تاریخ

آئی اے رحمن نصف صدی تک ہمارے اجتماعی ضمیر کے نگہبان بنے رہے

طارق رحمان

میں انہیں 1977ء میں پہلی بار ملا جب ضیا الحق کا اقتدار پر قبضہ ہو چکا تھا۔ وہ لاہور میں رہتے تھے اور ان کے دوست حسین نقی صاحب میرے ایک دوست کی والدہ کے ماڈل ٹاؤن والے گھر میں کرایہ دار تھے۔ میں اس وقت جلد ہی فوج سے، بطور کمیشنڈ افسر، استعفیٰ دینے والا تھا۔ میں ان دو سادہ اور حلیم طبع صحافیوں کے بارے میں بہت کم جانتا تھا جو بہت ہی منکسرالمزاج تھے۔ تاہم مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ نڈر بھی ہیں اور بہت پڑھے لکھے بھی۔ مجھے ان سے ہی معلوم ہوا کہ ضیا مارشل لا کے خلاف ایک تحریک پروان چڑھ رہی ہے۔ میں ان سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔

بہت بعد میں، جب میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گیا اور انگریزی اخبارات میں کالم لکھنا شروع کیا تو میں ان سے دوبارہ ملا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ منکسرالمزاج اور ایک اچھی حس لطافت رکھنے والا انسان آئی اے رحمان ہیں اور وہ دانشوروں کے لبرل اور لیفٹسٹ حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

پھر میری ان سے اور حسین نقی سے ”وئیو پوائنٹ“ کے صفحات پر ملاقات ہوئی، جسے مظہر علی خان لاہور سے شائع کرتے تھے۔ ان دنوں جنرل ضیا کی پالیسیوں سے اختلاف خطرناک تھا لیکن اس ہفت روزہ کے قلم کار ہر اس بات کے خلاف ڈٹ جاتے جسے وہ عوام مخالف سمجھتے تھے۔

میری آئی اے رحمن کے لئے عقیدت بڑھتی گئی مگر جب بھی میں اس کا اظہار کرنا چاہتا وہ مسکرا کر ٹال جاتے: ”ارے ڈاکٹر صاحب، یہ تو چھوٹی سی بات تھی،سو کہہ دی“۔

ہر چیز چاہے کتنی ہی سنگین ہو یا ممکنہ طور پر ان کیلئے خطرناک ہی کیوں نہ ہو، ان کے لئے چھوٹی سی بات تھی جس کا کبھی انہوں نے صلہ بھی طلب نہ کیا۔ ”وئیو پوائنٹ“ کے مدیر مظہر صاحب بھی ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ جب میں اسکاٹ لینڈ میں تھا، اچھے خاصے ڈاک خرچ کے باوجود ”وئیو پوائنٹ“ میرے پتے پر بدستور موصول ہوتا رہا حالانکہ اس وقت یہ ہفت روزہ دیوالیہ ہو چکا تھا اور ہم اس کے لئے مفت لکھا کرتے تھے۔ ”وئیو پوائنٹ“ سے وابستہ لوگوں کا یہی تو اعلیٰ اخلاقی معیار تھا۔

بعد میں، میں نے رحمن صاحب کا ’انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان‘ کے لئے ان کا کام دیکھا۔ یہ کمر توڑ اور اعصابی تناؤ والا کام تھا۔ لاہور میں ان کے چھوٹے سے آفس میں ان کا میز مختلف رپورٹس، اخبارات اور قانونی فیصلوں سے بھرا رہتا تھا جس کے باعث انہیں کہیں آنے جانے کا موقع نہ ملتا۔

کام کے اس انبار میں بھی وہ خوشدلی کے ساتھ صبح سے شام تک مسلسل کام پر جتے رہتے تاکہ سالانہ رپورٹیں مرتب کی جا سکیں جو ہمارے قومی ضمیر کا اب پیمانہ بن چکی ہیں۔ ان رپورٹس کو مرتب کرنا آسان نہیں ہے کیوں کہ اس سے ہمارے نظام حکومت اور طاقت ور لوگوں کی غلطیاں ریکارڈ ہوتی ہیں اور ان لوگوں کا جھوٹ عیاں ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ اس ملک میں کچھ بھی غلط نہیں ہو رہا۔ دیگر افراد جنہوں نے یہ غلطیاں بڑی جانفشانی سے مرتب کیں ان میں عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی اور متعدد صحافی شامل ہیں جنہوں نے تشدد اور موت کی دھمکیوں کے باوجود یہ سب کچھ رپورٹ کیا۔

رحمن صاحب جمہوریت نواز تحریکوں کی کلیدی شخصیت تھے اور انہوں نے تمام فوجی حکومتوں کی مخالفت کی۔ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں تھے جو پرویز مشرف کی متعارف کرائی گئی دلکش اور چکنی چپڑی جدیدیت کے بہکاوے میں آ گئے (مشرف دور میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ متعارف کرایا گیا)۔ اپنی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے مجھے مشرف کے دور اقتدار کی حقیقتوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ وہ باتین جو زیادہ تر لوگوں کو 2007ء میں جا کر معلوم ہوئیں، اُن پر 2003ء میں ہی عیاں تھیں۔

