حارث قدیر
مرشد نظم سے شہرت پانے والے نوجوان سرائیکی شاعر افکار علوی کا ایک حلفیہ بیان سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ شاعر نے حلف دے دیا ہے کہ وہ آئندہ کوئی ایسا شعر نہیں لکھیں گے، جس میں قومی ادارے یا کسی مذہبی فرقے کی تضحیک ہو۔ انہوں نے حلف دیا کہ وہ پرامن شہری ہیں اور انہوں نے آج تک کوئی ایسا شعر نہیں لکھا جس سے کسی ادارے یا مذہبی فرقے کی تضحیک ہوتی ہو۔ ان کے اشعار کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔
بیان حلفی کے مطابق افکار علوی اپنی ماضی میں لکھی گئی نظموں سے دستبرداری اختیار کر چکے ہیں اور مستقبل میں ایسی کوئی شاعری نہیں کریں گے۔
یوں ایک نوجوان شاعر کو شہرت کی مقبولیت پر پہنچانے والی اپنی نظم کے شعر، ’مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے۔۔۔مرشد اسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی‘ اور ’اپناں کوں آپ تے نہ مار فوجیا‘ جیسی نظم سے بھی دستبردار ہونا پڑ رہا ہے۔
افکار علوی نے اپنی نظم میں شعر کہا تھا کہ ’مرشد میں لڑ نہیں سکا پر چیختا رہا، خاموش رہ کر ظلم کا حامی نہیں بنا‘
تاہم اب افکار علوی کی چیخ بھی مقید کر لی گئی ہے اور انہیں مجبور کر دیا گیا ہے کہ آئندہ وہ ظلم پر چیخنے سے انکار کا حلف نامہ عام کریں۔
افکار علوی اس ملک کے ہہ پہلے ایسے شاعر نہیں ہیں، بلکہ دنیا بھر میں بھی وہ پہلے ایسے شاعر نہیں ہیں، جنہیں اپنی شاعری سے ریاستی خوف اور جبر کے باعث دستبرداری اختیار کرنی پڑی ہو۔
پاکستان میں اس سے قبل مقبول ترین شاعر احمد فراز سمیت متعدد شعراء، ادباء، صحافیوں، دانشوروں، نثر نگاروں اور فنکاروں کو ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ریاستی جبر نے سیلف سنسر شپ یعنی اپنی سوچ و فکر پر پابندی لگانے اور سچ بولنے سے انکار کرنے کے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ حلف نامے دینے پر مجبور کیا۔
ایسے میں شاعر انقلاب حبیب جالب، فیض احمد فیض، افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سمیت متعدد ایسے کردار بھی رہے ہیں، جنہوں نے اس ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کئی صحافیوں نے آمریتوں کے سامنے جھکنے کی بجائے کوڑے کھانے اور عقوبت خانوں کے مظالم سہنے کو ترجیح دی۔ کئی سیاسی کارکنوں اور انقلابیوں نے عقوبت خانوں میں مر جانا بہتر جانا لیکن جھکنے سے انکار کیا۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں اظہار کی آزادی کبھی حاصل نہیں رہی ہے۔ سچ بولنا ہمیشہ جرم قرار دیا گیا ہے اور ریاست بارہا مظلوم و محکوم قوموں، محنت کشوں، نوجوانوں اور خواتین کو ہی فتح کرتی آئی ہے۔ قتل و غارت اور وحشت کا ایک ننگا ناچ اس خطے میں ریاستی سائے تلے دہائیوں سے جاری ہے۔
تاہم آج ایک بار پھر ماضی کی سنگین آمریتوں کی یادیں تازہ کی جا رہی ہیں۔ جب ظلم بڑھتا ہے تو بغاوت فرض ہوتی جاتی ہے۔ اس بڑھتے ظلم کے خلاف معاشرے کی ہراول پرتوں کو ہی سب سے پہلے انکار کا فرمان جاری کرنا ہوگا۔
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں