دنیا

ڈونلڈ ٹرمپ، سابق صدر یا ملزم؟

قیصر عباس

(اٹلانٹا، جارجیا)گزشتہ ہفتے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں پر جارجیاکی ایک عدالت میں ملک کے خلاف سازش اور انتخابی نتائج سبو تاژ کرنے کے الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی۔اسی ہفتے ریاست کے قوانین کے تحت انہیں جیل میں حاضری دینی پڑی، دوسرے ملزموں کی طرح تصویر اتاری گئی اورانہیں گرفتار کرکے ضمانت پر رہا کردیا گیا۔

اس تصویر (یامگ شاٹ) کاچرچہ امریکی میڈیا میں آج کل صبح شام ہورہاہے۔اس کی وجہ صرف یہی نہیں کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک سابق صدر پر مقدمہ چلایا جارہا ہے، بلکہ ملزم کے طورپر کھینچی گئی تصویر میں ان کے چہرے کے ناگوار تاثرات ہیں جن سے ان کے غم وغصے کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے۔ تاثرات کو قانونی چارہ جوئی،سیاسی دباؤ اور انتخابی فنڈنگ میں مشکلات کے پس منظرمیں سابق صدر کے نفسیاتی ردعمل کے طور پر دیکھا جارہاہے۔

اس سے پہلے جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں اپنے نجی ہوائی جہاز سے اترتے ہی انہوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ یہ سب کاروائیاں انہیں سیاسی طورپر بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بے قصور ہیں،”امریکہ کے تمام شہریوں کو حق حاصل ہے کہ وہ انتخابی دھاندلیوں پر اپنے تحفظات کا اظہارکریں اورمیں نے بھی یہی کیا ہے۔“ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجودہیں کہ انہیں ایک منصوبے کے تحت گزشتہ انتخابا ت میں ہرا یا گیا۔

سابق صدر نے عدالتی کاروائیوں کو اسٹبلشمنٹ کی انتقامی کاروائیوں کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ اسے استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے ووٹ بینک کو مزید مستحکم اور انتخابی مہم کی انفرادی فنڈنگ میں اضافہ کررہے ہیں۔ادھر امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام نے بھی صورت حال کا مالی فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے اور ان کی تصویر کو دونوں پارٹیوں کے ارکان کے لئے موزوں الفاظ کے ساتھ ٹی شرٹس اور جھنڈوں پر چھاپ کر منافع کمایا جارہا ہے۔

جارجیا میں لگائے گئے الزامات میں سب سے سنگین اور قابلِ سزا الزام یہ بتایا جارہا ہے کہ انہوں نے 2020ء کے انتخابات کے بعد ریاستی انتظامیہ کے سیکرٹری سیصدارتی انتخابات جیتنے کے لئے مطلوبہ ووٹ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔اس سے پہلے مختلف ریا ستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں ان کے خلاف مالی بدعنوانیوں، گانگریس پر حملے کی ہدایات دینے اور دیگر الزامات میں تین اہم مقدمات بھی دائر کیے جاچکے ہیں۔

ٹرمپ آنے والے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امید وار کے طور پر سامنے آرہے ہیں اورمیڈیا میں یہ سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ ان مقدمات کا ائندہ برس شروع ہونے والی انتخابی مہم پر کیا اثرات پڑیں گے؟ جہاں ان کی قدامت پسند ریپبلکن پارٹی ان اقدامات کو سیاسی شعبدہ بازی قراردے رہی ہے وہیں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات حکومت نے نہیں بلکہ انتظامیہ اور ریاستی عدالتوں نے لگائے ہیں جن سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ان کے نزدیک ایک مبینہ ملزم کا امریکہ جیسے طاقتور ملک کا صدر ہونا امریکیوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔

اس سیاسی پس منظر میں ٹرمپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا نتیجہ جو کچھ بھی نکلے وہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔یہ نقطہئ نظر عمومی طور پر درست ہے لیکن ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے صدارتی انتخابات پراثراتظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور کئی کمپنیوں نے ان کی انتخابی مہم کیفنڈنگ سے معذرت کرلی ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