فن و ثقافت

پاکستان کا سب سے بڑا موسیقار اور بھگت سنگھ کا ساتھی!

عقیل عباس جعفری، راؤ منظر حیات اور خواجہ عرفان انور سے استفادہ

اسلم ملک

وہ کوئی ساز بجانا نہیں جانتے تھے۔

لازوال دھنیں ماچس کی ڈبیا سے بجا کر تخلیق کیں۔

ایم اے فلسفہ میں اول آئے، گولڈ میڈل لینے گئے ہی نہیں۔

مقابلے کے امتحان میں پورے ہندوستان میں ٹاپ کیا، لیکن بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں سے روابط کی وجہ سے نااہل قرار پائے۔

یہ نااہلی ہندوستان کی فلمی موسیقی کیلئے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔

اس سے فلمی موسیقی کو خواجہ خورشید انور ملے جنہوں نے دل کا دیا جلایا، مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے، رم جھم رم جھم پڑے پھوار، جس دن سے پیا دل لے گئے، آگئے گھر آگئے بلم پردیسی، سجن پردیسی، چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا پیار، آبھی جا آبھی جا، او جانے والے رے ٹھہرو ذرا رک جاو، چھن چھن ناچوں گی گن گن گاوں گی، سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے، زلفان دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں ڈھولنااور ونجھلی والڑیا جیسی دھنیں تخلیق کیں۔

خواجہ صاحب کے صاحبزادے خواجہ عرفان انور فرماتے ہیں کہ ساز بجانا کلاسیکی موسیقی کیلئے بالکل ضروری نہیں۔ ہماری موسیقی بنیادی طور پر ووکل ہے۔ خورشید انور لاہور ریڈیو اور منتخب محفلوں میں گاتے بھی رہے ہیں۔

خواجہ خورشید انور 21 مارچ 1912ء کو میانوالی کے محلہ بلوخیل میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق موسیقی کے کسی گھرانے سے نہیں تھا۔ ان کی علامہ اقبال سے بہت نزدیک کی رشتہ داری تھی۔ ان کے نانا، خان بہادر عطا محمد شیخ کی بیٹی علامہ کی اہلیہ تھیں۔ ان کی والدہ گجرات میں پیداہوئیں۔ علامہ اقبال کی پہلی اہلیہ کریم بی بی کی چھوٹی بہن تھیں بلکہ علامہ نے ان کی والدہ فاطمہ بی بی کا رشتہ بضداصرار کروایا۔ ان کے والد فیروزالدین لاہور کے ایک کامیاب بیرسٹر تھے۔ ان کے والد کو صرف ایک شوق تھا اور وہ تھا کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی سننا اور جمع کرنا۔

ان کے گھر میں ہزاروں کی تعداد میں ریکارڈ موجود تھے۔ گھر میں موسیقی کی بڑی بڑی محفلیں ہوا کرتی تھیں جن میں استاد توکل حسین، استاد عبدالوحید خاں، استاد عاشق علی خاں، استاد غلام علی خاں، فیروز نظامی اوررفیق غزنوی جیسے اساتذہ شرکت کرتے تھے۔ انہی محفلوں سے خورشید انور کو موسیقی کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے استاد توکل حسین سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔

خواجہ خورشید نے 1935ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ماسٹرز کیا اور اول آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب تقسیم انعامات کی تقریب میں قصداً نہیں گئے۔ انگریز وائس چانسلر نے جب گولڈ میڈل کے لیے نام پکارا، وہ موجود نہ پائے گئے تو اس نے برجستہ کہا کہ جو طالب علم اپنا میڈل لینا بھول گیا ہے وہ حقیقی طور پر ایک فلسفی ہے مگر خورشید انور کی منزل کوئی اور تھی۔ اس کو سْر اور ساز کا بادشاہ بننا تھا۔ عین اسی وقت لاہور میں ایک محفل موسیقی منعقد ہورہی تھی جس میں ہندوستان بھر کے نامور موسیقار اور گائیک شرکت کررہے تھے۔ انھیں موسیقاروں میں اس طالب علم کے موسیقی کے استاد خان صاحب توکل حسین خان بھی شامل تھے۔ وہ طالب علم جلسہ تقسیم اسناد اور گولڈ میڈل تو چھوڑ سکتا تھا مگر اس محفل کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

اس سے اگلے سال 1936ء میں خواجہ خورشید انور نے اعلیٰ ملازمتوں (آئی سی ایس)کے لئے مقابلے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی لیکن انٹرویو میں ناکام قرار دئیے گئے چونکہ وہ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں شریک رہے تھے اور انقلابیوں کو کالج لیبارٹری سے پکرک ایسڈ فراہم کرنے کے الزام میں قید بھی بھگت چکے تھے۔ بی اے کا امتحان بھی جیل سے دیا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ خود بھی اپنے مزاج کو سول سروس کے مزاج سے ہم آہنگ نہ پاتے تھے۔ وہ تحریری امتحان میں بھی صرف اپنے گھر والوں کے شدید اصرار کے باعث شریک ہوئے تھے۔

