اسلم ملک
جلیانوالہ باغ قتل ِعام کا بدلہ لینے والے اُدھم سنگھ نے عدالت میں اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد اور مذہب ہندوستان بتایا اور کہا حلف ہیر وارث شاہ پر اٹھاؤں گا۔
ادھم سنگھ کا پیدائشی نام شیر سنگھ کمبوہ تھا، وہ 26 دسمبر 1899ء کو پٹیالہ کے علاقے سنام میں پیدا ہوا۔ اس کے والد طہال سنگھ کوئی دس کلو میٹر دور سنگرور کے ایک ریلوے پھاٹک پر چوکیدار تھے۔ شیر سنگھ دوسال کا تھا کہ والدہ فوت ہوگئی۔ پانچ سال بعد والد بھی دنیا سے چلے گئے۔ پھر کسی نے 24 اکتوبر 1907ء کو اسے اور اس کے بھائی کو خالصہ یتیم خانہ امرتسر میں داخل کرا دیاجہاں شیر سنگھ کو ’ادھم سنگھ‘اور مکتا سنگھ کو ’سادھو سنگھ‘کے نئے نام دئیے گئے۔
1917ء میں ادھم سنگھ کا بھائی فوت ہوگیا جس کے بعد وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ 1918ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد ادھم سنگھ نے یتیم خانہ چھوڑ دیا۔ جلیانوالہ باغ کے سانحہ کے دن ادھم سنگھ وہیں موجود تھا۔ اس دردناک واقعے نے ادھم سنگھ کو انقلاب کے راستے پر ڈال دیا۔ وہ بھگت سنگھ سے بہت متاثر تھا، اسے اپنا گرو مانتا تھا، وہ انقلابی شاعر رام پرساد بسمل کا بھی مداح تھا۔ اْدھم سنگھ نے سوشلسٹ غدر پارٹی بھی جوائن کرلی۔
ادھم سنگھ نے جلد ہی انڈیا چھوڑ دیا اور امریکا چلا گیا، وہاں سے واپسی پر چھپا کر کچھ ریوالور لاتے ہوئے پکڑا گیا اور 4 سال کی قید ہوئی۔ 1931ء میں جب وہ رہا ہوا تو سنام چلا گیا، جہاں مقامی پولیس کے ہراساں کرنے پر ایک بار پھر امرتسر آگیا اور ایک سائن بورڈ پینٹر کے طور پر دوکان کھول لی۔ ایک بار پھر اس نے انڈیا چھوڑا لیکن اب کی بار اس کا انڈیا چھوڑنے کا مقصد جلیانوالہ باغ کا بدلہ لینا تھا اور انگلینڈ چلا گیا۔
وہاں وہ موقع کی تلاش میں رہا۔ لمبے انتظار کے بعد 13 مارچ 1940ء کو وہ لمحہ آن پہنچا۔ اس دن ساڑھے چاربجے ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن کی کیکسٹن ہال میں میٹنگ ہورہی تھی۔ ادھم سنگھ نے ایک کتاب کے صفحات درمیان سے کاٹ کر اس میں ریوالور چھپایا اور کتاب اٹھائے میٹنگ میں جا پہنچا۔ ادھم سنگھ نے مائیکل اوڈوائر پر 5 سے 6 فائر کئے۔ اس نے بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور یہ کہتا رہا کہ اس نے اپنے ملک کیلئے اپنا فرض ادا کر دیا۔
4 جون 1940ء کو سینٹرل کریمنل کورٹ ’اولڈ بیلی‘ میں جسٹس ایٹکنسن کے سامنے اس کا ٹرائل ہوا۔
اس دوران کا مکالمہ
جج: تیرا نام کیا ہے؟
ادھم سنگھ: رام محمد سنگھ۔
جج: یہ کیسا نام ہے؟ تیرا مذہب کیا ہے؟
ادھم سنگھ: ہندوستان۔
جج: حلف کس پر اٹھائے گا؟
ادھم سنگھ: ہیر وارث شاہ پر جسے سب پنجابی پڑھتے ہیں۔
ادھم سنگھ نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا: ”میں نے یہ اس لئے کیا کیونکہ مجھے اوڈوائر پر شدید غصہ تھا اور وہ اسی کا مستحق تھا، وہ اصل مجرم تھا، وہ میرے لوگوں کا حوصلہ ختم کرنا چاہتا تھا، سو میں نے اسے ختم کر دیا، 21 سال سے میں بدلہ لینے کی کوشش میں تھا اور میں خوش ہوں کہ میں نے اپنا کام پورا کردیا۔ میں موت سے نہیں ڈرتا، میں اپنے وطن کیلئے مررہا ہوں، انگریزوں کی حکومت میں، میں نے اپنے لوگوں کو بھوک سے مرتے دیکھا ہے، میں اس کے خلاف احتجاج کرتا ہوں اور یہ میرا فرض ہے، اس سے زیادہ کرم مجھ پر کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی خاطر جان دے دوں۔
بالآخر عدالت نے اسے موت کی سزا دی اور 31 جولائی 1940ء کو ادھم سنگھ کو ’پینٹن وائل‘ جیل لندن میں پھانسی دے کر جیل کے احاطے میں دفنا دیا گیا۔
یاد رہے کہ ادھم سنگھ کے پاسپورٹ پر اس کا نام آزاد سنگھ لکھا ہوا تھا۔ شیر سنگھ، اْدھم سنگھ، آزاد سنگھ اور رام محمد سنگھ آزاد کی شہادت دراصل ایک نئے آدمی کاجنم تھا۔ جس کا نام ہندوستانیوں نے شہیدِ اعظم رکھا۔
کئی سال تک ان کا جسد خاکی وطن واپس لانے کی تحریک چلتی رہی، بالآخر کامیابی ہوئی اور جولائی 1975ء میں شہادت کے ٹھیک 35 سال بعد ان کا جسد خاکی بھارت لایا گیا جو وزیراعظم اندرا گاندھی، شنکر دیال شرما اور گیانی ذیل سنگھ نے وصول کیا۔ پھر اسے جلیانوالہ باغ لایا گیا، جیسے اس باغ میں مرنیوالوں سے صرف یہ کہنے کیلئے آیا ہوکہ تمہارا بدلہ لے کر آگیا ہوں، پھر وہاں سے سنام گاؤں لے جایا گیا۔
شہید اعظم کی آخری رسومات تینوں قوموں پر ایک فرض تھا جو ایک پنڈت، ایک مولوی اور ایک سکھ گرنتھی نے پنجاب کے وزیراعلیٰ گیانی ذیل سنگھ کی قیادت میں مل کے ادا کیں۔