حارث قدیر
مقدس جرال کہتی ہیں کہ طلبہ یکجہتی مارچ کی وجہ سے ملک بھر کے طلبہ کو اپنے مسائل کے حل کیلئے امید اور راستہ میسر آرہا ہے، اب ملک کے کونے کونے سے طلبہ مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کے عمل میں شامل ہونے کیلئے ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔
وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پراگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) کی ترجمان ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو لاہور سمیت ملک کے دیگر 9 شہروں میں طلبہ یکجہتی مارچ کے انعقاد کی انتظامی اور آرگنائزنگ ٹیم کا حصہ رہی ہیں۔ گزشتہ روزنامہ ’جدوجہد‘ نے ان کا مختصر انٹرویو کیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
گزشتہ 4 سال سے ’طلبہ یکجہتی مارچ‘ منعقد کئے جا رہے ہیں، اس مرتبہ آپ کو مارچ کے انعقاد کے دوران کیا نئی بات نظر آئی؟
مقدس: اس سے پہلے ہمارے ساتھ ترقی پسند طلبہ اور ترقی پسند سیاسی کارکنان اور انسانی حقوق کارکنان ہی جڑتے تھے۔ اس مرتبہ بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو الگ نظریہ رکھتے تھے پھر بھی مارچ میں شامل ہوئے۔ جماعت اسلامی سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ مختلف انٹرویوز کے دوران جمعیت سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہمارے ساتھ نظریاتی اختلاف بھی رکھ رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ مسائل مشترکہ ہیں اس لئے وہ اس مارچ میں شریک ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ہماری کامیابی تھی۔ تمام طلبہ کے مسائل ایک ہیں، نظریاتی اختلاف کرنا حق ہے لیکن مسائل کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کی جانی چاہیے۔
قبل ازیں اسلامی جمعیت طلبہ نے مارچ میں شرکت کی دعوت کی اپیل بھی کی، مختلف مباحثوں میں بھی وہ کہتے رہے کہ جمعیت کو بھی شامل کیاجائے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس بار ایسا کیا ہوا کہ جمعیت کے لوگ بھی شامل ہو گئے؟
مقدس: جمعیت تعلیمی اداروں میں تشدد کو پروموٹ کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ مل کر جدوجہدنہیں کرتے، اس بار بھی ہم نے جمعیت کوکوئی دعوت نہیں دی تھی۔ انہوں نے تو ہمارے ایک ساتھی علی آفتاب پر پنجاب یونیورسٹی میں حملہ بھی کیا تھا۔ ان کی اسی تشدد کی پالیسی کی وجہ سے ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھتے۔ اس مرتبہ ان میں یہ تبدیلی نظر آئی ہے کہ انہوں نے یہ ماننا شروع کر دیا ہے کہ ہمارے مطالبات جائز ہیں۔ خواتین کے مسائل پر ان کے ساتھ صورتحال مختلف ہو جاتی ہے۔ وہ خواتین کے حقوق اور آزادی کی بات پر مذہب کو لے آتے ہیں۔ جمعیت کے لوگ اس مرتبہ خود مارچ میں شامل ہوئے ہیں۔ ہم کسی پر پابندی تو نہیں لگا سکتے کہ کون آئے اور کون نہ آئے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے مطالبات جائزہیں۔
جمعہ کے روز کتنے شہروں میں طلبہ یکجہتی مارچ منعقد کئے گئے؟
مقدس: مجموعی طور پر نو شہروں میں مارچ منعقد کئے گئے، جن میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، پشاور، ڈی آئی خان، پاکپتن، رحیم یار خان اور مردان شامل ہیں۔ تاہم خوش آئند بات یہ تھی کہ اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ بھی طلبہ کی زیادہ تعداد مارچ میں شریک ہوئی۔ ملتان میں طلبہ کو دھمکیاں بھی دی گئیں، طلبہ پریشان بھی تھے کہ ان کے خلاف شاید انتقامی کارروائیاں کی جائیں گی۔ مارچ بھی اچھے سے منظم ہو گیا اور کسی طرح کا کوئی دیگر مسئلہ بھی نہیں ہوا۔
2 سال پہلے جو 50 سے زائدشہروں میں مارچ کئے گئے تھے، پھر اس مرتبہ یہ تعداد کم کیسے ہو گئی؟
مقدس: جب زیادہ شہروں میں مارچ ہوا تھا اس وقت طلبہ تنظیموں کا الائنس بنایا گیا تھا لیکن اس الائنس میں کچھ مسائل آ گئے۔ کچھ ساتھی ہمارے ساتھ نہیں جڑ سکے۔ گزشتہ سال کورونا وائرس کی وجہ سے اس طرح مارچ نہیں ہو سکا تھا۔ ابھی بھی کورونا وائرس پاکستان میں مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، اس کے علاوہ سموگ کا مسئلہ بھی تھا جس کی وجہ سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہو سکے۔
