لاہور(آن لائن رپورٹ)’مڈل ایسٹ آئی‘ نے، جو اپنی تنقیدی رپورٹوں کے لئے معروف ہے، اپنی اکیس اگست کی اشاعت میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں پیدا ہونے والے بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلیجی حکمرانوں نے کاروباری مفادات کے لئے کشمیر سے غداری کی ہے۔ اسد عیسیٰ کی تحریر کردہ اس رپورٹ میں ابتداً مختلف خلیجی ممالک کے رد عمل کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے:
متحدہ عرب امارات
ابھی آرٹیکل 370 منسوخ ہوئے چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ بھارت میں اماراتی سفیر نے اس اقدام کو ایک اچھی پیش رفت قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ اس سے ریاست جموں کشمیر میں انصاف کی فراہمی اور امن کے قیام میں مدد ملے گی۔ چند دنوں کے وقفے سے البتہٰ امارات کے وزیر خارجہ نے نیا بیان جاری کیا جس میں تمام فریقین سے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا گیا۔
سعودی عرب
سعودی عرب نے کہا کہ جموں کشمیر میں تمام قوتیں امن اور استحکام کے لئے کام کریں (رپورٹ میں یاد دلایا گیا ہے کہ دو سال پہلے جب سعودی عرب نے قطر کا بائیکاٹ کیا تھا تو بھارت نے بھی اسے خلیجی ممالک کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا)۔
قطر
کوئی پالیسی بیان تو جاری نہیں کیا گیا البتہٰ قطر نے کشمیر میں ممکنہ طور پر موجود اپنے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہاں سے نکل جائیں۔
بحرین
عمران خان سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعدبحرین کے امیر نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس کے فوری بعد البتہ ٰبحرین کی وزارتِ داخلہ نے نمازِ عید کے بعد ہونے والے اس مظاہرے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا جو کشمیر کی حمایت میں کیا گیا تھا۔ اگلے چوبیس گھنٹوں میں سوشل میڈیا سے ایسے تمام اکاونٹ غائب تھے جن پر مظاہرے کی فوٹیج شیئر کی گئی تھی یا اس مظاہرے پر کمنٹس کئے گئے تھے۔
روپیہ سب دا بھنویا
رپورٹ کے مطابق کشمیر پر عرب حکمرانوں کی غداری کوئی منفرد واقعہ نہیں۔ چین کے وہیگر، برما کے روہنگیا، یمن اور سنٹرل افریقن ریپبلک کے مسلمان بھی ان حکمرانوں کے معاشی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اسد عیسیٰ کا دعویٰ ہے کہ چین اور بھارت خلیج کی معیشت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
بھارت اس وقت دنیا میں توانائی کے استعمال کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ بھارت اپنے تیل کی 60 فیصد درآمد خلیجی ممالک سے کرتا ہے۔ بھارت متحدہ عرب امارات کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ حال ہی میں نریندر مودی نے امارات اور بحرین کا دورہ کیا۔ کسی بھارتی وزیر اعظم نے پہلی بار بحرین کا دورہ کیا ہے۔
رپورٹ میں ایران کا بھی ذکر ہے جو ماضی کے بر عکس اس بار کشمیر پر خاموش ہی رہاہے۔ بھارت ایران سے بھی تیل درآمد کرتا رہا ہے مگر ٹرمپ کی جانب سے حالیہ پابندیوں کے بعد یہ سلسلہ روک دیا گیاہے۔