صائمہ بتول
میڈیا سنسر شپ کا مطلب ہے میڈیا چینلز کے ذریعے پھیلائے جانے والے مواد پر کنٹرول کرنا خاص طور پر وہ مواد جو ملکی سلامتی ،عوام کے مفاد یا معاشرتی اخلاقیات و اقدار کے لیے خطرہ ہو۔سنسر شپ کے ذریعے حکومت یا دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے میڈیا کے مواد کو منظر عام پر آنے سے پہلے چیک اور کنٹرول کیا جاتا ہے تاکہ وہ مواد جو منفی یا خطرناک سمجھا جاتا ہو اسے روکا جا سکے۔
سنسر کیے جانے والے ذرائع ابلاغ میں نجی و سرکاری ٹی وی چینلز،اخبارات،اور ویب سائٹس وغیرہ شامل ہیں، لیکن اب یہ سلسلہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک ،ایکس (سابقہ ٹوئٹر)اور یوٹیوب پر بھی لاگو ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔یہ آرٹیکل لکھنے کے دوران ہی اطلاعات آ رہی ہیں کہ انٹرٹینمنٹ کے لیے بنائی گئی سوشل اپلیکیشن ٹک ٹاک پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت سزائیں دینے کا قانون موجود ہے۔پاکستان میں دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا اطلاق بھی ریاست اپنے مفاد کو دیکھ کر کرتی ہے۔ان صارفین کے خلاف بھی اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہوں یا ،سرکاری اداروں (فوج، عدلیہ، حکومت، سیکورٹی فورسسز) وغیرہ کے خلاف لکھ رہے ہوں یا ان اداروں کی طرف سے کیے جانے والے ریاستی جبر کی معلومات شئیر کر رہے ہوں۔
پاکستان میں صحافیوں پر بھی سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوتے ہیں۔بلوچستان کے صحافی ظفراللہ اچکزئی کو سیکیورٹی فورسسز کے خلاف متنازع مواد شئیر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔رواں سال 6 پاکستانی صحافیوں اور ایک یوٹیوبر کی ٹارگٹ کلنگ بھی ہوئی۔فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں صحافت سے وابستہ افراد کے خلاف 57 ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں دھمکیاں اور قانونی ہراسانی شامل ہے۔نومبر 2023 سے اگست 2024 کے درمیان 11 قتل کی کوششیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔جن میں 5 صحافیوں اور ایک ڈیجٹل میڈیا کا صحافی شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق سندھ میں 57 فیصد کیسسز ہوئے، جن میں تین قتل کے واقعات بھی شامل ہیں ۔اسلام آباد میں 21 کیسسز رپورٹ ہوئے، پختونخواہ میں 7 واقعات جن میں دو قبائلی صحافیوں کا قتل بھی شامل ہے۔ بلوچستان میں3.5 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے ۔ٹی وی کے صحافیوں کو ان واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑا، یہ واقعات 53 فیصد تھے۔ پرنٹ میڈیا کے واقعات 35 فیصد رہے۔ڈیجٹل صحافیوں کو 10 فیصد اور ریڈیو کے صحافیوں کو 2 فیصد مختلف قسم کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ان صحافیوں میں 9 فیصد خواتین صحافی بھی شامل ہیں۔دھمکی دینے والوں میں حکومتی ادارے ،سیاسی جماعتیں،مختلف شناختوں کے حامل عناصر شامل ہیں۔
نومبر 2024 میں یونیسکو کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے 85 فیصد واقعات میں قاتلوں کو سزا نہیں دی گئی۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق میں 2022 اور 2023 میں ہر چار دن بعد ایک صحافی کو محض اپنے فرائض سر انجام دینے پر قتل کیا گیا۔
پاکستان میں حالیہ احتجاج کے دوران مطیع اللہ جان ،ثاقب شبیر اور دیگر صحافیوں کو ماورائے قانون گرفتار کر کے حبس بے جا میں رکھا گیا۔
پاکستان میں میڈیا پر سینسر شپ کا قانون حکومتی اپوزیشن کی رپورٹنگ،عوامی احتجاجوں کی کوریج اور ریاست مخالف پارٹیوں کو اپنی خبروں کا حصہ بنانے پر بھی لاگو ہو جاتا ہے۔یہ قانون میڈیا کو خاص طور پر حکومتی اپوزیشن کی رپورٹنگ سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ حکومت کی پالیسیوں پہ تنقید اور فیصلوں کو چیلینج نہ کیا جا سکے۔
صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ سنسر کیے جان والے اخبارات اور چینلز کے پیچھے عمومی طور پر یہی وجوہات ہوتی ہیں کہ وہ حکومت مخالف یا ریاست مخالف بیانیے پہ مشتمل خبروں کو اپنے اخباروں میں جگہ دیتے ہیں۔
پاکستان میں پیمرا اور پی ٹی اے سنسر شپ کے ذمہ دار ادارے ہیں۔ان اداروں کی طرف سے لگائی جانے والی جبری پابندیوں کا شکار صحافی اور عام لوگ ہوتے ہیں۔
حکومت سنسر شپ کا قانون بنیادی انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے خلاف کرتی ہے،تاکہ وہ اپنی آواز عوام تک نہ پہنچا سکیں۔اس کے لیے اگر حکومت کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس بند کرنی پڑیں ،کیبل سے ٹی وی چینلز کو ہٹانا پڑے ،یا پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل کرنی پڑے، تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
