اویس قرنی
چند دن قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک اور دلخراش واقعہ پر نظر پڑی کہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور کا ایک سکالر طالبعلم اپنے سابقہ استاد کے لیکچر میں شرکت کی غرض سے مادرِ علمی پہنچا۔ اپنے ادارے کے کمروں، کرسیوں اور گزر گاہوں کو دیکھ کر وہ یقیناً جذبات سے سرشار ہو گا کہ جہاں اس کی نوجوانی کے یادگار آٹھ سال گزرے ہوں گے۔ ایسی ہی کسی یاد کو تازہ کرنے کے لیے اس نے سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ اپنے تئیں اخلاقی تھانیدار جمعیت کے غنڈوں نے اس پر دھاوا بول دیا۔ اپنی بدنام زمانہ روایت کو برقرار رکھنے کی غرض سے جمعیت کے غنڈے اس نوجوانوں کو گھسیٹتے ہوئے ہاسٹل میں لے جانے کی کوشش کرتے رہے کہ جو اس دہشت گرد تنظیم کے ذاتی عقوبت خانوں کی حیثیت رکھتے رہے ہیں۔ غالباً نوجوان کو بھی اس بات کا علم تھا کہ شاید پھر ہاسٹل سے واپسی اپنے قدموں پر نہ ہو سکے۔ اس وجہ سے اس نے بچاؤ کے لیے مزاحمت کی جس پر ادارے کے گیٹ کے سامنے ہی سر راہ اس پر تھپڑوں، گھونسوں اور مکوں کی بارش ہو گئی۔ ساتھ ہی دروازے پر معمور سکیورٹی اہلکار اپنے ڈیوٹی دیتے رہے اور طلبہ کے کارڈ، کپڑے اور بیگ وغیرہ چیک کرتے رہے جن کے باجو میں درجن بھر جمعیت کے غنڈوں نے ایک سابقہ طالبعلم کو ادھ مرا کر دیا۔ اس مصروف شاہراہ پر گزرنے والے سینکڑوں راہگیر یہ تماشہ دیکھتے ہوئے اپنا راستہ بناتے نکلتے گئے۔ کوئی بھی اس نوجوان کی جاں بخشی کو نہ آیا۔ جمعیت کے غنڈے اس نوجوان کو پھٹے کپڑوں اور اس کی ٹوٹی ہوئی عینک میں اس کی کتاب سمیت سڑک پر پھینکتے ہوئے آئندہ اورینٹل کالج میں قدم رکھنے پر قتل کی دھمکیاں دیتے غالباً واپس اپنی کلاس لینے چلے گئے۔ 1870ء سے قائم پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اس اورینٹل کالج سے ایم اے اور پھر ایم فِل کرنے والا ذیشان علی وارث نامی یہ نوجوان اپنے ہی ادارے کے گیٹ پر زخمی حالت میں لاچاری اور بے بسی کی تصویر بنا کھڑا رہا۔ بعد ازاں استاد اسے واپس اندر لے آئے لیکن اس کو پھر باہر اکیلا بھیجنے سے اس وجہ سے متفکر تھے کہ جمعیت کے لونڈے ابھی بھی باہر ہو سکتے ہیں جنہوں نے اس نوجوان کے کالج داخلے پر پابندی لگائی تھی۔ ان کی لگائی پابندیوں کے سامنے سیکورٹی گارڈ، کالج انتظامیہ حتی کہ اساتذہ بھی کتنے بے بس تھے! جہاں معلم کی یہ کیفیت ہو وہاں کیا علم بٹتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس نوجوان کے ساتھ بھرپور یکجہتی کے اظہار کہ ساتھ یہ پیغام کہ ہم اس جارحیت اور اور بے توقیری کے خلاف ہر طرح سے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
