حارث قدیر
ڈاکٹر ماروی سندھو کہتی ہیں کہ ’پانی زندگی ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو اور کارپوریٹ فارمنگ کے لیے سندھ دریا سے 6کینال نکالنے سے سندھ کے 7کروڑ عوام کا پانی بند ہو جائے گا۔ یہ ایک قوم کی نسل کشی کی بدترین سازش ہے۔ سندھ دریا کو عالمی سطح پر ’مرتا ہوا دریا‘ کہا جا رہا ہے۔ سندھ ڈیلٹا کو ’مرتا ہوا ڈیلٹا‘ کہا جا رہا ہے۔ پہلے ہی سندھ کے پانی پر اتنی کٹوتیاں لگائی جا چکی ہیں کہ گزشتہ چند سال میں سندھ کی12فیصد زرخیز زمین سمندر نگل چکا ہے۔ لوگ زمینیں چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ترقی پسند اور جمہوریت پسند قوتوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ سندھ دریا اس تہذیب کو زندگی دینے والا دریا ہے۔ آج اس خطے کا ہر شخص اس دریا کو جوابدہ ہے۔ سندھ دریا کو اور اس انسانی تہذیب اور ورثے کو بچانے کے لیے ہمیں حکمرانوں کے عزائم کو ناکام بنانا ہوگا۔‘
ڈاکٹر ماروی سندھو سدھیانی تحریک کی سیکرٹری جنرل ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے گائناکالوجسٹ ہیں اور زمانہ طالبعلمی سے ہی سدھیانی تحریک اور عوامی تحریک سے منسلک ہیں۔ آپ ’دریائے سندھ بچاؤ تحریک‘ کا بھی ہر اول حصہ ہیں۔ اس تحریک اور سندھ کے مسائل کے حوالے سے گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
کینال منصوبہ کیا ہے اور اس کی وجہ سے سندھ کو کیا نقصانات ہونے کا خدشہ ہے؟
ماروی سندھو: پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار کا عرصہ زیادہ رہا ہے اور جو سول حکومتیں بھی آئی ہیں وہ بھی غیر جمہوری قوتوں کی مرضی و منشاء کے مطابق ہی چلتی رہی ہیں۔ ان غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار سے وسائل تک سب کچھ چاہیے۔ اب انہیں زمین کا درد بھی جا گ رہا ہے۔ پاکستان میں خوراک کی قلت کا دکھ کھائے جا رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے سوچا کہ اب زراعت بھی یہی کریں گے۔ ہزاروں سالوں سے کسان یہ کام کرتے آئے ہیں، اب انہیں لگ رہا ہے کہ شاید انہوں نے ٹھیک طرح سے نہیں کیا۔ اس منصوبے کے لیے عام انتخابات سے قبل ہی راہ ہموار کی گئی تھی۔
پاکستان کے چاروں صوبوں کی زمینیں سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل(ایس آئی ایف سی) کے تحت مختلف غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹواور کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر یہ زمینیں اب غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کی تیاری ہے۔ تاہم یہ سب کرنے کے لیے جو مقصد ظاہر کیا جا رہا ہے،حقیقت میں مقصد وہ نہیں ہے۔ زمینیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی جائیں گی تو پھر ان سے ہونے والی پیداوار بھی ان کے مفادات کے لیے ہی ہوگی۔ خوراک کی قلت سمیت مزارعوں، چھوٹے کسانوں، ہاریوں اور زمینداروں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور زمینوں سے ہی محروم ہو جائے گی۔
ان زمینوں کو آباد کرنے کے لیے پانی چاہیے۔ 1991کے معاہدے کے تحت جتنا پانی سندھ کو ملنا چاہیے، وہ کئی دہائیوں سے نہیں مل رہا ہے۔ ہماری زمینیں خشک سالی کا شکار ہیں۔ پہلے بمپر فصلیں ہوا کرتی تھیں، اب وہ فصلیں نہیں ہوتیں۔ ہمارے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ جو اضلاع بمپر فصلیں دیتے تھے، وہ اب تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ کسان، چھوٹے زمیندار اور آبادکار کافی خوشحال ہوتے تھے، اب وہ بھوکوں مر رہے ہیں۔ وہ زمینیں بیچ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی گئی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے اب دریائے سندھ پر 6کینال نکالیں جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے ارسا ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔ اب ارسا کا چیئرمین وزیراعظم پاکستان منتخب کریں گے اور اس کی مدت چار سال تک ہوگی۔ اس دوران جتنے بھی غیر قانونی کام کروانے ہونگے کروائے جائیں گے۔
