اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سابق رکن اسمبلی علی وزیر اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کو اتوار کی صبح گرفتار کیا گیا تھا۔ پی ٹی ایم کے زیر اہتمام ترنول میں منعقدہ جلسہ کے انعقاد پر دو الگ الگ مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں علی وزیر اور ایمان مزاری کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پی ٹی ایم کا یہ جلسہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے سامنے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم نگران حکومت کی جانب سے عائدکی گئی پابندیوں اور کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے بعد یہ جلسہ ترنول کے مقام پرمنعقدہ کیا گیا تھا۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے جلسہ کی جگہ تبدیل کرنے پر پی ٹی ایم قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا۔
تاہم جلسہ کی ہی رات 19 اگست کو 20 منٹ کے وقفے کے ساتھ تھانہ ترنول اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے دو الگ الگ مقدمات درج کئے۔ رات 1 بج کر 40 منٹ پر تھانہ ترنول کی جانب سے درج ایف آئی آر کے مطابق ان پر الزام عائد کیا کہ این او سی کی خلاف ورزی کی گئی، کارکنان آتشیں اسلحہ سے مسلح تھے اوردھمکیاں دیتے ہوئے پولیس پر حملہ آور ہوئے۔ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ سرکاری گاڑی کے شیشے توڑے گئے، پٹرول پمپ اور دیگر دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے رات 2 بجے ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ حیران کن طور پر دونوں مقدمات میں 38 افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور ناموں کی ترتیب بھی ایک ہی رکھی گئی ہے۔ تاہم سی ٹی ڈی کی جانب سے درج ایف آئی آر میں بغاوت اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پولیس کی جانب سے متعلقہ ذمہ داران کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر درج نہ ہونے پر دوسری ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق منظور پشتین، ایمان مزاری اور دیگر قائدین نے ریاستی اداروں کے سربراہان، افسران اور ملازمین میں بغاوت پیدا کرنے، حلف سے انحراف کرنے، فوج کو کمزور کرنے، دہشت گردی کو پروان چڑھانے، عدلیہ، مقننہ اور مقتدر حلقوں کے بارے میں سنگین نتائج کی دھمکیاں اور توہین آمیز القابات سے عوام الناس میں نفرت، دہشت گردی کو ہوا دینے، اداروں کو کمزور کرنے، بغاوت، خانہ جنگی اور سول نافرمانی کرنے اور مسلح جدوجہد کی ترغیب دی۔ متن کے مطابق منظور پشتین، ایمان مزاری اور دیگر نے اداروں کے خلاف نفرت انگیز، شر انگیز اور دھمکی آمیز تقاریر کر کے پشتون قوم اور اداروں کے مابین دوریاں پیدا کرنے اور پاکستانی عوامی میں لسانیت اور دہشت گردی کے خلاف شدید نعرے بازی کی، جس کو موقع پر موجود الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نمائندوں نے ریکارڈ کیا۔
ان مقدمات میں گرفتار علی وزیر اور ایمان مزاری کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ترقی پسند کارکنان، طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور بائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مقدمات اور گرفتاریوں کی مذمت کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر نگران حکومت اور دیگر ذمہ داران کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایک طرف نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی پی ٹی ایم قیادت کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور دوسری جانب دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمات قائم کر کے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر علی وزیر، ایمان مزاری اور دیگر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور مقدمات ختم کئے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی ایم کے اس جلسہ میں پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق 700 افراد نے، جبکہ سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر کے مطابق 950 افراد نے شرکت کی۔ تاہم مقامی صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کا خیال ہے کہ اس جلسہ میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ نجی ٹی وی چینلوں کے علاوہ تمام میڈیا پر بھی جلسہ کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