فارو ق سلہریا
’24‘ ایک معروف امریکی ٹی وی سیریز تھی۔ چوبیس قسطوں پر مشتمل یہ تھرلر چوبیس گھنٹوں میں ہونے والے واقعات کی کہانی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے واقعات سسپنس کو جنم دیتے ہیں اور ناظرین اگلی قسط کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کو یہاں کے ہیجان انگیز میڈیا نے ’24‘ جیسا تھرلر بنا دیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اخلاقیات سے عاری یہ میڈیا ایک پستی سے دوسری پستی میں 24 گھنٹے مسلسل گرنے کا نام ہے۔
ایک دن قبل فرشتہ مہمند کی شہریت کے معاملے پر اخلاقیات کے پرخچے اڑائے جا رہے تھے۔ تا دمِ تحریر نیب کے چیئرمین جسٹس جاویداقبال سکرین پر چھائے ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کا سکینڈل چھایا ہوا ہے۔
یہ ایک سیاسی، سماجی اور ثقافتی پورنوگرافی ہے جو آن اسکرین اور آف اسکرین جاری ہے۔ چیئرمین نیب اس کی تازہ قسط ہے۔ یہ تازہ ترین قسط مروجہ میڈیا، اشرافیہ اور سیاسی قیادت کے مکمل دیوالیہ پن کا پورنوگرافک اظہار ہے۔
سب سے پہلے تو بات کرتے ہیں چیئرمین نیب کی۔
پچھلے چوبیس گھنٹے میں دو ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں۔ ایک پرانی ویڈیو میں منظور پشتین بتا رہے ہیں کہ موجودہ نیب چیئرمین جس وقت لاپتہ افراد کے کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے، ان دنوں موصوف لاپتہ افراد کی اُن رشتہ دار خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرتے تھے جو دادرسی کے لئے ان کے پاس آتی تھیں۔ منظور پشتین نے ایک عورت کا واقعہ سنایا جسے ان جسٹس صاحب نے کہا ”آپ اتنی خوبصورت ہیں۔ چھوڑیں اپنے لاپتہ خاوند کو۔ مجھے آپ بہت اچھی لگی ہیں۔“
ایک اور ویڈیو کے مطابق یہی محترم ایک ایسی یورپی خاتون کو ’ورغلا‘ رہے ہیں جو پاکستان کی شہریت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
دوسری طرف یہاں کے روزہ دار اہل ِایمان ہیں جو مسلسل بیگم فاروق کے ساتھ انکی ویڈیو واٹس ایپ کر رہے ہیں، فیس بُک پر پوسٹ کر رہے ہیں یاٹویٹ کر رہے ہیں۔
تیسر ی جانب پورنوگرافک میڈیا ہے جو یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس ویڈیو کے پیچھے اصل کہانی یہ ہے کہ چیئرمین نیب فیصل واوڈا اور علیمہ خان کے خلاف تحقیقات کرنے والے تھے۔ اس لئے یہ سب ہوا۔ نجم سیٹھی کی ایک ویڈیو ثبوت کے طور پر شیئر کی جا رہی ہے جس میں سکینڈل سامنے آنے سے پہلے ہونے والی اس گفتگو میں نجم سیٹھی اپنی چڑیا کے حوالے سے بتا رہے ہیں کہ عمران خان نے ڈپٹی چیئرمین اپنا آدمی لگا دیا ہے تا کہ جسٹس جاوید اقبال کو ہٹانے کے بعد اپنا آدمی اوپر آ سکے۔
ہر طرح کی سازشی تھیوریاں پیش کی جا رہی ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جس چینل نے سکینڈل کی خبر دی اس کا مالک عمران خان کا میڈیا ایڈوائزر ہے۔
ممکن ہے نجم سیٹھی کی چڑیا ٹھیک کہہ رہی ہو اور سازش کا عنصر موجود ہومگر یہ سب ”اندر کی خبریں“ اور بریکنگ نیوز اصل مسائل پر پردہ ڈال رہی ہیں۔
اصولی موقف ہونا چاہئے کہ نیب کا ایک اعلیٰ ترین عہدیدار بد ترین قسم کی جنسی ہراسانی کا مرتکب ہو چکا ہے۔ اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہئے۔ اس شخص کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے نہ کہ منصف کی مسند پر۔
دوسرا یہ کہ اس واقعے کو سازشوں سے جوڑنا یا نہ جوڑنا اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ اس واقعے نے پاکستانی اشرافیہ کی سیاسی، اخلاقی، سماجی اور معاشرتی زوال پذیری اور پستی کا دستاویزی ثبوت فراہم کیا ہے۔ آئندہ یہ پارسائی کا ڈھونگ رچائیں تو ان کو یہ ویڈیو دکھائی جائے۔
اس واقعے کی میڈیا کوریج یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کا منافع خور میڈیا صحافت نہیں سوشل پورنو گرافی کر رہا ہے۔
رمضان کے اس مہینے میں واٹس ایپ پر مسلسل موصول ہونے والی جسٹس جاوید اقبال کی ویڈیو اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پاکستان پورنوگرافی گوگل کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