کیا طلبہ یکجہتی مارچ کا ہر سال انعقاد ایک تہوار کی طرح نہیں بنتا جا رہا، یا آپ کے خیال میں مسائل کے حل کی طرف سفر آگے بڑھ رہا ہے؟
مقدس: انقلاب ایک دن کا پراسیس نہیں ہوتا۔ ملک کے کونے کونے سے اور دور دراز علاقوں سے لوگ ہمارے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں۔ رابطے کرنے والے لوگ تنظیم میں آنا چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ جدوجہد میں جڑنا چاہتے ہیں۔ یہ مارچ ایک ایونٹ نہیں بنتا جا رہا ہے بلکہ امید پیدا کر رہا ہے۔ پہلے مارچ کے انعقاد کے بعد ملکی سطح پر مطالبات زیر بحث آئے ہیں۔ اس مرتبہ بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں تعلیمی اداروں کے اندر فورسز کی موجودگی سے مطالبات کو مارچ کے مطالبات میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئٹہ سے لاپتہ ہونے والا کوئی طالب علم اتنی جلدی گھر واپس آیا ہے۔ اس سب میں بنیادی کردار تو بلوچستان یونیورسٹی اور بلوچستان کے دیگر طلبہ کا ہے جنہوں نے ان کی بازیابی کیلئے جدوجہد کی۔ ملک بھر کے مختلف حصوں سے ان مطالبات کو اٹھایاجانا بھی اہم تھا، ہم بھی یہ مطالبہ اٹھا رہے تھے۔ آہستہ آہستہ جب بات اٹھائی جاتی ہے تو مطالبات مانے جاتے ہیں۔
مارچ کے انعقاد سے قبل مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے بھی مارچ کے مطالبات کی حمایت کی، کیایہ لیڈرشپ مستقبل میں آپ کے مطالبات سے متعلق کوئی اقدامات اٹھا سکتی ہے؟
مقدس: ہمیں امید ہے کہ ہمارے مطالبات ایوانوں تک پہنچیں گے ہی نہیں بلکہ تسلیم بھی کئے جائیں گے۔ ہم صرف اپوزیشن کے لوگوں سے ہی نہیں ملے بلکہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران ترقی پسند رہنماؤں، صحافیوں، وکلاء اور دانشوروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ تمام لوگوں نے ہمارے مطالبات کو پڑھا اور ان سے اتفاق کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک ممبر پارلیمان نے کچھ اعتراضات بھی کئے تھے لیکن جب ان کے ساتھ کچھ بحث ہوئی تو انہوں نے نہ صرف مسائل کو تسلیم کیا بلکہ ہمارے مطالبات کو بھی درست تسلیم کیا۔ ہمیں بہترموقع ملا ہے کہ ہم ان لوگوں سے ملے ہیں جن سے ہمیں امیدیں تھیں۔ کچھ لوگوں کو ہمارے متعلق کچھ ابہام بھی تھے جنہیں ہم نے دور کیا ہے۔ اب ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دینگے۔ سب لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ طلبہ یونین بحال ہونی چاہیے، طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے ہی آج ملک میں جمہوریت کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔
مارچ میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی، طالبعلموں کو مارچ کے منتظمین کی طرف سے کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
مقدس: خواتین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی اور وہ اپنے مسائل کے لئے ہی نکلی تھیں۔ خواتین کو بہت مسائل سے گزر کر کیمپس تک پہنچنا پڑتا ہے۔ پدر شاہی معاشرے میں خواتین کو برابری کے مواقع نہیں فراہم کئے جاتے۔ اس صورتحال میں بھی جب خواتین کیمپس میں پہنچ جاتی ہیں تو ہراسانی سمیت دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ویمن ہاسٹلز میں میس کی فیس بڑھانے کے خلاف خواتین نے پہلی مرتبہ احتجاج کیا اور ان کے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کیا گیا۔ 2 دن کے احتجاج میں خواتین نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ خواتین کے ہاسٹل میں ہی کیوں فیسیں بڑھائی گئیں، حالانکہ مردوں کے ہاسٹل میں ایسا نہیں کیا گیا۔ طالبات کی اس کامیابی نے بھی طلبہ کو حوصلہ فراہم کیا کہ وہ مارچ میں شرکت کریں۔ طلبہ کو ایک امید نظر آئی ہے کہ وہ احتجاج کے ذریعے سے اپنے مسائل کو حل کروا سکتے ہیں۔ وہ بھی جب لڑکیاں مطالبات منوا سکتی ہیں تو سارے طلبہ اکٹھے ہو کر کیوں نہیں ایسا کر سکتے۔ جب تک ہمارے مسائل حل ہوتے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ طلبہ کو امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا ہو گا، ہم اگر اکٹھے ہوتے ہیں تو ایسا کسی صورت نہیں ہو سکتا کہ ہم مطالبات نہ منوا سکیں اور ہمارے مسائل حل نہ ہو سکیں۔