ان کینال کو تذویراتی کینال کا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے، جن میں تھل کینال، کچھی کینال، رین کینال، چولستان کینال، تھر کینال اور چشمہ رائٹ لنک کینال شامل ہیں۔ اس کے علاوہ زمینیں حاصل کرنے کے لیے بھی اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ بدین کے ساحلے علاقے کی ایک تحصیل کے 80دیہاتوں کو خالی کروایا جا رہا ہے۔ یہ زمینیں گرین پاکستان انیشی ایٹو کمپنی کو دی جائیں گی، جو آگے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو لیز پر دینگے۔
ہمارا معاشرہ زرعی معاشرہ ہے۔ سندھ کی معیشت میں سندھ دریا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کینال ایک ایک ڈیم کے برابر ہونگے۔ اس سے جو تباہی آئے گی، اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ پہلے ہی گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے مسلسل اس دریا کے قدرتی بہاؤ کو متاثر کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا پانی کاٹ کر ڈیم بنائے اور نہری نکالی جاتی رہی ہیں۔
یوں اس کے ناقابل تلافی، لامتناعی اور ناقابل بیان نقصانات ہوں گے۔ پورے پاکستان کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہاری، کسان اور مزارعین بری طرح متاثر ہونگے۔ آبادیاتی تبدیلیاں آئیں گے، ہجرتیں ہوں گی، لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر ہوکر صحرا بن جائیں گی۔ مجموعی طور پر پورا سندھ ہی صحرا بن جائے گا۔
زرخیز علاقے کو غیر آباد کر کے غیر آباد علاقوں کو آباد کرنے کی کوشش نسل کشی کے مترادف ہے۔ یہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس کے سماجی اور ثقافتی اثرات کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔
یہ درست ہے کہ سب سے زیادہ نقصانات سندھ میں ہونگے، لیکن صرف سندھ پر ہی اثرات نہیں ہونگے۔ یہ کمپنیاں جہاں جہاں جائیں گی، وہاں یہ نقصانات ہونگے۔ اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو حالات خراب ہونگے، تباہی ہوگی، بھوک ہوگی اور صورتحال اس نہج پر پہنچ جائے گی، جس کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا ہے۔ سندھ کے لوگ اس منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ اس منصوبے کو ہم پاکستان کو توڑنے کی سازش سمجھتے ہیں۔
سندھ ڈیلٹا کس حد تک کم ہوا ہے اور اس کے نقصانات کیا ہو رہے ہیں؟
ماروی سندھو:سندھی تہذیب میں صرف موجودہ صوبہ سندھ کا علاقہ شامل نہیں ہے، بلکہ دریائے سندھ کے ساتھ منسلک پانی کے نظام پر بننے والی پوری تہذیب کو سندھی تہذیب (انڈس تہذیب) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ بہت بڑی اور خوشحال تہذیب تھی۔ یہ ساری خوشحالی دریائے سندھ کی وجہ سے تھی۔ اس زرخیزی کی وجہ بھی انڈس ریور سسٹم ہی ہے۔ تاہم اب یہ دریا عالمی ریکارذ کے مطابق ’مرتا ہوا دریا‘(ڈائنگ ریور) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس دریا پر لگائی گئی کٹوتیوں، ڈیموں، بیراجوں،کینال اور پانی چوری کے بنائے گئے نظام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
انگریزیوں کے دور حکومت سے اب تک سندھ دریائی نظام پر 3بڑے ڈیم، 23بیراج، 12بین الدریاکینال اور 48دوسرے کینال تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں جا رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر وہاں 5ہزار کیوسک پانی جانا چاہیے، جو سالانہ 10لاکھ کیوسک بنتا ہے۔ یہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے ڈیلٹا مر رہا ہے۔ ڈیلٹا وہ مقام ہوتا ہے جہاں دریاؤں اور سمندر کے پانی کا ملاپ ہوتا ہے۔ ڈیلٹا کا ایکو سسٹم اور حیاتیاتی تنوع تقریباً برباد ہو چکا ہے۔
