مسعود قمر
میں
جب پیدا ہوا
میں نے پہلی چیخ
محبت، وقت
اور
موت کی تکون کے خلاف ماری
یہ تکون بچے کو
بغیر پیدا ہوئے
موت کی تہہ میں
لپیٹ کر لے جاتی ہے
میں
بہت سے ادھ پئے
گلاسوں میں چھوڑی شرابیں
پی پی کر
بسوں اور ٹرینوں کے
نیچے آتے آتے بچا
مگر
میں نے ساری بوتل پی کر
دوستوں کو
بسوں اور ٹرینوں کے
نیچے آنے سے بچا کر انہیں
ان بستروں پہ پہنچاتا رہا ہوں
جہاں
تنہائی ہم بستری کر رہی تھی
میں
محبت، وقت اور موت کے
خوں ریز مقابلے میں
پیدا ہوا اور مارا گیا
میں کبھی بھی
میں سے نہیں مل سکا