فن و ثقافت

علی گڑھ کے ہم عصر شعرا، معروضی حقیقتوں سے باطنی کیفیتوں تک!

قیصر عباس

غیر منقسم ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی مقبولیت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دانشوروں کا کردار بہت اہم تھا۔ اس دور میں یہ علی گڑھ کے اساتذہ اور طلبا ہی تھے جن کی نگارشات کبھی عام لوگوں کے استحصال کی ترجمان اور کبھی برطانوی سامراج سے آزادی کے ترانے بن کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئیں۔ اس وقت کے معروف ادیب آلِ احمد سرور، سید سجاد حیدر یلدرم اور رشید احمد صدیقی یونیورسٹی کے شعبہئ اردو کے سربراہ رہے۔ ترقی پسند تحریک میں شامل علی سردار جعفری، اسرارالحق مجاز، اختر الایمان ور دوسرے نامور شعرا کا تعلق بھی اسی شعبے سے تھا جنہوں نے معاشرے کے مسائل اور تحریک آزادی کے نعروں کو عوام الناس تک پہنچایا۔

واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں انڈین نژاد امریکیوں کی تنظیم انڈین ڈائسپرہ (Indian Diaspora Washington DC) نے حال ہی میں علی گڑھ یونیورسٹی کے شعرا کے ایک ورچوئل مشاعرے کا اہتمام کیا۔ رضی رضی ا لدین پروگرام کے منتظم تھے اور سروَر اجملی نے مشاعرے کی نظامت کی۔ پروگرام میں معید رشیدی، سروَر اجملی، عبداللہ عبداللہ، مہتاب حیدر نقوی اور سروَر ساجد نے کلام سنایا۔

معید رشیدی

معید رشیدی نئی نسل کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں تخیل کے تازہ جھونکے اور پیرایہ اظہار کے نئے زاویے محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ پروگرام میں پیش کی گئی ان کی غزلوں کی چند جھلکیاں:

وہ جب بھی پکارے گا یہیں آن رہیں گے
ہم خاک نشیں بے سروسامان رہیں گے

جو بھی آیا ہے یہاں شہر بدر لگتا ہے
اس لئے خود سے بھی ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے

جب ترے شہر میں آتے ہوئے ڈر لگتا تھا
اب ترے شہر سے جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے

اور مجھ سے یہ اذیت نہیں دیکھی جاتی
اے زمیں تیر ی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی

سراج اجملی

سراج اجملی کا تعلق بھی علی گڑھ کی اسی درسگاہ سے ہے۔ ان کے کلام سے زندگی کے مشکل مرحلوں کا اندازہ تو ہوتا ہے لیکن جس مستقل مزاجی سے وہ ان مرحلوں سے گزرکر کامیاب رہے اس کا عکس بھی نظر آتاہے۔ ان کی ایک غزل کے یہ اشعاراسی کیفیت کا احاطہ کر رہے ہیں:

مسئلے سخت بہت پیش نظر بھی آئے
ہم مگر طے یہ سفر شان سے کر بھی آئے

اس سفر میں کئی ایسے بھی ملے لوگ ہمیں
جو بلندی پہ گئے اور اتر بھی آئے

دل اگر ہے تو نہ ہو درد سے خالی کسی طور
آنکھ اگر ہے تو کسی بات پہ بھر بھی آئے

سروَر ساجد

سروَر ساجدنقاد اور شاعر کے طورپرعلی گڑھ کے نمائندہ شاعر وں میں شمارہوتے ہیں۔ بہار میں شائع ہونے والے اردوادب پران کی گہری نظر ہے اور اس موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ وہ دھیمے لہجے میں بیباکانہ طرز ِکلام کے ماہر ہیں اور اپنے محسوسات کی پوری دنیا ذہن کے پوشیدہ گوشوں سے نکال کر صفحات کی زینت بنادیتے ہیں:

محبتوں میں نشہ تھا خمار ٹوٹا ہے
برا نہ مان مگر اعتبار ٹوٹا ہے

اسیری سے تو یہ اچھا ہے مرجا
ہوا کے وار سے پہلے بکھر جا

مہتاب حیدر نقوی سینئر شاعر ہیں اور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہء اردو کے پروفیسر رہے ہیں۔ ان کی شاعری اردو غزل کی جدید طرزِفکر کی ترجمانی کرتی ہے۔ مشاعرے میں پیش کیے گئے ان کے چند اشعار:

ایک میں ہوں اور دستک کتنے دروازوں پہ دوں
کتنی دہلیزوں پہ سجدہ ایک پیشانی کرے

مطلب کے لیے ہیں نہ معانی کے لیے ہیں
یہ شعر طبیعت کی روانی کے لئے ہیں

جو میرے شب وروز میں شامل ہی نہیں تھے
کردار وہی میری کہانی کے لیے ہیں

یہ داغ محبت کی نشانی کے علاوہ
ا ے عشق تری مرثیہ خوانی کے لیے ہیں

دل ڈوبنے لگا ہے کہ پھر آرہی ہے شام
خاک وطن لہو میں ڈبونے کے واسطے

عبداللہ عبداللہ

عبداللہ عبداللہ نظم کے شاعر ہیں اور واشنگٹن ڈی سی میں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کے سالانہ عالمی مشاعرے کے بانیوں میں شامل ہیں۔ وہ نظم کی وسعت داماں میں اکیسویں صدی کے گھمبیر مسائل بیان کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ان کی نظم ”خزانہ اور سانپ“ ہمارے عہد کے جبر کوعیاں کر رہی ہے۔ نظم کا آغاز بچپن کی ایک کہانی سے ہوتا ہے:

