پاکستان

بی بی سی سبحان اللہ: ماہرنگ بلوچ کو بھی خراج عقیدت، حدیقہ کیانی کو بھی

فاروق سلہریا

بی بی سی نے امسال دنیا کی سو ایسی خواتین کی فہرست جاری کر دی ہے جنہیں سال کی با اثر ترین خوتین قرار دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بلوچ اور ترقی پسند دوست فخر کے ساتھ ماہرنگ بلوچ کی تصویر پوسٹ کر رہے ہیں۔وہ شانسٹ جنہیں ماہرنگ بلوچ پسند نہیں،وہ حدیقہ کیانی کے گن گا رہے ہیں۔

ان دونوں خواتین کو بی بی سی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ بی بی سی کا ان سو خواتین بارے یہ کہنا کہ انہوں نے تبدیلی کے لئے جدوجہد کی۔

اس میں شک نہیں کہ ماہرنگ بلوچ نے بہادری سے ریاست کے خلاف جدوجہد کا ایک سنہرا باب رقم کیا ہے۔ بلوچ معاشرے میں ایک عورت رہنما بن کر ابھرنا بھی قابل قدر ہے۔ ماہرنگ بلوچ کی اپنی قربانیاں یا مصیبتیں بھی کم نہیں۔

مصیبت تو یہ ہے کہ حدیقہ کیانی،جو ایک فوجی افسر کی بیٹی ہیں، نوجوانی میں ہی ایک سٹار بن گئیں… شدید رائٹ ونگ نظریات کی حامل ہیں۔ملک میں سٹیٹس کو کی زبر دست حامی ہیں۔ بظاہر سیاست میں حصہ نہیں لیتیں۔ گویا ’رد ِسیاست والی سیاست‘ (Politics of Anti-Politics) کی قائل ہیں۔ جو لوگ یاگروہ کہتے ہیں کہ ہم سیاسی نہیں،وہ بھی اتنے ہی سیاسی ہوتے ہیں جتنے باقی سیاست کرنے والے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ غیر سیاسی لوگ سٹیٹس کو کی سیاست کر رہے ہوتے ہیں مگر یہ بات تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔

حدیقہ کیانی کو اس فہرست میں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ انہوں نے دو سال قبل سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کام کیا۔ گویا خیراتی کام اور لا پتہ افراد کے لئے مزاحمت میں کوئی فرق نہیں (خیراتی کام کا مقصد ریاست کا ہاتھ بٹانا ہوتا ہے اور یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ نظام ٹھیک ہے،لوگ ٹھیک نہیں، اگر سب امیر لوگ حدیقہ کیانی جیسے ہوتے تو کوئی بے گھر نہ ہوتا)۔
کیا بی بی سی کو یہ فرق معلوم نہیں؟

اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ ہر سال ایک آدھ ماہرنگ بلوچ جیسی مزاحمتی آواز کو شامل کر لیتے ہیں تا کہ ان کی بے کار فہرست کی ساکھ بنی رہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جب میٹرک،ایف ایس سی یا سی ایس ایس کے نتائج آتے ہیں تو خبریں شائع ہوتی ہیں کہ غریب ریڑھی والے کے بچے نے ٹاپ کر لیا یا خاکروب کی بیٹی مقابلے کا امتحان پاس کر کے مجسٹریٹ بن گئی۔

یہ نہیں بتایا جاتا کہ سی ایس ایس کرنے والی اکثریت کا تعلق پچھلے اَسی سال سے کس طبقے سے تھا یا یہ کہ امیر لوگوں کے بچے اب میٹرک ایف ایس سی تو کرتے ہی نہیں۔ وہ تو اے لیول او لیول کرتے ہیں…مگر مندرجہ بالا خبریں شائع کر کے نظام کی ساکھ برقرار رکھی جاتی ہے۔

ماہرنگ بلوچ ہو یا علی وزیر… ان کو کسی بی بی سی کی  Validation نہیں چاہئے۔ حقیقی تبدیلی کے لئے،سامراجی اداروں کی جاری کردہ انعامی فہرستوں پر خوش یا نا خوش ہونے کی بجائے ان کی بے ایمانیاں بے نقاب کرنا زیادہ اہم ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