانی ہونے لگتی ہے اور نظم انسانی زندگی کی حدود پار کر کے عرفانیت کی سیر حاصل کرتی رہتی ہے۔ نظم کے اس حصے میں شاعر نے زندگی کی بہتری اور برتری دونوں کی وضاحت کی ہے اور اسی مناسبت سے جملے بھی استعمال کئے ہیں گھر کی تاریکیاں، گھر کا جلانا، جنگ کا میدان، حاصل زندگی، فکر کی روشنی کو عام کرنا، امن کی جنگ کا اہتمام کرنا، پھر جنگ کی وحشت، امن کی تہذیب، جنگ مرگ آفریں سیاست، امن انسان کی بقا، جنگ افلاس اور غلامی، امن سے بہتر نظام کا قائم ہونا، جنگ میں بھٹکی ہوئی قیادت، عوام کی بے بسی، جنگ سرمایہ تسلط، امن جمہور کی خوشی، جنگ اور جنگوں کے فلسفے کے خلاف اور پرامن زندگی وغیرہ۔ غرض کہ ساحر لدھیانوی اپنی اس نظم کے ذریعے نسل انسانی کو جنگ کے خراب نتیجے اور اس پر پڑنے والے برے اثرات کو اپنے اشعار کے ذریعے واضح کرتے نظر آتے ہیں اور امن کے فلسفے پر بھی پوری طرح سے روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ نظم انسانی زندگی میں جنگ اور امن کا فلسفہ پیش کرتی ہے جس میں آزادی کی کسک بھی محسوس کی جا سکتی ہے اور قاری ان کے محسوسات و جذبات کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظم کی فضا شاعر کے تخاطب اور سوالیہ انداز سے بدل جاتی ہے اور قاری جنگ کے راز اور اس کے نشیب و فراز سے واقف بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ شاعر جنگ کے بھیانک مناظر دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے فنی و فکری احساسات کی عکاسی اور خیالات کی تر جمانی بھی کرتا رہتا ہے اور انسانی زندگی کی اہمیت کو بھی واضح کرتا رہتا ہے۔

اس نظم میں اشاریت کے ساتھ ایک نئے تجزیاتی اظہار یت سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ نظم میں ابتدا سے لے کر آخیر تک شاعرکا نظریہ حیات کام کرتا رہتاہے۔

ساحر کے ترقی پسند خیالات اور مارکسی و سوشلسٹ مزاج کی اس نظم میں بھرپو نمائندگی ہو رہی ہے اور نظم کا مرکزی خیال بھی یہی ہے۔ جنگ میں یہی مصائب اور مسائل، امیداور ناامیدی شاعر کے دل کی آواز بن جاتے ہیں۔ اس کی خاص وجہ ہے شاعر کی باخبری جس کی بنیاد پر اس نظم میں زندگی کی امید افزا صورتیں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ساحر نے روز مرہ کی زبان اور چھوٹے چھوٹے مصرعوں کے ذریعے سوالیہ انداز بیان کے حوالے سے نظم میں بہاؤ کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے اور نظم قاری کواپنے موثر انداز فکر سے اپنی طرف متوجہ بھی کرتی ہے اور شاعر کو مقبول عام بھی کراتی ہے۔

Saleha Zareen
+ posts

صالحہ زریں اردو ادب کی ابھرتی ہوئی محقق اور تنقید نگار تھیں جو حال ہی میں زندگی کی بازی ہار کر ہم سے جدا ہو گئیں۔ انہوں نے الٰہ باد یونیورسٹی میں پروفیسر علی احمد فاطمی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ”اردو ناول کا سماجی اور سیاسی مطالعہ، ابتدا سے 1947ء تک“ تصنیف کیا جو 2000ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ انہوں نے کئی ترقی پسند اردو شعرا کے فن پر تبصرے بھی شائع کئے۔