اویس قرنی
2 اکتوبر کو نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس کے ذریعے انتہائی جوشیلے انداز میں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے فیصلے پر اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یکم نومبرسے پہلے تمام غیرقانونی مہاجرین نکل جائیں ورنہ نکال دیے جائیں گے۔ وزیر صاحب کا جوش و خروش اپنی جگہ لیکن ایسے حساس معاملات پر ڈوریں کہاں سے ہلتی ہیں یہ کم از کم اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن اس وارننگ نے چند سوالات ضرور کھڑے کیے ہیں۔
سب سے پہلے تو مملکت کی حالت زار یہ ہے کہ رواں برس کے صرف پہلے سات ماہ میں یہاں کے 450,000 ”قانونی باشندے“ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور خطے میں نوکریوں کی تلاش میں نکل گئے ہیں۔ گزشتہ برس یہ تعداد 8 لاکھ سے زائد تھی۔ حالیہ اعداد و شمار صرف جولائی تک کے ہیں اور سال کے اختتام تک گزشتہ ریکارڈ ٹوٹنے کے قوی امکانات ہیں۔ موجودہ معاشی، سیاسی و سماجی حالات میں شاید ہی کوئی ذی شعور انسان آج ا س ملک کی شہریت کا خواہاں ہو۔ پھر جو”غیر قانونی“ مہاجرین ہیں‘ کیا وہ شوق سے مہاجر ہیں؟ اورباقیوں سمیت جن17لاکھ افغانیوں کو یہ دھمکی دی جا رہی ہے ان کی اس حالت زار کا ذمہ دار کون ہے؟
ان سوالات پر بحث سے پہلے اس خطے میں قبل از تاریخ کی ہجرتوں کا جائزہ بہت دلچسپ شواہد فراہم کر سکتا ہے۔ افغانستان اور ہندوستان میں آبادکاریوں کا سلسلہ دہائیوں کا نہیں بلکہ ہزاروں سالوں کا ہے۔ یہاں نسل در نسل آبادکاریاں ہوئی ہیں۔ قدیم ہندوستان کی بے پناہ زرخیز سرزمین نے بہت سوں کو اپنے اندر سمویا۔ اوریہی ہندوستان کی کثیرجہتی روایات و ثقافت کی بنیاد بھی ہے۔ حتیٰ کہ قبل از تاریخ کی دیومالائی کتھاؤ ں میں بھی اس آمد و رفت کا ذکر ملتا ہے۔ آریاؤں کے حوالے سے بعض ماہرین کے مطابق یہ لوگ ہندوستان کے جنوب کی طرف سے آئے۔ مزید یہ کہ آریا لوگوں کی ہندوستان میں ہجرت وادی سندھ کی تہذیب کی تشکیل کے ایک ہزار سال بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ نسل انسانی کی پہلی لکھت تصور کی جانی والی وید کا تعلق بھی انہی آریاؤں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ’ہندوستان کی تلاش‘ میں جواہر لال نہرو ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی بنیادیں بھی آریاؤں کی آمد کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی جنگجوآنہ صلاحیتوں کی بدولت اور سب سے بڑھ کر اپنی بقا کی خاطرمقامی دراوڑی سماج کو پچھاڑ دیا۔ لیکن مغربی طرز ارتقا کی نسبت ہندوستان میں آریاؤں نے مفتوح سماج کی جبری غلامی کی بجائے سماج کو ذاتوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا اپنایا۔ سماجی حیثیت اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر ذاتوں کا یہ نظام ہزار ہا سال پہلے وجود میں آیا۔ آریائی اور غیر آریائی سے شروع ہونیوالی تقسیم نے سینکڑوں سالوں کی مسافت کے بعد آج تک جاری چار بڑی ذاتوں کی بنیاد رکھی جبکہ اعلیٰ ذاتیں آریاؤں کے تسلط میں ہی رہیں۔ چارلس ریگنالڈ ڈوڈویل نے ہندوستان کی جانب ہجرت کرنے والی قوموں کے بارے میں کہا تھا کہ ”یہ (ہندوستان) ایک سمندر کی طرح خود میں جذب کر لینے کی لامتناہی خاصیت رکھتا ہے۔