لاہور (جدوجہد رپورٹ) سری لنکا نے ریاستی اخراجات میں کمی کیلئے فوج کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آئندہ سال تک فوج میں کمی کر کے 1 لاکھ 35 ہزار تعداد کرنے اور 2030ء تک مجموعی تعداد 1 لاکھ تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت سری لنکا کی فوج 3 لاکھ 17 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق سری لنکا کے وزیر دفاع پریمیتھابنداراتھینکون نے ایک بیان میں کہا کہ ’فوجی اخراجات بنیادی طور پر ریاستی اخراجات ہیں، جو بالواسطہ طور پر قومی اور انسانی سلامتی کو یقینی بنا کر اقتصادی ترقی کیلئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور راستے کھولتے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’اس اقدام کا مقصد 2030ء تک تکنیکی اور حکمت عملی کے لحاظ سے صحیح اور متوازن دفاعی قوت بنانا ہے۔‘
کولمبو میں مقیم تھینک ٹینک ویریٹ ریسرچ کے مطابق سری لنکا کے کل اخراجات میں دفاعی شعبے کا حصہ 2021ء میں مجموعی جی ڈی پی کے 2.31 تک پہنچ گیا، لیکن گزشتہ سال یہ 2.03 تک گر گیا تھا۔
حال ہی میں صدر رانیل وکرماسنگھے نے ریاستی اخراجات میں 5 فیصد کمی کا حکم دیا تھا اور ان کی انتظامیہ نے اس ہفتے کے شروع میں متنبہ کیا تھا کہ خط غربت سے نیچے 1.8 ملین خاندانوں کیلئے فلاحی ادائیگیوں میں اس ماہ تاخیر ہو سکتی ہے۔
سری لنکا کو 2.9 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف قرض حاصل کرنے کیلئے پیشگی شرط کے طور پر قرض کی پائیداری حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف نے سری لنکا کو 1.5 ملین مضبوط عوامی ویلفیئر کو کم کرنے، ٹیکسوں میں تیزی سے اضافہ کرنے اور خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو فروخت کرنے کو بھی کہا ہے۔
چین اور بھارت جیسے اہم قرض دہندگان نے ابھی تک سری لنکا کو اپنے قرضوں سے متعلق معاملات پر اتفاق نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے سری لنکا کے قرضوں کی تنظیم نو کی کوششیں رک گئی ہیں۔
دو گنا ذاتی آمدنی اور کارپوریٹ ٹیکس نئے سال کے دن ریاستی محصولات کو بڑھانے کیلئے لاگو ہوئے۔ اگست میں 75 فیصد ٹیرف میں اضافے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں مزید 65 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
سری لنکا کے 22 ملین افراد نے گزشتہ سال کئی مہینوں کی خوراک اور ایندھن کی قلت، دائمی بلیک آؤٹ اور بدترین مہنگائی کو برداشت کیا، جس سے عوامی غم و غصے کو بھی ہوا ملی۔ رانیل وکرما سنگھے جولائی میں بحران کے عروج پر اسوقت اقتدار میں آئے جب ان کے پیش رو مظاہرین کی جانب سے رہائش گاہ پر دھاوا بولے جانے کے بعد فرار ہو چکے تھے۔