اس کی وجہ سے سمندر کی سطح ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر 96ایکڑ زرخیز زمین سمندر نگل رہا ہے۔ جتنی تیزی سے سمندر اوپر آرہا ہے، ایسا ہزاروں سالوں میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کی وجہ سے ڈیلٹا زندہ تھا، اس کی وجہ سے یہاں دنیا کے پانچویں بڑے مینگرووزکے جنگلات تھے۔ ان کی وجہ سے سیلاب کم ہوتے تھے، سمندر کی سطح نیچے رہتی تھی اور میٹھے پانے کے ساتھ آنے والی سلٹ کی وجہ سے آبی حیات پھلتی پھولتی تھیں اور ان کی ڈویلپمنٹ ہوتی تھی۔ مختلف قسم کے پرندے دنیا بھر سے آتے تھے۔ ایک پورا حیاتیاتی تنوع تھا۔ لاکھوں ماہی گیروں کی زندگی اس پر چلتی تھی۔
اب دریائے مچھلی بھی ختم ہو چکی ہے۔ حکومت سندھ کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے کل رقبے کا 12فیصد سمندر نگل چکا ہے۔ اس عمل کو کوسٹل فلڈنگ کا نام دیا گیا ہے۔ میٹھا پانی پہلے کھارے پانی کو پیچھے دھکیلتا تھا، تاہم اب اس کی کمی کی وجہ سے کھارا پانی آگے بڑھ رہا ہے اور زرخیز زمینوں کو بنجر بنا رہا ہے۔ سندھ کے تین اضلاع ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کی 33فیصدزمینیں سمندر نگل چکا ہے۔ سمندری سطح اتنی اوپر آچکی ہے کہ اب وہاں کوئی فصل نہیں ہوتی۔ لوگ زمینیں بیچ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس ہزاروں ایکڑ زمینیں تھی اور بمپر فصلیں ہوتی تھیں، وہ اب اپنے علاقے ہی چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اگر ضرورت کے مطابق پانی نہ چھوڑا گیا تو سمندر بہت کچھ نگل جائے گا۔ اتنے بڑے نقصانات کے باوجود حکمران چاہتے ہیں کہ سندھ دریا سے مزید 6کینال نکالیں اور جو کچھ پانی سیلاب کے عرصے میں ڈاؤن سٹریم میں جاتا ہے، اس کو بھی روک دیا جائے۔
سندھ دریا سے کینال نکالنے کے خلاف احتجاجی تحریک میں سندھ کے کون کون سے سیاسی رجحانات شریک ہیں؟
ماروی سندھو: یہ ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، بلکہ یوں کہیں کہ یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمارے وجود، ہماری تہذیب اور تمدن کا سوال ہے۔ اس پر پورا سندھ سراپا احتجاج ہے۔ جتنی بھی سندھ کی سیاسی اور سماجی تحریکیں ہیں، ترقی پسند اور جمہوری قوتیں ہیں، یہاں تک کہ مذہبی قوتیں بھی اس مسئلے کی سنجیدگی سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ سب ایک ہی رائے رکھتے ہیں کہ یہ کینال غیر قانونی ہیں، غیر آئینی ہیں اور یہ کسی صورت، کسی قیمت پر دریائے سندھ پر تعمیر نہیں ہونی چاہئیں۔ ہماری احتجاجی سرگرمیاں مسلسل چل رہی ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے زیر اہتمام بھوک ہڑتالیں، احتجاج، ریلیاں اور جلسے، جلوس وغیرہ منعقد کیے جا رہے ہیں۔
سندھیانی تحریک اور عوامی تحریک نے 17نومبر کو کراچی میں ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی اور جلسہ منعقد کیا۔ پورے سندھ میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاج ہو رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے علاوہ کوئی بھی ایسا مکتبہ فکر نہیں ہے جو ان کینال کی حمایت کرتا ہو۔
پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی گزشتہ دنوں اس منصوبے کے خلاف تقاریر کی ہیں۔ دوسری جانب پارٹی خود اقتدار میں بھی شراکت دار ہے۔ پیپلزپارٹی کے کردار کو کس طرح سے دیکھتی ہیں؟
