لاہور(جدوجہد رپورٹ) سال2024تارکین وطن کی ہلاکتوں کی بلند ترین تاریخ رقم کرتے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔ اسپین کی ساحلی سرحدوں پر مرنے والوں کی تعداد تاریخی بلندی پر پہنچ چکی ہے۔
’جیکوبن‘ کے مطابق گزشتہ12مہینوں میں کم از کم 10ہزار457افراد غیر قانونی سمندری راستوں سے سپین کی سرزمین تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہوئے ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔ یہ تعداد2023کے مقابلے میں 58فیصد زیادہ ہے۔ وسطی بحیرہ روم میں سپانسر شدہ کریک ڈاؤن اور مالی میں جنگ نے دسیوں ہزار لوگوں کو بحر اوقیانوس کے دشوار گزار راستوں پر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور کیا۔
بڑے پیمانے پر لکڑی کی روایتی ماہی گیری کی کشتیوں میں یہ تارکین وطن چار دن سے دو ہفتوں کے درمیان سمندر میں گزارتے ہیں۔بہت سے سفر جہازوں کے انجن کی خرابی کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ کشتیاں لہروں کے ذریعے بہا کر لے جائی جاتی ہیں۔ اس دوران کھانا اور پانی ختم ہونے کی وجہ سے کشتیوں میں ہی کئی لوگ مر جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس دشوار گزار سفر کے دوران بھوک اور پیاس سے کشتیوں میں مرنے والے اپنے ساتھیوں کی لاشیں سمندر میں پھینکنے پر لوگ مجبور ہوئے۔ ایک واقعہ میں تو باپ نے اپنے بچوں کی لاشوں کو سمندر میں پھینکنے کے بعد خودبھی سمندر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔
اگست کے وسط میں سینیگال سے ماہی گیری کی ایک کشتی ایک ماہ سفر میں گزارنے کے بعد ڈاکار کے ساحل سے تقریباً50میل دور پہنچی۔ اس کشتی میں 30لاشیں گلنے سڑنے کی حالت میں تھیں، جبکہ باقی مسافر لاپتہ تھے۔
سپین کی سرحدوں پر اجتماعی موت کے ان واقعات کو الگ تھلگ سانحات کے سلسلے کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ جو لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، وہ فورٹریس یورپ کی سفاک سرحدی حکومت کا شکار ہیں، جو گلوبل ساؤتھ کے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے سفر کی حوصلہ شکنی کے نام پر انہیں جان لیوا خطرات سے دوچار ہونے پر مجبور کرتی ہے۔
اس سب کے باوجود پچھلے 18مہینے کے وران ہجرت میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب یورپی ملکوں نے تارکین وطن کے یورپ میں داخل ہونے کا سلسلہ روکنے کے لیے غیر معمولی پابندیاں اور اقدامات کیے ہیں۔ اس نئی پالیسی کے بعد تارکین وطن مزید خطرناک راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران 46ہزار سے زائد تارکین وطن کینری جزائر میں پہنچے، جو 2023کے مقابلے میں 20فیصد زیادہ تعداد ہے اور پچھلے 30سالوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر زیویئرکریچ کے مطابق مالی میں بگڑتے ہوئے مسلح تنازعے نے کم از کم 2لاکھ پناہ گزینوں کو ہمسایہ ملک موریطانیہ میں بے گھر ہونے پر مجبور کیا۔ اسی طرح 2024میں سینیگال اور مراکش سے آگے کینریز پہنچنے والوں میں بھی یہ سب سے بڑا قومی گروہ بن گیا ہے۔
وسطی بحیرہ روم کے ساتھ سخت سرحدی کنٹرول مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے اٹلی پہنچنا مشکل بنا رہا ہے، جس کی وجہ سے غیر قانونی نقل مکانی میں 60فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ تیونس کے معاہدے کے بعد تیونس نے تارکین وطن کے خلاف ایک ظالمانہ کریک ڈاؤن شروع کیا۔
اس طرح بحیرہ روم کے شمال کی طرف جانے والے راستے کو پیچیدہ بنا دیا گیا اور نقل مکانے کے بہاؤ کو ساحل سے کینریز کی طرف ری ڈائریکٹ کر دیا گیا۔
سپین اور یورپی یونین نے موریطانیہ کی نقل مکانی کو روکنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے 500ملین یورو کے ایک مشترکہ پیکیج کا وعدہ کیا ہے۔ موریطانیہ کی سکیورٹی فورسز دوسری ریاستوں میں تارکین وطن کے خلاف بہت مکروہ طریقوں کے استعمال میں مصروف ہیں۔ صوابدیدی حراست، جسمانی تشدد، جبری نقل مکانی سمیت دوسرے جابرانہ طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
نومبر میں موریطانیہ کے ایک مضبوط گودام میں بند سینکڑوں تارکین وطن کی چونکا دینے والی فوٹیج سامنے آئی، جو لیبیا کے حراستی مراکز کی یاد دلاتی ہے۔ اب پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر جیسے ملکوں کے تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی وسطی بحیرہ روم کے متبادل داخلے کے مقام کے طور پر موریطانیہ پہنچ رہی ہے۔