یہ ناکامی ان کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

1939ء میں خواجہ خورشید انور نے آل انڈیا ریڈیو دہلی پر میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے نوکری کرلی۔ وہاں ان کی ملاقات اے آر کاردار سے ہوئی۔ کاردار اس زمانے کے سکہ بند فلمساز تھے۔ 1941ء میں خواجہ صاحب نے ان کی پنجابی فلم”کڑمائی“ کا میوزک بنایا۔ یہ فلم اتنی کامیاب نہ ہو سکی جتنی توقع کاردار اور خورشید انور کر رہے تھے۔ دو سال کے بعد 1943ء میں ”اشارہ“ بنائی۔ اس میں بھی موسیقی خواجہ صاحب ہی کی تھی۔ اس کے گانے ثریا بیگم، گوہر سلطان اور وستالہ کماٹھیکر نے گائے تھے۔ ان گانوں نے برصغیر کو ایک سحر میں مبتلا کر دیا۔ ہر گلی کوچے میں ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ یہ اس عظیم موسیقار کی پہلی کامیابی تھی۔ اس کے بعد شہرت کا ایک لامتناہی زینہ تھا جس پر یہ نوجوان چڑھتا چلا گیا۔

1947ء میں سہگل نے خواجہ خورشید انور کی بنائی ہوئی دْھن پر اپنی زندگی کاآخری گانا گایا۔ اس فلم کا نام ”پروانہ“ تھا۔ اس فلم کے پانچوں گانوں کی موسیقی خواجہ خورشید انور کی تھی۔ گانے ڈی این مدھوک نے لکھے۔ دو میں نخشب اور تنویر نقوی کا اشتراک تھا۔ 1949ء میں خواجہ صاحب کو موسیقی کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا۔ اس کا نام“کلیئر ایوارڈ”تھا۔ موسیقار روشن اورشنکر جے کشن اس موسیقی کے جادوگر کی دہلیز پر بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ نوشادجو خود ایک یکتا موسیقار تھے، خواجہ صاحب کے احترام میں کھڑے رہتے تھے۔

خواجہ خورشید انور 1952ء میں پاکستان آ گئے۔ یہاں ان کے پائے کے موسیقار نہ ہونے کے برابر تھے۔ نورجہاں جیسی عظیم گائیکہ بھی ایک مشکل دور سے دوچار تھی۔ 1956ء میں خورشید انور نے”انتظار“ فلم کی دْھنیں ترتیب دیں۔ اس کے گانے نورجہاں کے لیے ایک نئی فنی زندگی کاذریعہ بنے۔ یہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلم تھی۔ اس کی کامیابی خواجہ صاحب کے بے مثال میوزک کے سبب تھی۔ اس فلم کے بعد توخواجہ صاحب فن کے آسمان پر چمکنے لگے۔

مرزا صاحبان، زہرعشق، جھومر، کوئل، ایاز، گھونگھٹ حویلی، چنگاری، سرحد، ہیررانجھا، شیریں فرہاد، مرزاجٹ اور سلام محبت وہ فلمیں تھیں جنکی کامیابی کا سہرا خواجہ خورشید انور کی جادوئی موسیقی کو جاتاہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، 15 اردو اور 3  پنجابی۔ انہوں نے گھونگھٹ، حیدر علی، اور ہمراز سمیت چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔

فیض احمد فیض اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی شاعری میں خورشید انور کا جذب موجود ہے۔ فیض صاحب، ان سے بہت متاثر تھے۔ فیض کالج میں خواجہ صاحب سے ایک سال سینئر تھے۔ ن م راشد بھی ان دنوں کالج میں تھے۔

خواجہ خورشید انورکا ایک بڑا کارنامہ ”آہنگِ خسروی“ ہے۔ یہ 30 لانگ پلے ریکارڈز پر مشتمل ایک البم ہے جس میں برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کے معروف گھرانوں کے 90 راگ محفوظ کردے گئے۔ یہ لانگ پلے ریکارڈ ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم، استاد سلامت علی خان، ذاکر علی خان اور اختر علی خاں، استاد فتح علی خاں (پٹیالہ)، اسد امانت علی خاں اور حامد علی خاں، استاد اسد علی خاں، استاد رمضان خان، استاد امرا بندو خان، استاد غلام حسین شگن، استاد حمید علی خان، استاد فتح علی خان (گوالیار)، ملک زادہ محمد افضل خان اور ملک زادہ محمد حفیظ خان کی آوازوں میں تیار کئے گئے تھے۔ ”آہنگ خسروی”اور”راگ مالا“ ایسے عظیم کام ہیں جو ان کے بعد بہت کم لوگ کر پائے۔

خواجہ صاحب کا موسیقی بنانے یا ترتیب دینے کا طریقہ بہت مختلف بلکہ منفرد تھا۔ وہ ماچس کی ڈبیا کو ایک خاص انداز میں بجاتے تھے اور وہیں سے وہ اپنی نایاب دْھن کی بنیاد تشکیل دے دیا کرتے تھے۔ 1980ء میں خواجہ صاحب کو ”ستارہ امیتاز“ سے نوازا گیا۔ 1982ء میں انھیں بمبئی کی میوزک انڈسٹری کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ کا نام تھا: ’Mortal Man Immortal Melodies Award‘

خواجہ صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ریڈیو پاکستان نے ان کی بنائی ہوئی سگنیچر ٹیون سے آغاز کیا۔

خواجہ خورشید انور 30 اکتوبر 1984 ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔

Aslam Malik
+ posts

اسلم ملک روزنامہ جنگ کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔ وہ ستر کی دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