ماروی سندھو:پیپلزپارٹی اس منصوبے کی حمایتی بھی ہے اور انہیں اقتدار ہی اسی کی بنیاد پر ملا ہے۔ یہ معاملہ الیکشن سے پہلے کا ہے۔ پیپلزپارٹی نے حامی بھری اسی وجہ سے ہی انہیں حکومت ملی ہے۔ اب حکومت ہی جب اس بنیاد پر ملی ہے تو اس بات کو وہ یقینی بنائیں گے کہ یہ منصوبہ جیسے بھی ہو پایہ تکمیل تک پہنچے۔ صدارتی محل سے یہ حکم نامہ بھی جاری ہو چکا ہے کہ ایس آئی ایف سی اور گرین پاکستان انیشی ایٹو کے منصوبوں کے لیے فوری فنڈز دیئے جائیں۔
سندھ میں جب احتجاج ہوا تو ان کے کٹھ پتلی وزراء نے بھی کچھ کینال کے خلاف بیانات دیئے ہیں۔ ایک طرف شرجیل میمن تقریریں کرتے ہیں کہ یہ بہت اچھا منصوبہ ہے۔ دوسری طرف نثار کھوڑو کہتے ہیں کہ یہ کینال نہیں بننے دیں گے۔ اب بلاول بھی کچھ بولنا شروع ہو چکے ہیں۔ اگر انہوں نے عوام کے ساتھ اور قوم کے ساتھ غداری نہیں کرنی تو اب بھی ان کے پاس موقع ہے۔ پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی سے قرارداد منظور کروائیں، صدارتی محل سے بھی احکامات جاری کیے جائیں کہ یہ تباہ کن منصوبہ ہے۔ یہ کٹھ پتلی ہیں، انہیں پتہ ہے کہ ان کی کرسی اسی وجہ سے بچی ہوئی ہے۔ پیپلزپارٹی اپنی پیدائش سے اب تک جتنی بھی حکومتوں میں رہی، اس کی پالیسیاں عوام دشمن ہی رہی ہیں۔ بینظیر بھٹو کے دور میں بھی کالا باغ ڈیم کا ایشو بنا تو انہوں نے فنڈز رکھے اور پھر جب احتجاج ہوا تو پھر وہ پیچھے ہٹ گئی تھیں۔ یہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ڈرامے رچاتے ہیں۔
حکومت کے ساتھ ابھی تک کوئی مذاکرات بھی ہوئے ہیں یا نہیں؟ حکومت کا اس حوالے سے موقف کیا ہے؟
ماروی سندھو:حکومت پیپلزپارٹیکی ہے،وڈیروں کی ہے۔ اوپر شریف برادران بیٹھے ہیں اور ان کے اوپر مزید طاقتور قوتیں بیٹھی ہیں۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ عوام کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کے مسائل حل کیے جائیں۔ اگر عوام کے مسائل حل کرنے ہوتے تو ان کو پیدا ہی کیوں کیا جاتا۔ انہوں نے کوئی مسئلہ حل نہیں کرنا، مسائل بڑھانے ہیں۔ جب عوام پریشانیوں میں مبتلا نہیں ہونگے تو ان سے سوال ہونگے۔ ان طاقتوں کا کوئی ایجنڈا عوام نہیں ہیں، بلکہ عوام ان کے لیے اہمیت ہی نہیں رکھتے۔
چھوٹے صوبے اگر وفاق اور بڑے صوبے کے کچھ لگتے تو اتنے بڑے تباہ کن منصوبے، جن پر عالمی سطح پر بھی اعتراضات ہیں،بنانے کے لیے ایک پل کے لیے بھی نہیں سوچتے تو یہ عوام کے لیے کتنا سوچتے ہونگے۔
اس تحریک کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہے۔ اگر یہ منصوبہ واپس نہیں لیا جاتا تو کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے؟
ماروی سندھو:عوامی تحریک اور سندھیانی تحریک ایک پرامن اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ہماری جدوجہد جمہوری اور پرامن بنیادوں پر ہی ہے۔ ہمارا فوری مقصد اس وقت یہ ہے کہ جتنے بھی کینال کے منصوبے ہیں ان کو رد اور باطل کیا جائے۔ ابھی ہم سندھ میں احتجاج کر رہے ہیں۔ 17نومبر کو کراچی میں بہت بڑا جلسہ اور ریلی منعقد ہوئی۔ سندھ کے دیگر ترقی پسند، جمہوری قوتوں اور دیگر تمام مکاتب فکر کی جدوجہد بھی جاری ہے۔
18جنوری کو اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کر رہے ہیں اور اس مسئلے کو قومی سطح پر اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کی جتنی بھی جمہوری اور ترقی پسند قوتیں، بائیں بازو کی تحریکیں اور گروپ ہیں،انہیں مدعو کیا جائے گااور انہیں اپنا موقف سنایا جائے گا۔ جب جمہوری قوتیں میدان میں آتی ہیں تو وہ اکیلی نہیں ہوتیں، ان کے ساتھ باقی جمہوری عوامل بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ہم یہی راستہ اپنائیں گے۔ہم پاکستان کی تمام جمہوری اور ترقی پسند قوتوں اور ہمارے موقف سے ملتا جلتا موقف رکھنے والے تمام گروپوں کو اس جدوجہد میں شامل کریں گے۔ہم اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر لے جانے کی کوشش کریں گے۔ ماحول، انسانی حقوق، پانی اور قدرتی ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں تک اس مسئلے کو لے جائیں گے۔ بھرپور کوشش کریں گے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر منظم کریں۔
