گوہر بٹ
دو دن پہلے بلاول ہاوس لاہور میں بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب ہمارے ایک دوست صحافی نے اپنے دفتر کے دباؤ پر بلاول بھٹو سے ان کے پہنے ہوئے اجرک والے ماسک پر سوال کیا کہ آپ سندھی اجرک کو پروموٹ کر رہے ہیں تو کیا آپ پنجاب اور دیگر صوبوں کی ثقافت کو بھی ایسے ہی پرموٹ کریں گے۔
بلاول بھٹو نے جواباً کہا کہ یہ سندھی نہیں بلکہ ملتانی ماسک ہے۔
بلاول بھٹو نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں تو صحافی نے کہا کہ میں ملتان سے ہوں جس پر ہال میں بیٹھا ہر شخص کھل کھلا کر ہنس دیا۔
بلاول نے کہا کہ آپ ملتان سے ہو اور پھر بھی آپ ملتانی اجرک سے واقف نہیں مجھے آپ کی لاعلمی پر حیرت ہے۔
اس حوالے سے بے نظیر بھٹو پر بھی بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس بات کی باقاعدہ مہم چلائی جاتی تھی کہ پیپلز پارٹی صرف سندھ کی جماعت ہے جس کے ردِ عمل کے طور پر پیپلزپارٹی نے یہ نعرہ دیا تھا کہ”چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر“۔
بلاول پر ہونے والی تنقید کی وجہ سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جس کے مجھ سمیت چند دیگر صحافی چشم دید گواہ ہیں۔
نواز شریف کے دوسرے دور ِحکومت میں ایک بار بے نظیر بھٹو نے لاہور ائیر پورٹ پر ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں اجرک اوڑھ رکھی تھی جس پر معروف صحافی میک لودھی نے طنز کیا کہ آپ صوبائیت پھیلا رہی ہیں۔
بے نظیر بھٹو نے جواباً کہا کہ کیا سندھ پاکستان کا حصہ نہیں اور کیا اجرک پہننا جرم ہے؟
بے نظیر بھٹو اس بات پر اس قدر ناراض ہوگئیں کہ انہوں نے میک لودھی کے سوری بولنے اور اجرک کو قومی لباس تسلیم کرنے تک مزید کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
ہم سب نے میک لودھی کو اس کے طنز پر شرمندہ کیا اور تمام صحافیوں نے تسلیم کیا کہ اجرک قومی شناخت کی علامت ہے، اسے پاکستان بھر میں کہیں بھی پہنا جاسکتا ہے۔
سب کے اصرار پر میک لودھی نے بی بی سے سوری تو بول دیا لیکن اگلے روز کے’جنگ‘ اور’دی نیوز‘ میں بی بی پر صوبائیت پھیلانے کا الزام پر مبنی ایک تحریر بھی لکھ دی۔ اس کالم کی بنیاد پر اس وقت کی نواز حکومت نے خوب مہم چلائی۔