“ اور اسی نقطے پر مارکسی اساتذہ نے بے شمار لکھا کہ ہندوستان میں ہجرت کرنے والے‘ حتیٰ کہ اس پر حملہ آور ہونے والے بھی اس کے سحر سے بچ نہ سکے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ پھر آریا ہوں یا بعد میں آنے والے ایرانی، یونانی، پارتھیئن، سائتھین، اسلام سے قبل کے تُرک، اوائل کے عیسائی، یہودی یا زرتشت۔ یا بعد میں آنے والے مسلمان یا منگول۔ ماسوائے بلند تر ذرائع پیداوار کے حامل برطانوی سامراج کے ہندوستان کے مخصوص قدیم ایشائی طرز پیداوار، اس کی زرخیزی اور بلند معیار کی ثقافت و روایات نے ہر بیرون ملک سے آنے والے کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ یہ برطانوی سامراج ہی تھا جس نے نہ صرف ہندوستان کے حصے بخرے کیے بلکہ اس سے قبل افغان خطے کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے قارئین سے برطانوی سامراج کی 1893ء میں اس سرزمین کو تقسیم کرتی اس ڈیورنڈ لائن پر حال ہی میں غفران احد ایڈووکیٹ کے مضمون کے مطالعہ کی گزارش ہے۔
تاریخی اعتبار سے ایک خوشحال ہندوستان نے حملہ آوروں کو بھی اپنے اندر سمویا لیکن آج کی متروک سرمایہ داری یو پی سے لے کر بہار اور کراچی تک محروم طبقات میں بھی قومی تعصب اور انتشار پھیلا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے بحران کے ساتھ ساتھ مہاجرین کا مسئلہ بھی عالمی سطح پر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جہاں عالمی پیمانے پر روزگار کے مواقع مسلسل سکڑتے جا رہے ہیں وہاں حکمران طبقات دیگر ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو اس کا موجب قرار دے کر قوم پرستی کو اوزار کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ ٹرمپ سے لے کر میری لیپن تک دائیں بازو کے سبھی لیڈران نے ایک منظم انداز سے ایسے تاثرات کو محنت کشوں کے شعور پر سوار کرنے کی کوشش کی ہے۔
موجودہ کیفیت میں سب سے اہم یہ ہے کہ جن افغانوں پر یہ فسطائی چھری چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کی اس حالت زار کا ذمہ دار کون ہے؟ افغانستان تو ہمیشہ ایسا نہ تھا جن بربادیوں کی جانب اس کو سامراج اور اس کے حواریوں نے دھکیل دیا ہے۔ 1978ء کا افغان ثور انقلاب وہ روشن مینارہ تھا جو سوویت یونین کی سٹالنسٹ افسر شاہی سے آزادسوشلسٹ بنیادوں پر استوارہوا تھا۔ زرعی اصلاحات، خواتین کی خرید و فرخت سمیت تمام خواتین دشمن قوانین کا خاتمہ، جاگیرداروں اور ساہوکاروں کے قرضہ جات کا خاتمہ جس کا مطلب 80 فیصد کے قریب دیہاتی آبادی پر سے غلامی کی طوق اتارنا تھا‘ یہ اس انقلاب کی حاصلات تھیں کہ جن کے پیش نظر امریکی سامراج اور اس کے حواریوں نے اس پر یلغار کر دی۔ اس انقلاب کو کچلنے کے لئے ضیا آمریت کے تحت ڈالر جہاد کے لیے پوری ریاستی مشینری متحرک کی گئی۔ مکمل ریاستی آشیرباد میں ملک کے طول و عرض میں نام نہاد مجاہدوں کی کھیپ تیار کی گئی۔ اس بنیاد پرستی کے تعفن سے آج بھی یہ خطہ بیمار ہے۔ بعد ازاں اپنے ہی تخلیق کیے گئے ان وحشیوں کے اوقات سے نکلنے پر ان کے خلاف عالمی سامراجیوں نے افغانستان پر یلغار کر دی۔ آج پھر افغانستان اسی طالبانی وحشت کے چنگل میں ہے جس پر پاکستانی ریاست چائے کی چسکیاں لیتی رہی اور بربادیوں کے یہ سوداگر تو آج بھی ”اچھے“ بن کر ریاستی خدمات پر معمور ہیں۔ تذویراتی گہرائی کی پالیسی کے تحت پاکستانی ریاست افغانستان کی اس گیم میں مسلسل سرگرم کھلاڑی رہی۔ افغان دھرتی آج بھی متحارب عالمی و علاقائی سامراجیوں کی باہمی چپقلش کا اکھاڑہ بنی ہوئی ہے۔ سامراجیوں اور ان کے تخلیق کردہ ان وحشیوں کی اس آنکھ مچولی نے لاکھوں افغانوں کی زندگیوں کیساتھ کھلواڑ کیا اور اسی وجہ سے آج لاتعداد افغان پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہاجرت کی زندگی گزانے پر مجبور ہیں۔ اور اس میں پاکستانی ریاست اور ڈالری جہاد کی پیدائشی مذہبی جماعتیں باقی فریقین کی طرح برابر کی ذمہ دار ہیں۔ پہلے افغان دھرتی اور اس کے باشندوں کی بربادیوں پر یہاں ڈالر بنائے گئے اور بعد ازاں انہی بے در ہوئے افغانوں کی بنیاد پر پھر ڈالر بٹورے جاتے رہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ملک میں پے درپے آپریشنوں کے باعث اندرونی طور پر دربدر کیے جانے والوں پر بھی چھری چلائے جانے امکانات ہیں۔ یہ 80 لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز ہیں جن میں سے 6 لاکھ کیمپوں میں جبکہ دسیوں لاکھ عارضی رہائشوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت بے شمارشہروں میں ایسی درجنوں کچی آبادیاں ہیں جہاں سابقہ فاٹا، وزیرستان اور سوات کے لاکھوں لوگ موت سے بھی بدتر زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ حکمران اشرافیہ کو ان کے شہروں کے بیچ میں یہ ٹوٹی پھوٹی کچی بستیاں کھٹکتی ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر اربوں روپوں کی اراضی پر ان کی رالیں ٹپکتی ہیں جن پر یہ گھروندے آباد ہیں۔ درمیانے طبقے کے بالائی حصوں کو یہ بھی مسئلہ ہے کہ وہ ان کے علاقوں کے گھروں اور دوکانوں کی قیمتوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک برباد حال خطے سے لٹے پٹے افراد بھلا کہاں کسی کی نوکریاں چھیننے یا عالیشان محلوں کی خریدوفروخت کی استطاعت رکھ سکتے ہیں۔ متعصبانہ طور پر ان پر جرائم کے بھی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ جس کی پاداش میں زندگی کا تانہ بانہ چلانے کے لیے محنت و مشقت کرنے والے ریڑھی بان بچے تک یہاں کی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ایک قلیل تعداد کاروباروں سے بھی منسلک ہے۔ یہاں بھی طبقاتی تفریق اگر زیادہ شدت سے نہیں تو اسی طرح موجود ہے جیسے کسی بھی اور قوم میں ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معیشت کا ایک بڑا حصہ کالے دھن پر مبنی ہے جس میں غیر دستاویزی قانونی معیشت کے ساتھ رشوت، سمگلنگ اور غیرقانونی ذرائع کا بھی بڑا حصہ ہے۔ ایسے میں حکومت کی ’پاکستان سے نکل جاؤ‘ جیسی بڑھک بازی کی باوجود یہ ایک کنٹرولڈ بے دخلیاں ہو ں گی۔ جس کی زد میں پھر زیادہ تر غریب و مفلس ہی آئیں گے پھر خواہ وہ افغان ہوں یا دربدر ہوئے مقامی لوگ۔
وزیر داخلہ کی اسی تلوار سے ایک اور جگہ بھی وار کیا جا رہا ہے۔ 71ء کے بعد آج بھی کراچی اوردیگر شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں بنگالی کسمپرسی کی حالت میں آباد ہیں۔ ان کا نام ٹھکانہ آج بھی 1971ء میں کہیں گم ہے۔ آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی ان مجبوروں سے ان کے وجود کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے نہ ان کے شناختی کارڈ بنائے جاتے ہیں نہ ہی کوئی اور شناختی پَتر دیا جاتا ہے۔ نہ ان کو داخلے ملتے ہیں نہ نوکریاں۔ایک مسلسل تلوار ان کے سروں پر لٹکتی رہتی ہے۔ 1971ء سے پہلے بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد کی پاکستان کے مختلف شہروں خصوصاً کراچی میں کاروباری آمد و رفت تھی۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے یہاں سکونت بھی اختیار کی۔ ماہرین کے مطابق 23 سے 30 لاکھ کے درمیان بنگالیوں کی حیران کن تعداد پاکستان خصوصاً کراچی میں موجود ہے۔ اپنے جنم سے ہی پاکستان کی کمزور سرمایہ داری اورنااہل بورژوازی یہاں کے کسی ایک سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت سے یکسر محروم رہی ہے۔ لیکن جوں جوں اس کا بحران شدت اختیار کرتا گیا یہاں کے نااہل حکمرانوں کے وقتی فارمولے لاکھوں کروڑوں زندگیوں کو اذیتوں کی دلدل میں دھنساتے چلے گئے۔ یہاں مقیم بنگالیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس ضمن میں پی او آئی کی حالیہ تحقیق میں ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ 2000ء میں پرانے کاغذی شناختی کارڈ کی جگہ نئے بائیومیٹرک ڈیجیٹل شناختی کارڈ کے اجرا کیا گیا۔ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی اور نیشنل ایلین اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا جن کو بعد ازاں 2015ء میں ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے بنگالیوں کو ان کے حلیے، رنگت، زبان اور علاقہ سکونت کی بنیاد پر ہراساں کرتے ہوئے جبراً ایلین رجسٹریشن کے کھاتے میں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان میں سے بیشتر کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ کس نوعیت کے پروانے پر دستخط کر رہے ہیں یا ان سے کروائے جا رہے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں شہریت کا ریکارڈ موروثیت کے ساتھ جڑاہوا ہے اس لیے وہ بنگالی بھی جن کے پاس شہریت موجود تھی اب ان کے خاندان والوں کو شہریت کے منسوخ یا بلاک ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ان لاکھوں لوگوں کے وجود سے ہی انکار کرتے ہوئے انہیں بے وطن قرار دے دیا گیا حالانکہ ان میں سے اکثریت کی پیدائش یہیں ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ ان کو بھیجیں گے لیکن کہاں؟
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایپکس کمیٹی اور نگران حکومت کو اچانک یہ خیال کیسے آیا؟ نگران حکومت سے اس کے اصل کام یعنی الیکشن کروانا اور اقتدار منتقل کرنا کے علاوہ ہر وہ جابرانہ کام لیا جا رہا ہے جس کے بارے یہ خدشہ ہے کہ شاید بے رحم منتخب حکومت بھی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے۔ ان مقاصد کے لیے ترامیم تک کروائی گئیں۔ پچھلی حکومتوں کی جانب سے عوام کے گلے میں ڈالے گئے آئی ایم ایف کے طوق کو اس نگران سیٹ اپ میں مزید کسا جا رہا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ بجلی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں تباہ کن اضافے ہیں۔ عالمی منڈی سے ماورا پیٹرول کا بھاؤ اب مرغی کی طرح ہر روز طے پاتا ہے۔ اسی طرح اس نگران بندوبست کے ذریعے کئی قسم کی سیاسی وارداتیں بھی کارفرما ہیں۔ مخالف بورژوا سیاسی پارٹیوں کولگام ڈالنے کے ساتھ جمہور ی حقوق کی حامل عوامی تحریکوں پر بھی ضربیں لگائی جا رہی ہیں۔ دیگر کئی نوعیت کے عوامل کے ساتھ ساتھ خصوصاً افغان مہاجرین کے مسئلے کومسلسل شدت اختیار کرتی ہوئی قومی محرومیوں کے گرد پنپنے والی پشتون تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کرنا بھی اہم عنصر ہے۔ پشتون تحفظ تحریک پر پہلے ہی افغان ایجنٹی کے بوگس الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں خاصی تعداد میں پشتون آباد ہیں جن کی کسی نہ کسی شکل میں پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ ہمدردیاں وابستہ ہیں۔ اسلام آباد کے حالیہ جلسے کے بعد سے تحریک کو ریاست کی جانب سے شدید کریک ڈاؤن کا بھی سامنا ہے (مذکورہ بالا حوالیہ دئیے گئے غفران احد ایڈوکیٹ کے مضمون میں پشتون تحفظ تحریک کے کرداراور اسباق پر سحر حاصل بحث و تجزیہ کیا گیا ہے) ایسے میں ”افغان آبادی“ کی ملک بدری کی حکمت علمی کسی نہ کسی شکل میں اس تحریک کے خلاف حربہ بن سکتی ہے۔ اس سے ایک جانب تحریک سے جڑی ہمدردیوں پر وار کے امکانات ہیں تو دوسری جانب اس کی آڑ میں تحریک کے بیشتر کارکنان اور لیڈران پر ان کوغیرقانونی بناتے ہوئے دباؤ ڈالنا مقصود ہو سکتا ہے۔ ایسے میں مختلف علاقوں میں قوم پرستانہ شاونسٹ سوچ کو ہوا بھی دی جا رہی ہے۔ دیگر علاقوں میں پشتون آبادی کی سکونت کو ہی تمام مقامی مسائل کی وجہ بنایا جا رہاہے۔ ایسے میں دیگر علاقوں میں قوم پرست رحجانات کا ردعمل اس نظریے کے بانجھ پن کا عکاس ہے جو ان کو اس ریاستی فسطائیت میں سا نجھے دار بنا دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے اپنے آپ کو مارکس وادی کہلانے والے بھی آنکھیں موندے ریاست کی خدمت میں پیش ہیں جبکہ مارکسزم کا بنیادی نعرہ ہی ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ“ ہے۔ ریاستی فسطائیت نے تو ”غیر قانونی مہاجرین“ کا ذکر کیا ہے لیکن شاونسٹ قوم پرستی نے تو یہاں ضم ہو جانے والے ”قانونی“ لوگوں کے خلاف بھی رجعتی اور متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ بعض خود کو ترقی پسند کہلانے والے بھی اس مسئلہ پر ان شاونسٹ قوم پرستانہ رحجانات کی غمازی کر تے ہوئے دائیں جانب کھڑے ملتے ہیں۔ ماقبل از تاریخ قدیم ترین ہندوستان کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو دسیوں دہائیوں سے پاکستان بھر میں ایسے پشتون و افغان آباد ہیں جن کی نسلوں کی نسلیں بھی اب جوان ہو چکی ہیں۔ آج بھی کشمیر سے لے کر پنجاب، سرائیکی وسیب اور سندھ تک کئی قدیم قبائلی لوگ موجود ہیں۔ وہ تو اپنے اجداد کی زبان تک بولنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ قومی شاونسٹوں کے پاس ان سوالات کے جواب نہ بھی ہو ں لیکن ان کی منطق کے مطابق ان سبھی کو اپنی جنم بھومی لوٹ جانا چاہیے۔ اس منطق کے تحت ساری انسانیت کو افریقہ واپس جانا پڑے گا جو نسل انسان کی جنم بھومی ہے۔
لہٰذا سب سے پہلے توان وجوہات کا حساب دینا ہوگا جن سے یہ لاکھوں زندگیوں برباد اور دربدر ہوئی اور ہو رہی ہیں۔ اوریہاں کی ہر قوم میں موجود محروم و مظلوم طبقات کی یکجہتی پر مبنی یہ حساب سامراجیوں اور ان کے حواریوں کو بہت مہنگا پڑے گا۔ یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگاکہ محنت کش کا دشمن کسی اور قوم، نسل و زبان کا حامل محنت کش نہیں بلکہ وہ سرمایہ دار ہے جو ان کی محنت اور وسائل پر قابض ہوتا ہے اور انہیں لوٹ کر لے جاتا ہے۔