دنیا

شام: بشار الاسد کی آمریت کا خاتمہ، آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی

حارث قدیر

54سال اقتدار میں رہنے کے بعد شام میں اسد خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ بشارالاسد نے 8دسمبر کو ملک سے فرار ہو کر روس میں پناہ کی درخواست کی ہے۔ 13سال سے جاری خونریزی اور خانہ جنگی کا بظاہر اختتام 12دن کی لڑائی میں ہو گیا۔ بشار الاسد حکومت کی فوجیں بغیر لڑائی ہی میدان خالی کر کے بھاگ گئیں۔ شامی باغی گروہوں کے 5رکنی اتحاد نے 8دسمبر کو دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد محمد البشیر کو عبوری وزیراعظم بنا دیا ہے، جو یکم مارچ2025تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔

ایک پر امن احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی بشارالاسد حکومت کی کوشش نے اس خطے کو ایک بین الاقوامی خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا گیا۔ روس، امریکہ، ایران اور ترکی نے شام کو پراکسی لڑائیوں کے گڑھ میں تبدیل کر دیا۔

2011میں عوامی بغاوت کے آغاز پر شام کی آبادی تقریباً2کروڑ10لاکھ تھی۔ اس13سالہ تنازعے کے دوران 3لاکھ50ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے، 10لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور کم از کم 1کروڑ30لاکھ بے گھر ہوئے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق2024تک کم از کم 74لاکھ شامی شہری داخلی طور پر بے گھر ہوئے، 49لاکھ نے پڑوسی ملکوں میں پناہ حاصل کی، 13لاکھ نے یورپی ملکوں میں ہجرت کی۔ سب سے زیادہ رجسٹرڈ شامی مہاجرین ترکی، لبنان، اردن اور عراق میں موجود ہیں۔

خانہ جنگی میں ہونے والے اس قتل عام اور بے گھری کے ساتھ ساتھ بشار الاسد حکومت کی جانب سے مخالفین کو عقوبت خانوں میں قید کرنے، ٹارچر سیلوں میں ڈالنے اور پھانسیاں دینے کی بھی ایک اندوہناک تاریخ رقم کی گئی۔

ایک چھوٹے سے خطے میں 100سے زیادہ حراستی مراکز اور دو بدنام زمانہ جیلیں قائم تھیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت کی تحویل میں کم از کم 6786افراد ہلاک ہوئے۔ ہزاروں افراد کو پھانسیاں دی گئیں۔ اجتماعی پھانسی، اذیت دے کر موت کے گھاٹ اتارنا، خوراک، پانی اور ادویات سے محروم کر کے مرنے کے لیے چھوڑ دینے جیسے وحشیانہ اقدامات کیے گئے۔

مارچ2011سے اگست2024کے درمیان تقریباً1لاکھ57ہزار634شامی شہریوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں 5ہزار274بچے اور 10 ہزار 221 خواتین بھی شامل تھیں۔ تاہم باغیوں کے دمشق پر قبضے کے بعد جیلوں کو کھول دیا گیا۔ تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

2011میں عرب سپرنگ کے اثرات شام پر بھی پڑے تھے۔ پر امن احتجاج کو کچلنے کی حکومتی کوشش کے بعد مختلف سامراجی ملکوں کی شمولیت کے ساتھ شام ایک کثیر الجہتی خانہ جنگی میں الجھا ہوا ہے۔ روس اور ایران نے بشار الاسد کی حکومت کا دفاع کیا اور جنگی جرائم میں بھرپور ساتھ دیا، جبکہ دوسری طرف امریکہ اور ترکی نے دوسرے باغی گروپوں کی حمایت جاری رکھی۔ اس سامراجی کھیل میں دولت اسلامیہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی بنیادیں رکھنے اور پھر ان کے خلاف جنگ لڑنے کے نام پر خونریزی کی ایک بھیانک تاریخ رقم کی گئی۔ جس اپوزیشن اتحاد نے اسد حکومت کا خاتمہ کر کے دارالحکومت پر قبضہ کیا ہے، اس میں مرکزی کردار ’ہیئت تحریر الشام‘نامی جنگی گروہ کا ماضی میں تعلق دولت اسلامیہ اور القاعدہ سے رہا ہے۔ اس گروہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی کو بھی داعش کی بنیادیں رکھنے والے دیگر رہنماؤں کی طرح ہی امریکی قید سے رہائی ملی تھی۔ اس وجہ سے یہ قیاس آرائیاں بھی کی جاتی ہیں کہ داعش کی بنیادیں رکھنے سے لے کر ہیئت تحریر الشام کی بنیادیں رکھنے میں امریکی سامراج کا بنیادی کردار رہا ہے۔

