تاریخ

تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے

فاروق سلہریا

عمانوئیل سرفراز کے دل نے گذشتہ روز مزید دھڑکنے سے انکار کر دیا۔پاکستانی معیار کے مطابق بھی،جہاں اوسط عمر ستر بہتر تک پہنچ چکی ہے، دل نے اپنا فرض منصبی بیس تیس سال پہلے ہی سر انجام دینا بند کر دیا۔ عمانوئیل سرفراز کا دل دھڑکنے پر آ مادہ بھی رہتا تو زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اس کے گردے بھی ناکام ہو چکے تھے۔

معاملہ محض دل اور گردے کا نہیں تھا۔اس سماج اور نظام کا بھی تھا جس میں عمانوئیل سرفرازجیسے ایماندار اور کمٹڈ لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی۔

عمانوئیل سے ملاقات،دوستی،بھائی چارہ’دی نیشن‘ میں شروع ہوا۔ نوے کی دہائی تھی۔ عدنان فاروق،صدیق اکبر، عابد بٹ اور راقم۔۔۔یونیورسٹی سے نئے نئے نکل کر ’دی نیشن‘ کے نیوز روم پہنچ گئے تھے۔ باقی تینوں نے مجھ سے قبل ’دی نیشن‘ کے نیوز روم میں نوکری شروع کر دی تھی۔باری باری باقی تینوں تو وہاں سے نکل گئے لیکن عمانوئیل سرفراز وہیں ٹک کر بیٹھا رہا۔ ’دی نیشن‘ اور عمانوئیل سرفراز ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بن گئے تھے۔

ایسا نہیں تھا کہ عمانوئیل سرفراز کہ پاس کوئی اور موقع نہیں تھا۔وہ ہم سب سے بہتر صحافی تھا۔انگریزی زبان پر بھی گہرا عبور تھا اور صحافتی مہارت بھی بلا کی تھی۔

دنیا بھر کے دروازے بھی اس پر وا تھے۔ہم لوگوں کے ابھی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی نہیں بنے تھے کہ عمانوئیل سرفراز دنیا گھومتا پھر رہا تھا۔ لاہور کے ایک ممتاز مسیحی خاندان کا فرد ہونے کے ناطے، عمانوئیل سرفراز کے پاس وہ مواقع تھے جس کا اکثر نوجوان خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ایف سی کالج سے انگریزی ادب کی ڈگری لے رکھی تھی۔سی ایس ایس کرنے کی بجائے (جو اُن دنوں ایف سی یا جی سی سے ایم اے اینگلش کے بعد ایک معمول تھا) صحافت کے چکر میں پڑ گیا۔ انگریزی کے کسی بھی ناول پر بات ہوتی تو پتہ چلتا عمانوئیل نے پڑھ رکھا ہے۔

جب کسی غیر ملکی دورے سے واپس آتا تو میں اور عدنان،دیگر پاکستانیوں کی طرح پوچھتے: ”تم واپس کیو ں آ گئے“۔

وہ مسکراتے ہوئے اگلا سگریٹ سلگاتا۔ مسکراہٹ اور تھوڑی دیر کے بعد ایک ہلکا سا قہقہہ اس کی شخصیت کی خاص علامت تھے۔ مشکل ترین حالات میں بھی، پریشانیوں کے تذکرے کے بعد، وہ بات کو ہنس کر ٹال دیتا۔ قہقہہ لگاتا۔اگلا سگریٹ سلگاتا اور گفتگو کا رخ ’دی نیشن‘ کی طرف مڑ جاتا۔چیف (حفیظ ظفر)، شبیر اعظم صاحب (ہمارے چیف نیوز ایڈیٹر)، وسیم ظفر (نیوز ایڈیٹر) یا بعض دیگر ساتھیوں کا ذکر ہوتا۔ کچھ واقعات یا دلچسپ ادارتی غلطیوں کو یاد کر کے ہنسا جاتا۔

وقت کے ساتھ ساتھ عمانوئیل سرفراز ’دی نیشن‘ کا ایڈیٹر کو آرڈی نیشن بنا۔ میگزین ایڈیٹر بنا۔ نوے کی دہائی میں ہم اِن عہدوں کا خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ اِس دوران یہ ہوا کہ ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا نے،عمومی ثقافتی زوال کے ساتھ ساتھ، دھیرے دھیرے پرنٹ میڈیم کو بے وقعت بنانا شروع کر دیا۔

ہم لاہوری صحافت کی شائد وہ آخری نسل تھے جو حرف کو مقدس سمجھتے تھے۔ تخلیق کے حسن سے واقف تھے۔ دِنوں بلکہ سالوں تک کسی اچھی شہ سرخی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ تصویر کا اچھا کیپشن بنا کر رات بھر لاہور پریس کلب میں چائے سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ اس نسل کے لئے اب پاکستانی صحافت میں جگہ نہیں بچی تھی۔ سفلی صحافت کے اس عامیانہ عہد میں عمانوئیل سرفراز کو ’دی نیشن‘ کی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے۔نظامی خاندان کے لئے بھلے نوائے وقت اور ’دی نیشن‘ ایک منافع بخش کاروبار تھے لیکن عامل صحافیوں کے لئے اخبار کی نوکری ان کی زندگیوں کو معنی دیتی تھی۔

گذشتہ چند سال،پہلے یو ایم ٹی کے جریدے کی ادارت،پھر وائی ایم سی سے کے سیکرٹری کے طور پر فرائض سر انجام دئیے۔۔۔مگر بغیر’دی نیشن‘ اور صحافت کے عمانوئیل سرفراز اُسی طرح ادھورا تھا جیسے ’چیف‘حفیظ ظفر’دی نیشن‘ کے بعد اکیلا رہ گیا تھا۔ چیف گذشتہ سال ہم سے جدا ہو گیا۔ عمانوئیل سرفراز گذشتہ روز۔

لاہور اور لاہور پریس کلب پھیلتے تو جا رہے ہیں مگر اندر ہی اندر اجڑتے بھی جاتے ہیں۔ عمانوئیل سرفراز کی رخصتی نے لاہور اور لاہور پریس کلب مزید اجاڑ دئیے ہیں۔ عمانوئیل سرفراز کو لاہور اور لاہور پریس کلب،دونوں سے بہت پیار تھا۔اسے لاہور پریس کلب میں شام گزارنا اور لاہور میں زندگی گزارنا اچھا لگتا تھا۔ اسی لئے وہ ہر بار پردیس سے واپس آ جاتا تھا۔

کاش اس بار بھی آ جائے۔ اس بار ہرگز بھی اس سے پوچھا نہیں جاے گا: ”تم واپس کیو ں آ گئے“!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