لیکن اس کھوکھلی رجعت کے تعلیمی اداروں میں متشدد واقعات میں اضافہ اتنا بے معنی بھی نہیں۔ انہی دنوں میں ملک کی سب سے بہترین یونیورسٹی تصور کی جانے والی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں جمعیت کے غنڈوں نے کونسلز کے طلبہ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی جبکہ بعد ازاں انہیں دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ لیکن یہ اچانک نہیں ہوا۔ کچھ دنوں سے مسلسل بابِ قائداعظم یونیورسٹی پر ادھر ادھر سے اکٹھے کیے ہوئے مٹھی بھر غنڈے اپنے نعروں میں مختلف ساخت کے اسلحہ کو جمعیت کے نام سے منسوب کرتے رہے اور جمعیت کو کونسلوں کی ’میت‘ گردانتے رہے۔ اپنے نعروں میں وہ چیخ چیخ کر اپنے مجرمانہ اور متشدد عزائم بتاتے رہے۔ لیکن ریاست سوتی رہی یا شاید اس میں ان کی منشا شامل تھی۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی آشتی اور ہم آہنگی پر مبنی مضبوط روایات ہیں۔ جس کی فضائیں ہولی کے رنگوں میں رنگتی رہی ہیں اور درخت اتن و جھومر میں جھومتے رہے ہیں۔ یہاں کے طلبہ فیسوں میں کمی اور ہاسٹل کی سہولیات، طلبہ یونین بحالی اور طلبہ حقوق کی بازیابی کے لیے ہمیشہ برسرپیکار رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ملک گیر نوعیت کی اہم تحریکوں کو یہاں کے باشعور طلبہ نے ہمیشہ شکتی اور جلا بخشی ہے۔ پھر چاہے ملائیت کی دھمکیوں میں عورت مارچ کا انعقاد ہو، ملک گیر طلبہ یونین بحالی کے مظاہرے ہوں، پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ یکجہتی مارچ کے انعقاد ہوں‘ قائداعظم یونیورسٹی کے باشعور طلبہ نے اسلام آباد میں ان تحریکوں اور مظاہروں کے انعقاد میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست نے اس یکجہتی کو کچلنے کے لیے یہاں آپریشن بھی کیے، خار دار تاریں اور دیورایں کھڑی کی گئیں، کئی دنوں تک ادارہ بند رہا اور اسے سکیورٹی اداروں کی چھاؤنی بنا دیا گیا، آدھی راتوں کو ہاسٹل بھی خالی کرائے گئے، ہٹس اور ڈھابوں کو ملیا میٹ کر دیا کہ یہاں کے طلبہ کو نکیل ڈالی جا سکے۔ لیکن ریاست ان مذموم مقاصد میں کبھی بھی کلی طور پر کامیاب نہ ہوسکی۔ اسی لیے ایک منصوبہ بندی کی تحت پچھلے لمبے عرصے سے اس ادارے میں جمعیت کو گھسیڑنے کی گھناونی واردات جاری ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے طلبہ کے عمومی سیاسی شعور نے اس رجعتی رحجان کو ہمیشہ مسترد کیا اور آج دن تک تمام تر ریاستی آشیر باد اور چھتر چھایہ کے باوجود جمعیت کا ناسور اس ادارے میں پنپ نہیں سکا۔ اس لیے ارد گرد کے لونڈوں کو اکٹھا کر کے غنڈہ گردی کی بنیاد پر جمعیت کو ادارے پر مسلط کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جاتی ہیں۔
یہی حالات پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہیں۔ جہاں اس کمزور پڑتی وحشت کو تشدد کے ذریعے سینچا جا رہا ہے۔ آئے روز جمعیت کی غنڈہ گردی کا نیا واقعہ رونما کروایا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب کونسل اور بلوچ کونسل کے طلبہ کے ساتھ ان کی مٹھ بھیڑ رہی ہے۔ کئی زخمی ہوئے۔ اس سے پہلے گلگت بلتستان، پشتون و بلوچ کونسلز کے طلبہ کے ساتھ یہ غنڈہ گرد تنظیم مسلسل الجھتی رہی ہے اور کونسلز کے طلبہ نے کئی بار ان کو دھول چٹائی ہے۔ تمام تر ریاستی و انتظامی پشت پناہی کے باجود نوجوان طلبہ کے سامنے ہر بار ان کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ تشدد، خون،میت جیسی لفاظی پر مبنی ان کی دھمکیاں خود اس شکست خوردہ رحجان کے اپنے لیے طفل تسلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ سب بڑھک بازیاں اور کاروائیاں خود کو اور اپنے کارکنان کو اپنے وجود کا فریب دینے کے لیے کی جاتی ہیں۔ حقیقتاًطلبہ کی جانب سے بحیثیت مجموعی اس رحجان کو مسترد کیے عرصہ ہو چکا ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں کی رجعتی انتظامیہ اور ریاست کی زہریلی پشت پناہی اس مردار گھوڑے کو جانبر کرنے کے درپے ہے۔
یہ تعلیمی اداروں اور طلبہ کو مسلسل ہیجان میں رکھنے کی باقاعدہ منصوبہ سازی کے تحت ہے۔ مہنگی تعلیم، کم ہوتی سکالر شپس، تعلیم کے حصول کے لیے محدود کالج، یونیورسٹیاں اور نشستیں، ہاسٹل اور دیگر سہولیات کے فقدان اور پھر ڈگری لینے کے بعد ناپید روزگار کی صورتحال میں ایک ملک گیرطلبہ تحریک کا خوف ہے جس کے لیے تعلیمی اداروں میں اس غنڈہ رحجان کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مال روڈ لاہور کے کنارے پر کھڑی ایک خراب موٹرسائیکل تک پر ریاستی اہلکار الرٹ ہو جاتے ہیں جبکہ درجن بھر غنڈے تعلیمی اداروں میں دندناتے پھر رہے ہوں اور کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے تاغرضیکہ یہی مقصد ہو۔
لیکن اس غنڈہ گردی کا جواب دینا لازم ہے۔ اس متشدد رحجان کے خلاف مزاحمت ضروری ہے۔ یہ رحجان جو درسگاہوں کو قتل گاہیں بنانے کے اعلان کرتا پھرتا ہے‘اس سے ٹکرانا پڑے گا۔ کیمپس کو زندگانی لوٹانے کے لیے اس رجعت کے سامنے سینہ سپر ہونا ہوگا۔ اسی پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کونسلوں نے کئی بار تاریخ کو الٹ سمت پھیراہے جب ان غنڈوں کو سر چھپانے کو جگہ نہ ملی۔ یہی کچھ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی ہوتا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی بار تشدد سے دفاع اسی زبان میں کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر انتظامی آشیر باد کے حامل اس منظم غنڈہ رحجان کا خاتمہ منظم جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ تمام تر باشعور طلبہ کی جڑت، یکجہتی اور ہم آہنگی سے ہی اس زہرآلود ریاستی آلے کو نیست نابود کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ نظریاتی طور پر نوجوان نسل کو رجعت کی اندھی کھائی میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔ ترقی پسند انقلابی نظریات کی حامل قوتیں ہی روشن مستقبل کی ضامن ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ طلبہ کی وسیع پرتوں کو ترقی پسند انقلابی نظریات سے روشناس کرایا جائے۔ انہی تعلیمی اداروں میں نجات کے حامل سوشلسٹ نظریات پر مبنی مشترکہ اور بڑے سٹڈی سرکلز کا اہتمام کیا جائے۔ یقینا صرف نظریاتی پختگی ہی بڑے سے بڑے دیو کو شکست دینے کا ہمت و حوصلہ عطا کرتی ہے۔ یہ تو پھر ایک ریاستی پشت پناہی کا حامل مردار ہے جسے تاریخ مسترد کر چکی ہے۔