وہ یہ بھی جانتے تھے کہ فوج کی کون سی پالیسیاں بھارت کے ساتھ جنگ شروع کرنے کا ماحول بنا سکتی ہیں۔ خود نمائی سے اجتناب کی پوری کوشش کے باوجود انہیں سیمینارز میں لامحالہ صدارت کی ذمہ داری اٹھانا پڑتی اور کلیدی خطاب بھی کرنا پڑتا۔ میں بھی کبھی کبھار ان سیمیناروں میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا، وہ ہمیشہ میری تعریف کرتے اور مجھے کسی حد تک شرمندہ کر دیتے کیونکہ مجھے لگتا میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہوتا جسے اصل بات کا درجہ دیا جا سکے۔ ایک بار انہوں نے کہا: ”ڈاکٹر صاحب، مبارک ہو! بہادری کی باتیں کیں آج“۔

میں نے انہیں باور کرایا کہ میں ان کے پائے کے دانشوروں میں شامل نہیں اور جو کچھ میں نے کہا وہ تو مکمل طور پر انسانی حقوق کی رپورٹوں کے فراہم کردہ مواد پر مبنی تھا، لہٰذا آپ کا شکریہ کہ میں نے آپ کے مرتب کردہ مواد کو استعمال کیا۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ”رپورٹس اگر کتب خانوں میں دفن رہیں تو بیکار ہیں، آپ نے انہیں استعمال کیا، یہی چیز انہیں مفید بناتی ہے“۔ انہوں نے اس میں یہ مزید اضافہ نہ کیا کہ ان رپورٹس کو مرتب کرنے کے لئے انہوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ ایک بار جب میں نے اپنی کتاب ”پاکستان میں زبان اور سیاست“ (1996ء)Language and  Politics in Pakistan پر تبصرے کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا ”آپ کی کتابیں ہمارے اخباری مضامین اور تقاریر سے کہیں زیادہ لمبے عرصے تک زندہ رہیں گی“۔

میں نے ان کی صحافتی سرگرمیوں کے بارے میں ان کا انٹرویو کیا۔ دیگر کئی چیزوں کے علاوہ انہوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنے رفقائے کار عبداللہ ملک اور حمید اختر کے ہمراہ لاہور سے روزنامہ ”آزاد“ بھی نکالا تھا جو 12 ستمبر 1970ء سے 30 ستمبر 1971ء تک شائع ہوتا رہا، 35 ہزار سے زیادہ کی سرکولیشن کے باوجود اسے مالی مشکلات کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ روزنامہ ”آزاد“ نے مارچ 1971ء میں بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کو شائع کیا جو عینی شاہد مظہر علی خان کی بدولت انہیں معلوم ہوئے تھے۔

شمیم اشرف ملک کی اہلیہ نسیم ملک اور نیپ کارکن اور وکیل ظفر ملک کی خوشدامن بھی فوجی کارروائیاں دیکھ کر ڈھاکہ سے واپس آئیں تھیں۔ انہوں نے مارچ میں فوجی کارروائی کے خلاف بیان دیا جو روزنامہ”آزاد“ میں شائع ہوا لیکن مرکزی دھارے میں شامل کسی بھی اخبار نے اسے شائع نہ کیا اور نہ ہی زیادہ لوگوں نے اس پر دستخط کیے تھے۔

رحمن صاحب کا انسانی پہلو بھی اچھوتا تھا۔ میری اہلیہ حانا مجھے بتاتی ہیں کہ وہ الحمرا کمپلیکس میں کسی پروگرام کے دوران مجھے ڈھونڈ رہی تھیں کہ رحمن صاحب نے انہیں دیکھ لیا۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ اور  شرارت بھرے انداز میں انہوں نے کہا: ”آپ ڈاکٹر صاحب کو ڈھونڈھ رہیں ہیں؟ آپ ڈھونڈتی رہیں، وہ تو کھو گئے، ادھر اُدھر“۔

وہ حانا کو اپنے شگفتہ مزاح سے محظوظ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے اور یہ بھی باور کرا گئے کہ انہوں نے حاناکو یاد رکھا۔ حانا نے کہا کہ بڑے آدمی اپنی بہت زیادہ مصروفیت کے باعث ان لوگوں کو مشکل سے یاد رکھ پاتے ہیں جن سے وہ کبھی کبھار ملے ہوں۔ میں نے اس کی تائید کی ”واقعی عظیم انسان“ تھے…اور ساتھ ہی اتنے ہی عاجز بھی۔

رحمن صاحب نے اپنی عظمت کو بشری تقاضوں کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہونے دیا تھا۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک وہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے نگہبان اور ہمارے اجتماعی شعور کی آواز رہے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ استحصال زدہ لوگوں کیلئے جدوجہد ہو، محروم طبقات کے مفاد کیلئے تحریک ہو، یا کبھی کسی آہنی طاقت کا مقابلہ کرنا پڑا ہو اور آئی اے رحمن اس کا حصہ نہ ہوں۔ وہ ہمیشہ ایسے مواقع پر موجود ہوتے: پُرعزم، نمایاں ہوئے بغیر، شکایت کئے بنا، حتیٰ کہ غصے کے بغیر۔

2020ء اور 2021 ء نے ہمیں کچھ اور جواہرات سے بھی محروم کر دیا، جیسا کہ مسعود مفتی، طارق عزیز اور حسینہ معین۔

میں غالب کے اس شعر کے ساتھ اختتام کرتا ہوں:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے

Dr. Tariq Rehman
+ posts

ڈاکٹر طارق رحمن لسانیات کے تاریخ دان ہیں۔