بڑے بوڑھے بتاتے تھے
زمیں کی کوکھ میں لاکھوں خزانے دفن ہوتے ہیں
مگر ہر اک خزانے پر
کوئی ایک سانپ پہرے دار بن کر
مستعد بیٹھا ہی رہتا ہے

اس تمہید کے بعد شاعر لڑکپن کی کہانی کو عصر حاضر سے جوڑکر اپنا مدعا بیان کر رہا ہے۔ نظم آج کی اقتصادی حقیقتوں اصل شکل دکھا کراختتام تک پہنچتی ہے:

مگر جو بات بوڑھوں سے سنی تھی اپنے بچپن میں
وہ اس تہذیب میں بھی اک صداقت ہے
یہاں بھی ہر بڑی سرمایہ کاری کے خزانے پر
یہاں بھی ہر بڑی املاک پر
اک سانپ اپنا پھن اٹھائے مستعد پہرے پہ بیٹھا ہے
پھٹکنے ہی نہیں دیتا کسی کو بھی قریں اپنے!!

پوری نظم اس نظام سے پردہ اٹھا رہی ہے جس میں طاقت ورسرمایہ دارصنعتوں کے خزانوں پر سانپ کی طرح بیٹھاان کی حفاظت کر رہا ہے۔

اگرچہ پروگرام میں شامل شعر ا کی تعداد محدود رہی لیکن ان کے کلام سے آج کے ہندوستان میں اردو شاعری کے گوناگوں پہلوؤں کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ پروگرام کے بعد مباحثے میں آن لائن شرکا اور شعرا نے کہا کہ بٹوارے سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا شعبہ اردو اس عہد کے مشہور شاعروں اور ادبا کا مسکن ہوا کرتا تھا اگرچہ ترقی پسند ادب کے خالق یونیورسٹی کے دوسرے شعبوں میں بھی تھے۔

ان دانشوروں کے معیار کا مقابلہ اس وقت بھی ا ٓسان نہیں تھا اور آج بھی مشکل نظر آتا ہے حالانکہ شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلبا کی تعداد میں اب بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے۔ شرکا کی آرا کے مطابق سوا ل یہ نہیں کہ طلبا کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ کہ ادبی نگارشات اور تحقیقی کام کا معیار کیا ہے۔

راقم کے خیال میں معیار کے علاوہ علی گڑ ھ کی شاعری کو ہندوستان کے بدلتے ہوئے سیاسی پس منظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔ ترقی پسندتحریک کی انقلابی لہراور دانشوروں کی نظریاتی وابستگی آفاقی، قومی اور مقامی منظر ناموں کے ساتھ اپنے ماحول کی تر جمانی کر رہی تھی۔ مزید یہ کہ تحریک آزادی عام لوگوں میں مقبول سیاسی مہم کا حصہ تھی جسے بیشتر ترقی پسند شعرا نے موضوع سخن بنایا۔ اس صورت حال میں معروضی حقیقتیں فطرتی طور پر ادب کا حصہ بن گئیں جن کا دائرہ کار خاصا وسیع تھا۔

اس کے مقابلے میں آج ہندوستان کی سماجی شکست وریخت اورمتشدد اکثریتی سیاست تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی نفسیاتی الجھنوں میں اضافہ کررہی ہے۔ اگر گزشتہ عہد کے ترقی پسنددانشوروں کی نظر اپنے معروضی مسائل پر تھی تو آج کا علیگی شاعرماحول کی تاریکی کو اپنی ذہنی کشمکش کے حوالے سے بیان کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب نہیں تو عصرِحاضر کی بیشتر اردو شاعر ی نفسیاتی اور سیاسی بے چینی کی صدا بن کر ابھر رہی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں علی گڑھ کا شاعر اپنی پہچان کے مشکل مر حلوں سے گزر رہا ہے اور اس کے کلام میں بے سروسامانی، بے اعتباری، اسیری، بکھرتا سماج، اذّیت اور مرثیہ خوانی جیسے اشارے اسی بے یقینی کا عکس پیش کر رہے ہیں۔ گھٹن کے اس ماحول میں فرد کے اندیشے کہیں نہ کہیں اظہار کی راہیں نکال لیتے ہیں اور شایدعلیگی شعرا کے لیے بھی تحلیلِ نفسی کا ذریعہ بن گیے ہیں۔ بقول معید رشیدی:

میری آنکھوں میں جو حیرت ہے مری وحشت ہے
مجھ سے آ ئینے کی حیرت نہیں دیکھی جاتی

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