اداریہ روز نامہ جدوجہد
اتوار کے روز پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین کی پشاور میں گرفتاری کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہ تھا۔ 12 جنوری کو پی ٹی ایم نے بنوں میں ایک کامیاب عوامی جلسہ کیا جس میں ہزاروں شہریوں نے شرکت کی۔ یہ جلسہ سانحہ خڑ قمر کے بعد اپنی طاقت دکھانے کے لئے پی ٹی ایم کا پہلا عوامی اظہار تھا۔ پی ٹی ایم نے ثابت کیا کہ خڑقمر کے سانحے نے اسے کمزور کرنے کی بجائے مزید طاقتور بنا دیا ہے۔
خڑ قمر کا واقعہ پی ٹی ایم کو بزور طاقت دبانے کا سب سے پر تشدد ریاستی اظہار تھاجس میں ایک فوجی چیک پوسٹ سے پی ٹی ایم کے جلوس پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں پندر افراد ہلاک ہو گئے۔ گو میڈیا میں یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ چیک پوسٹ پررکنِ قومی اسمبلی علی وزیرکی قیادت میں حملہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، جب بہت سی ویڈیو فوٹیجز سامنے آئیں تو یہ پراپیگنڈہ زائل ہوگیا۔
اس کے باوجود علی وزیر اور ان کے ہم منصب محسن داوڑ کو گرفتار کر لیا گیا۔ کئی ماہ کی قید کاٹنے اور قانونی لڑائی لڑنے کے بعد، گذشتہ سال ستمبر میں یہ دونوں ارکانِ قومی اسمبلی ضمانت پر جیل سے رہا ہو سکے۔ دریں اثنا، جب یہ دونوں رہنما پابندِ سلاسل تھے، ریاستی قوتیں پی ٹی ایم کی تقسیم کی متمنی نظر آئیں کہ ان دونوں رہنماؤں کی رہائی کے لئے کوئی احتجاجی دھرنے یا عوامی مظاہرے نہیں ہوئے، جس میں سے بعض غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کا موجب بنے۔ اورمقتدر قوتیں شایدیہ سمجھ بیٹھیں کہ پی ٹی ایم کی مقبولیت جبر سے مات کھا گئی ہے۔
دریں اثنا، سابقہ فاٹا کے علاقے میں صوبائی انتخابات ہوئے۔ ایسے حالات میں کہ جنوبی و شمالی وزیرستان کی نمائندگی کرنے والے دونوں ارکانِ قومی اسمبلی، محسن داوڑ اور علی وزیر، جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے، سرکاری سرپرستی میں پاکستان تحریکِ انصاف کو جتانے میں زیادہ جتن نہیں کرنے پڑے۔ اس انتخابی کامیابی نے خوش فہمیوں کو مزید مستحکم کر دیااور مقتدر قوتوں کو ایک بار تولگا کہ سب اچھا ہے۔
ایسا تھا نہیں۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی رہائی کے بعد، پی ٹی ایم خڑقمر کے دھچکے سے بھی آہستہ آہستہ باہر نکلی۔ خود کو از سر نو منظم کیا اور 12 جنوری کو اپنی طاقت کا پر امن اظہار کیا۔
سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ پی ٹی ایم روایتی سیاسی جماعت نہیں کہ جس کی (خاندان پر مبنی)قیادت کو ڈرا دھمکا کر، لالچ دے کراور بلیک میل کرتے ہوئے مرضی کا فیصلہ کروا لیا جائے۔ یہ ایک حقیقی عوامی سماجی تحریک ہے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں یہ ایک نیا عنصر ہے۔ جب تک پشتون خطوں میں وہ مسائل حل نہیں ہوں گے جنہوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا، پشتون عوام میں بے چینی موجود رہے گی۔
قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ پی ٹی ایم پُر امن سیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ بلاشبہ اس میں مختلف نظریاتی رجحانات ہیں۔ ایک طرف کٹر قوم پرست ہیں تو دوسری طرف طبقاتی بنیادوں پر پاکستان بھر میں مظلوم طاقتوں کے اتحاد کی بات کرنے والے بھی موجود ہیں۔ باچہ خان کے پیروکار بھی موجود ہیں اور مارکس وادی سوچ رکھنے والے سیاسی کارکن بھی اس پلیٹ فارم سے متحرک و نمایاں ہیں۔
ان تما م باتوں کے پیش ِنظر پاکستان کا بایاں بازو، کٹر قوم پرستی اور مہم جوئی کی جانب تنقیدی رویہ رکھتے ہوئے، درست طور پرپی ٹی ایم کے مطالبات کی حمایت کرتا آیا ہے۔
اب اس حمایت کی سزا دی جا رہی ہے۔ پیر کے روز پی ٹی ایم کی کال پر جب ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تو لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں بایاں بازو ہی متحرک نظر آیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گذشتہ روز لاہور سے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے رہنما محسن ابدالی کو ریاستی اداروں نے اٹھا لیا۔ اس سے قبل پیر کے روز اسلام آباد میں 29 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ محسن داوڑ سمیت چھ ارکان کو رہا کر دیا گیا مگر باقی 23 کارکنوں کے خلاف غداری کے مقدمے بنا دیے گئے ہیں۔ ان سیاسی اسیران اور مقدمات کا شکار ہونے والوں میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عمار رشید بھی شامل ہیں۔
بائیں بازو کے کارکنوں کے خلاف ان تازہ ترین مقدمات سے قبل لاہور میں گذشتہ سال نومبر میں تاریخی طلبہ یکجہتی مارچ کی وجہ سے بائیں بازو کے رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات بنائے گئے۔ ان مقدمات کا سامنا کرنے والوں میں ”روزنامہ جدوجہد“ کے ادارتی بورڈ کے رکن فاروق طارق کے علاوہ ایف سی کالج یونیورسٹی کے ڈاکٹر عمار علی جان بھی شامل ہیں۔ مردان یونیورسٹی میں ہلاک کر دیے جانے والے طالب علم مشال خان کے والد اقبال لالاپر بھی مقدمہ بنا دیا گیا کیونکہ وہ بھی اس مارچ میں شریک تھے۔ یہ سب لوگ ضمانت قبل از گرفتاری کی وجہ سے جیل سے باہر ہیں مگر ایک تلوار ان کے سروں پر مسلسل لٹک رہی ہے۔
اس مارچ سے اگلے روز علی وزیر کے بھتیجے عالمگیر وزیر کو اٹھا لیا گیا۔ دو دن کے زبردست احتجاج کے بعد انہیں عدالت میں تو پیش کر دیا گیا مگر ان کی ضمانت نہیں ہو رہی۔ ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔
مندرجہ بالا تفصیلات سے بالکل واضح ہے کہ شدید معاشی، سیاسی، نظریاتی اورثقافتی بحران کا شکار حکمران طبقہ ایک جانب نئی طرز کی تحریکوں کا سامنا کر رہا ہے، دوسری جانب تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے علاوہ اسے کوئی طریقہ معلوم نہیں۔
ریاست کا خیال ہے کہ قید و بند یا تشدد کی مدد سے وہ صورتحال پر قابو پالے گی۔ بلا شبہ بندی خانے تحریکوں کو تھکا دیتے ہیں۔ بلا شبہ تشدد اور بربریت شہریوں کو خوفززدہ کرتے ہیں۔ خوف کا شکار لوگ متحرک ہونے کے قابل نہیں رہتے مگر یہ کلیہ زمان و مکان کی قید سے آزاد نہیں۔ یہ ہر دفعہ کارگر نہیں ہوتا۔ خاص کر کہ جب حکمران طبقہ بحران کا شکار ہو تو جبر الٹا پڑ جاتا ہے۔
عین جب مندجہ بالا واقعات پاکستان میں رونما ہو رہے تھے، پڑوسی ملک میں کہیں زیادہ پر اعتماد مودی سرکار تمام تر پولیس تشدد کے باوجود اس ننھی منی تحریک کو نہ دبا سکی جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پیدا ہوئی اور اب پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
چلی، سوڈان، عراق اور لبنان میں گذشتہ چند مہینوں کے اندر وہاں کے سکیورٹی اداروں نے کئی گنا زیادہ جبر کیا مگر ہر جگہ حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے کیونکہ نیو لبرل حکمران ہر جگہ عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ لوگ خوف کے سائے سے باہر نکل رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی تشدد کام نہیں آئے گا۔ پی ٹی ایم کے مطالبات بھلے پشتون خطے سے باہر عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں مگر حکومت کے خلاف معاشی دہشت گردی کی وجہ سے جو لاوا پک رہا ہے وہ عنقریب پھوٹنے والا ہے۔ حکمران بھی اس متوقع تحریک سے خوفزدہ ہیں۔ گمشدگیاں، گرفتاریاں اور بغاوت کے مقدمے اسی آفت کو ٹالنے کے لئے ہیں۔ موجودہ جبر اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نیو لبرلزم اور ریاستی جبر لازم و ملزوم ہیں۔ فرانس جیسی ریاست ہڑتالی مزدوروں پر وحشیانہ پولیس تشدد کر رہی ہے مگر تحریک نہ فرانس میں ٹوٹ رہی ہے نہ ہی یہ اب پاکستان میں دبے گی۔