دولت اسلامیہ نے 2014-15میں شام کے بہت سے شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کو شام پر حملہ آور ہونے کا جواز مہیا ہو گیا تھا۔ اس طویل ترین خون ریزی کا ابتدائی انجام 8دسمبر کو دمشق پر باغی گروہوں کے قبضے کی صورت برآمد ہوا ہے۔ تاہم شام میں پائیدار امن کا قیام اب بھی جلد ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔

شام کے دارالحکومت دمشق پر قبضے جمانے والے اپوزیشن اتحاد کی قیادت ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کر رہا ہے، جبکہ اس اتحاد میں دیگر 4جنگی گروہ بھی شامل ہیں۔ ’دی کنٹرول روم: ملٹری آپریشنز کمانڈ‘ کے نام سے قائم اس اتحاد میں ایچ ٹی ایس کے علاوہ احرارالشام موومنٹ، نیشنل فرنٹ فار لبریشن، جیش العزہ اور نورالدین الزنکی موومنٹ شامل ہیں۔

ایران اور روس کا کنٹرول کمزور ہونے کی صورت ان جنگی گروہو ں نے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اتحاد تشکیل دیا۔ تمام گروپوں نے ملٹری آپریشنز کمانڈ کے تحت لڑنے پر اتفاق کیا۔ یہ گزشتہ کئی برسوں سے کام کرنے والے فتح المبین آپریشنز کمانڈ سینٹر کا ازسرنو اتحاد ہے۔

بشار الاسد کی شامی حکومتی افواج اپنی تنصیبات چھوڑ کر فرار ہو چکی ہیں۔ تاہم اقتدار پر قبضہ کرنے والے اتحاد کے علاوہ بھی دیگر جنگی گروہ شام میں موجود ہیں۔ دیگر گروہوں میں کرد اکثریتی گروپ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز، ترکی کی حمایت یافتہ شامی باغی افواج بھی شامل ہیں، جن کے پاس بالترتیب کرد اکثریتی مشرقی شام کے کچھ حصوں اور شمالی شام کے کچھ حصوں کا کنٹرول موجود ہے۔

شام کے سوویت یونین اور پھر بعد ازاں روس سے دیرینہ تعلقات برقرار رہے ہیں۔ بشار الاسد حکومت نے روس کے ساتھ نہ صرف تعلقات مضبوط رکھے بلکہ روس کے فوجی اڈے بھی شام میں قائم رہے۔ اسی طرح ایران کے ساتھ بھی دہائیوں سے اسد حکومت کے تعلقات رہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اسد حکومت کے دفاع کے لیے طویل پراکسی جنگ بھی لڑی ہے۔ اس سامراجی کھلواڑ میں لیبیا، عراق اور شام میں تباہی اور بربادی کی ایک بھیانک تاریخ رقم کی گئی۔

