ڈیلاس، امریکہ (جدوجہد رپورٹ) ”افغانستان کی موجودہ صورت حال ایک نئے انسانی سانحہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور امریکہ ملک میں اپنے اثاثوں کی حفاظت کے لئے فکرمند ہے۔ افغان پہلے بیرونی مداخلت کے خلاف تھے اور آج طالبان کے خلاف ہیں۔ افغانستان کے تارکین وطن مشکلات کا شکار ہیں اور جنگ ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔“
ان خیالات کا اظہار امریکہ کی تنظیم ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے زیر اہتمام ایک ورچوئل مذاکرے میں کیا گیا جس میں افغانستان کی صحافی اور سماجی کارکن یاسمین افغان، ولسن سنٹر واشنگٹن ڈی سی کے مائیکل کوگل مین، امریکی ماہر قانون شکیبہ مراد اور سنٹر فار انٹرنیشنل پالیسی کے محقق میتھیوہو نے شرکت کی۔
ولسن سنٹر واشنگٹن ڈی سی میں جنوبی ایشیا کے ماہر مائیکل کوگل مین نے کہاکہ افغانستان میں مواصلات اور ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے موجود ہیں جن کی بنا پر کابل سے ہوائی رابطے جاری ہیں لیکن طالبان بنیادی طور پر ایک جنگجو گروپ ہے جو جدید دور کی انتظامی صلاحیتوں سے نابلد ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ افغانستان میں اپنے اثاثوں کے لئے فکرمند ہے۔
انہوں نے کہا اگرچہ طالبان بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کو سمجھ چکے ہیں لیکن ان کی نظریاتی اساس نہیں بدلی۔ افغانستان آج تین قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ شہریوں کوبھوک، افلاس اور عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ ملک کے نوے فیصد لوگ غربت میں گرفتا ر ہیں اور تینتالیس فیصد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انتظامی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ لوگ سرکاری محکموں میں کام پر نہیں آ رہے اور سارا انتظام درہم برہم ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اب طالبان کو دوسرے جنگجو گروہوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ دولت اسلامیہ ان کی سیاسی اور جنگی حریف کے طور پر سامنے آ رہی ہے جس سے انہیں نبٹنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کئی اور تشدد پسند گروہ بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
یورپ میں مقیم افغان صحافی اور سماجی کارکن یاسمین افغان نے کہا کہ ہم پہلے اپنے ملک پر بیرونی تسلط کے خلاف تھے اور آج بھی طالبان کے خلاف ہیں کیوں کہ تمام دعوؤں کے باوجود ان کے مظالم جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پینتیس ملین افغانیوں کا مستقبل انتہائی تاریک نظر آ رہا ہے۔ ملک میں میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ہماری خواتین کام نہیں کر سکتیں اور انسانی تحفظ کا تصور ہی معدوم ہو چکا ہے۔ عورتیں حجاب کے بغیر نہیں رہ سکتیں اور مردوں پر داڑھی رکھنے کی پابندی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شہروں میں طالبان یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بدل چکے ہیں اور لوگ اب محفوظ ہیں لیکن کابل کے باہر ان کی ظالمانہ کاروائیاں اسی طرح جاری ہیں۔ ننگر ہار میں سکیورٹی کے سابق کارکنوں کو سر عام پھانسی دی گئی اورپولیس کی رکن بانو نگار کو مارا گیا۔ ان کے مطابق ملک کے عوام انتہائی دشواریوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ افغانستان اب ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا اب بھی خاموش تما شائی بنی ہوئی ہے۔
میتھیو ہو ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے سابق کارکن ہیں جو مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں کام کر چکے ہیں۔ وہ افغانستان میں امریکہ کی طویل جنگ کے خلاف استعفیٰ بھی دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے تجربے کے مطابق جنگ مسائل کا حل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ تمام ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لا کر لوگوں اور سیاسی رہنماؤں کو امن کا پیغام دے سکتی ہے۔
شکیبہ مراد نے جو واشنگٹن ڈی سی میں ماہر قانون ہیں، کہا کہ امریکہ میں نقل مکانی کرنے والے افغان کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ تارکین وطن کو مستقل بنیادوں پر آباد کرنے کے لئے مناسب مالی امداد فراہم نہیں کی جا رہی جس کی بنا پر ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ امریکی رہنما ان کے بڑھتے ہوئے مسائل پر فوری توجہ دیں۔
ورچوئل مذاکرے کی نظامت تنظیم کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن آفتاب صدیقی نے کی اور سید فیاض حسن نے تکنیکی معاونت کے فرائض انجام دئے۔