فاروق طارق
بنوں میں پی ٹی ایم نے ایک بہت بڑے جلسے کا انعقاد کر کے ایک دفعہ پھر یہ بتا دیا ہے کہ اس کی پشتون عوام کو موبلائز کرنے کی صلاحیت ریاستی جابرانہ ہتھکنڈوں سے ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
پی ٹی ایم جس بنیاد پر مقبول ہوئی تھی، ایک وقفے کے بعد اسی راستے پر پھر سے چل پڑی ہے۔ سخت سردی کے باوجود پی ٹی ایم کے جلسے نے ہزاروں پشتون عوام کی سول حقوق کی ایک بے مثال تحریک کے طور پر زندہ رہنے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ اس کا پیغام ریاستی جبر کے باوجود رکا نہیں اورنہ ہی ٹھہرا ہے۔
جلسے سے واضح ہو گیاہے کہ منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ کی قیادت آج بھی عوامی سطح پر پہلے کی طرح عوام میں مقبول ہے۔ بنوں وہی شہر ہے جہاں کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں محسن داوڑ اور علی وزیر کے خلاف اس وقت مقدمہ چلا تھا، جب دونوں ایک دھرنے میں شرکت کے لئے پہنچے تھے اور ان پر فائرنگ کر دی گئی تھی۔ پندرہ افراد اس وقت ہلاک ہوئے تھے اور دونوں ممبران پارلیمنٹ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دونوں بعد ازاں ضمانت پر رہا ہوئے اور اب بھی تاریخیں بھگت رہے ہیں۔
ان دونوں نے پارلیمنٹ میں ایکسٹینشن ترمیم کے خلاف ووٹ دے کر ان تمام ناقدین کے منہ بند کر دئیے تھے جو یہ کہ رہے تھے کہ انہوں نے مصالحت کر لی ہے اور یہ کہ پی ٹی ایم اب ختم ہے۔ اس ووٹ کے بعد یہ ان کا ایک بڑا عوامی اجتماع تھا جس کی موبلائزیشن کئی اضلاع میں کی گئی تھی اور کئی ہفتوں سے اس جلسے کی تیاریاں جاری تھیں۔
توقع کے عین مطابق کمرشل میڈیا نے جلسے کی کوریج کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ اس کی جھلکیاں بھی نہ دکھائی گئیں۔ مگر یہ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ تھا۔ پچاس ہزار سے زیادہ دفعہ اس جلسہ کا ذکر ٹوئٹر پر کیا گیا۔ سینکڑوں کی شرکت والی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی ہیں اور مسلسل ہو رہی ہیں۔ جلسے سے خطاب میں تحریک کو زندہ رکھنے کا بار بار عزم کیا گیا اور کہا گیا کہ پی ٹی ایم کو کوئی طاقت بزور طاقت ختم نہیں کر سکتی۔