سنسر شپ کے اطلاق کی بظاہر تو یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ ریاست مخالف بیانات سمیت ایسے تمام تر مواد کی تطہیر کی جائے یا فلٹر کیا جائے جومذہبی،لسانی،فرقہ وارانہ اشتعال کا باعث بنے، لیکن کیا حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے؟
پاکستان کے بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی اخباروں کے مالک اور خبروں سے متعلقہ ٹی وی چینلز سیلف سنسرشپ بھی خود پہ مسلط کر لیتے ہیں۔کسی بھی انسان کے لیے خود پر پابندی لگانا، اپنی سوچ کو مقید کرنا، اپنے نظریات کا پرچار نہ کر پانا بہر حال آسان نہیں ہوتا۔
ریاستی جبر کی وجہ سے میڈیا اداروں کے مالکان بھی اپنے آپ کو بچا کر رکھتے ہیں، اور صرف وہی رپورٹنگ کرتے ہیں جو ان کے لیے سیکیورٹی کے مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل پیدا نہ کرے۔پہلے پہل تو صحافیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں لیکن اب کام بند کروانے کی دھمکیاں ہی کافی ہوتی ہیں۔
سنسر شپ صحافیوں پر تو اثر انداز ہوتی ہی ہے لیکن اس کے اثرات عام لوگوں پر بھی پڑتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ افشاں معصب کا کہنا ہے کہ ’آپ اگر چھاتی یا بچہ دانی کے سرطان پر چند حروف لکھ لیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، کسی ریپ کیس یا گستاخی کارڈ کا شکار کسی مقتول کے بارے میں بولنے کا حوصلہ دکھا دیں،اور پھر لکھنے والا انسان خاتون ہو تو یہ دوہرا جرم بنا دیا جاتا ہے۔اس بے شرم ،بے حیا عورت کو اخلاقیات سے لے کر معاشرتی اصول تک پڑھانے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔کسی نے کہا تھا کہ بولتی ہوئی آزاد عورت مسائل کی جڑ سمجھی جاتی ہے۔‘
گزشتہ 13سال سے ریاست کی کنٹرولڈ میڈیا پالیسیوں کی وجہ سے تحقیقی صحافت کے ساتھ ساتھ مزاحمتی صحافت بھی دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں اٹھنے والی عوامی تحریکیں ہوں ،بلوچستان میں جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے اقدام ہوں ،سندھ میں توہین مذھب کے الزام میں قتل ہونے والے افراد ہوں، یا کم عمر ہندو بچیوں کی جبری مذہب تبدیلی، یا ریپ کیسز ہوں، ایسے تمام تر واقعات کی بازگشت مین سٹریم میڈیا پر کم ہی سنائی دیتی ہے۔
کارل مارکس نے کہا تھا ’صحافت اس اطلاع کا نام نہیں کہ فلاں انسان مر گیا ہے۔صحافت اس اعلان کا نام ہے کہ یہاں کوئی مرنے والا ہے۔‘
کارپوریٹ نیوز میڈیا کے ذریعے لوگوں کی سوچ کو، ان کی رائے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا جاتا ہے۔ آزادی اظہار رائے کا کھوکھلا نعرہ جمہوری قدروں کی پاسداری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔یہاں پر ہر اس تجزیہ نگار کو، ہر اس انسان کو اظہار رائے کی آزادی ہے جس کا تجزیہ عمومی رہے۔ جب بھی آپ گہرائی میں کسی مدعے کی وضاحت کریں گے تو آپ کی رائے سلب کر دی جائے گی۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ افشاں معصب نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ’کبھی ایک عام سوشل میڈیا صارف کی طرح میں بھی بہت چہکا کرتی تھی۔اور اپنے معاشرتی مشغلے کے تحت ہر بات یا خبر پر اظہار رائے کی آزادی سمجھتے ہوئے سوشل میڈیا پر بغیر لگی لپٹی بول دیا کرتی تھی، لیکن پھر ایک روز احساس ہوا کہ ہمارے بیشتر بدنما معاشرتی رویوں کے تضاد مذہبی منافرت،جنسی ہراسگی یا سرحد کے ہر جانب امن کی خواہش کرنے جیسے معاملات میں مناسب الفاظ کا چناو کر بھی لیا جائے تو بات بنتی نہیں ہے۔‘
سنسر شپ سرمایہ دارانہ ریاستوں کے لیے ایک طاقتور ہتھیار ہے جو انھیں اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبا کر معاشرے پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
حکمران طبقہ نصاب تعلیم کے ذریعے زرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو اپنی نفسیات کے مطابق ڈھالتا ہے، تاکہ بغاوت کی راہیں ہموار نہ ہو سکیں ۔تاہم اس سب میں میڈیا میں ٹی آر پی کی جنگ بھی جاری رہتی ہے۔
ڈاکٹر لال خان کہا کرتے تھےکہ ’ذرائع ابلاغ ( میڈیا ) کی جنگ ، سرمایہ دارانہ نظام کی اندرونی کمزوری اور کھوکھلے پن کا مظہر ہوتی ھے۔‘
یہ نظام سرمایہ داری کی بنیاد پر قائم ہے جہاں نجی شعبہ کی ملکیت میں سرمائے کا ارتکاز ہوتا ہے ،دیگر شعبوں کی طرح میڈیا کو بھی نجی ملکیت میں لیتے ہوئے منافع کمانے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