سندھ دریا بچاؤ تحریک کے اہم مطالبات کیا کیا ہیں؟
ماروی سندھو:ہمارا مطالبہ ہے کہ ارسا ایکٹ میں کی گئی ترمیم واپس لی جائے۔ 6کینال کے منصوبے کو رد کیا جائے اور اس کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے منظوریاں لی جائیں۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت جو بھی زمینیں اب تک حاصل کی گئی ہیں، یا لی جانی ہیں وہ ساری زمینیں بے زمین ہاریوں، کسانوں اور مزارعین کو دی جائیں، کیونکہ ان زمینوں پر ان کا حق ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹو اور کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پاکستان کی48لاکھ ایکڑ زمین ہتھیانے کا جو منصوبہ بنایا گیا ہے اسے مکمل ختم کیا جائے۔ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں سالانہ جتنا پانی جانا چاہیے وہ فراہم کیا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر پانچ ہزار کیوسک پانی چھوڑا جائے۔
جتنی بھی غیر قانونی کینال نکالی گئی ہیں، جن میں تونسہ پچنند لنک کینال، چشمہ جہلم لنک کینال، گریٹر تھل کینال اور دیگر فلڈ کینال شامل ہیں، ان کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی نقصانات پہنچائے گئے ہیں ان کا تدارک کیا جائے۔ جتنی بھی سندھ دریا پر کٹوتیاں لگائی گئی ہیں، ان کا ازالہ کیا جائے۔
تحریک کے حوالے سے سندھ اور بالعموم پاکستان بھر کے عوام کو کوئی پیغام دینا چاہیں؟
ماروی سندھو:پانی زندگی ہے اور7کروڑ کی قوم کا پانی بند کرنا ان سے زندگی چھیننے کے مترادف ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک قوم کی نسل کشی کی سازش ہے۔ پوری دنیا میں اب بڑے ڈیموں کے منصوبے ناکام ہو چکے ہیں اور ترک کیے جا رہے ہیں۔ زراعت کے لیے نئے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ بڑے ڈیموں کے خلاف دنیا بھر میں تحریکیں چل رہی ہیں۔ ماحول کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ جتنے بھی لوگوں کے نقصانات ہوئے ہیں وہ اکٹھے ہو رہے ہیں اور ان منصوبوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے تحریکیں چلائی جا رہی ہیں۔ ہمارے حکمران اس کے برعکس ذاتی عزائم کی تکمیل کے لیے اس خطے کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔
اب سندھ کی نسل کشی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے بہت سارے اضلاع پانی سے محروم ہیں۔ اتنا پانی بھی نہیں ہے کہ مرنے والے لوگوں کو غسل دیا جا سکے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے تمام مکاتب سے تعلق رکھنے والے لوگوں، جمہوری اور ترقی پسند قوتوں کو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر اس سازش کا ناکام بنانا ہوگا۔ سندھ دریا کا پانی پینے والا ہر شخص اس دریا کو جوابدہ ہے۔ یہ دریا ایک وجود ہے ہم سب اس کو جوابدہ ہیں کہ ہم نے اس جارحیت کے خلاف جدوجہد کیوں نہیں کی۔
سندھیانی تحریک اور عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے ہم پاکستان کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شخص سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کو توڑنے والا بدترین منصوبہ ہے۔ یہ ایس آئی ایف سی پاکستان کو ختم کرنے والا ادارہ بنایا گیا ہے۔ ہم سب کو اس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونا چاہیے۔ جب تک یہ منصوبہ ختم نہیں کیا جاتا، ہمیں اس کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