شام میں بشارالاسد کی حکومت روس اور ایران کی حمایت سے اپنا آپ کافی حد تک دوبارہ مستحکم کرنے میں بظاہر کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ تاہم یوکرین جنگ میں روس کے الجھنے اور ایرانی حمایت یافتہ جنگجو گروپ حزب اللہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد اسے پہنچنے والے نقصان کے بعد بظاہر روس اور ایران نے بشار الاسد حکومت کو تنہا چھوڑ دیا۔ بیرونی حمایت بند ہونے کے بعد محض چند روز میں ہی باغی گروہوں نے بشارالاسد کی فوج کو پچھاڑ دیا۔ 12روز میں طاقت کا یہ علاقائی توازن مکمل طو رپر بگڑ چکا ہے۔

اس طویل ترین خونریزی میں جہاں لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں، وہاں شام کا انفراسٹرکچر اور معیشت بھی بری طرح تباہ ہو چکی ہے۔ شامی حکومتی فوجوں کی شکست کی ایک بڑی وجہ بھی کم تنخواہیں اور روسی امداد میں کمی کو قرار دیا جا رہا ہے۔بشار الاسد حکومت کے زوال کے بعد مشرق وسطیٰ میں سامراجی طاقتوں کا توازن بھی کافی حد تک تبدیل ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے گولان کی پہاڑیوں پر قبضے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ساتھ ہی شام کے اندر فوجی تنصیبات پر فضائی حملو ں کا سلسلہ بھی تیز کیا گیا ہے۔ ان حملوں کا بظاہر جواز کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے بتایا جا رہا ہے۔

روس کے واحد عرب اتحادی کے طورپر موجود شام اب مغربی سامراج کے قبضے میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ساتھ ہی ترکی کو بھی اس طویل شامی خانہ جنگی کے فاتح کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔ وہ اپنے دو حریفوں کی پوزیشن کمزور کرنے میں کامیاب رہا ہے اور اب ایک علاقائی راہداری پر اثرورسوخ قائم کرنے کے قابل ہے، جو شام کے راستے یورپ کو خلیج عرب سے جوڑتی ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے بھی الاسد حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغربی سامراج بھی اس جنگ میں اپنے آپ کو فاتح کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ یورپی ملک اس پیش رفت کو شامی باشندوں کی رضاکارانہ طو رپر وطن واپسی کے نتیجے میں مہاجرین کے بحران کو حل کرنے میں ایک مدد کے طورپر بھی دیکھتے ہیں۔

اسرائیل میں بہرحال اس معاملے پر ایک تذبذب نظر آتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کو خدشہ ہے کہ شام کی نئی سیاسی طاقت فلسطینیوں کے ساتھ زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ سٹریٹیجک ہتھیاروں اور مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو تباہ کرنے کے پیچھے بھی یہی مقاصد نظر آرہے ہیں کہ مستقبل میں یہ اسرائیل کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔

شام میں ایک آمریت کے جبر کا خاتمہ ضرور ہوا ہے لیکن ایک نئی سیاہ طاقت کے ذریعے اس آمریت کو توڑ اگیا ہے۔ نئی سخت گیر حکومت قائم ہونے کے خدشات کے ساتھ ساتھ ابھی اقتدار پر قابض ہونے والے اتحاد اور دیگر جنگی گروہوں کے مابین مزید تصادم اور خونریزی کے امکان بھی موجود ہیں۔ سامراجی طاقتوں کے توازن تبدیل ہونے کی وجہ سے بھی مکمل گرفت قائم ہونے تک اس خونریزی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ شامی باشندوں کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس بربادی اور تباہ کاری میں بہتری نہ تو سخت گیر فرقہ وارانہ حکومت کے قیام کے ذریعے آسکتی ہے، نہ ہی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جمہوری نظام کے قیام سے شام کو دوبارہ پہلے کی طرح آباد کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی زوال اور بحرانات کی جڑوں سے بننے والے یہ تنازعات کہیں اگر وقتی طور پر ٹھنڈے بھی پڑ جائیں تو جلد یا بدیر مزید خونریز کیفیت میں اپنا اظہار کرتے رہیں گے۔ عراق، لیبیا، افغانستان سمیت دیگر بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ان بربادیوں کا خاتمہ اس نظام اور سامراجی غلبے کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