نقطہ نظر

فلم ’اوپن ہائمر‘ امریکی تاریخ کے کن گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے؟

ڈاکٹر خرم نیازی

بہت عرصے اشتہارات کی مدد سے تجسس اور سنسنی بھڑکانے کے بعد پچھلے جمعہ جب ہالی وڈ میں بنی فلم اوپن ہائمر انگلستان میں ریلیز ہوئی تو باوجود کوشش ہمیں ڈربی اور آس پاس کے شہروں میں ٹکٹ نہ مل سکا بالآخر پیر کی شام ناٹنگھم کے آئی میکس سینما میں دو نشستیں دستیاب ہو سکیں۔

پس منظر

یہ فلم رابرٹ اوپن ہائمر نامی نظری ماہر طبعیات کی زندگی پر بنائی گئی ہے، جو جرمن نژاد یہودی والدین کے گھر امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس نے امریکہ کی اولین یونیورسٹی ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کرنے جرمنی گیا۔ اس کے علاوہ وہ برطانیہ اور امریکہ کے کئی اعلی تعلیمی اداروں سے منسلک رہا۔ عملی طبعیات کے مقابلے میں نظری فزکس کے ماہرین مادّہ، مادّے کی سب سے چھوٹی اکائی ایٹم، ایٹم کے اندر موجود ننھے ذرات، ان کی حرکیات اور توانائی وغیرہ کی وضاحت کے لئے لیبارٹری میں تجربات کرنے کی بجائے ریاضی کے فارمولوں سے وضاحت کرتے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی نظری ماہر طبعیات تھے۔

ستمبر 1939ء میں ہٹلر کی قیادت میں جرمن فوجوں نے جب پولینڈ پر قبضہ کیا تو دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا۔ ابتدا میں امریکہ بظاہر غیر متعلق رہا، لیکن جب دسمبر 1941ء میں جرمنی کے اتحادی جاپان نے امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر فضائی حملہ کیا تو امریکہ کھل کر اور پوری طاقت سے عالمی جنگ کا حصہ بن گیا۔ کوانٹم فزکس کا بانی جرمن سائنسدان میکس پلینک کو کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میدان میں سب سے بڑا نام البرٹ آئن سٹائن کا ہے، جو خود بھی اوپن ہائمر کی طرح یہودی تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہٹلر یہودیوں کا قتل عام کرکے انہیں جرمنی سے نہ بھگاتا تو پہلا ایٹمی بم جرمن سائنسدان بناتے۔

امریکہ میں یہودی ہجرت

بالکل اسی طرح جیسے حالیہ برسوں میں برطانیہ اور یورپ سمندری راستے سے آنے والے پناہ گزینوں کے بحران سے دوچار ہیں اور انہیں روکنے کے لئے سخت ترین اقدامات کر رہے ہیں۔ کم و بیش یہی صورتحال ایک صدی قبل امریکہ کی تھی، جہاں یورپ سے مختلف الاقوام ستم رسیدہ افراد بالخصوص یہودی بحری جہازوں میں سوار ہوکر آ رہے تھے اور انہیں ساحل پر نہ اترنے دینے کی تدابیر کی جا رہی تھیں۔

مین ہیٹن پروجیکٹ

امریکہ میں پہلے جوہری ہتھیار کا خفیہ منصوبہ، جسے بعد ازاں مین ہیٹن پروجیکٹ کہا جانے لگا، کی باقاعدہ تشکیل تو 1942ء میں ہوئی لیکن اس کا سنگ بنیاد اسی وقت پڑ گیا تھا، جب دوسری جنگ عظیم چھڑنے سے ایک ماہ قبل اگست 1939ء میں ہی امریکہ میں مقیم جرمن نژاد یہودی سائنسدان لیو زی لارد، جو نیو کلیئر چین ری ایکشن کا بانی تھا، نے آئن سٹائن کے دستخطوں کے ساتھ امریکی صدر روزویلٹ کو ایک خط میں تجویز پیش کی تھی کہ ہٹلر کو سبقت حاصل کرنے کا موقع دئے بغیر امریکہ خود پہل کرے اور اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ایک مہلک ترین بم بنا ڈالے۔

پرل ہاربر پر حملے کے بعد امریکی فوجی تیاریوں کو مہمیز ملی اور مین ہیٹن پروجیکٹ شروع کیا گیا، جس پر اس زمانے میں کوئی دو ارب ڈالر خرچ کئے گئے، جبکہ سوا لاکھ تکنیکی عملہ ایٹمی بم کی تیاری میں شامل ہوا۔ منصوبے کے 10 قائدین میں سے کم از کم 8 یہودی النسل تھے۔

1945ء میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں اس ہولناک ہتھیار کے استعمال کے بعد اوپن ہائمر کو ایٹم بم کا خالق اور امریکی قومی ہیرو قرار دیا گیا، لیکن جب اس نے اپنی اس تخلیق پر پشیمانی کا اظہار کیا اور اسلحے کی مسابقت سے باز رہنے کی تنبیہ کی تو اسے غیر محب وطن اور ایجنٹ قرار دے کر اس کے خلاف سخت تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔

امریکہ میں کمیونسٹ خیالات کی مقبولیت

فلم انکشاف کرتی ہے کہ سو سال پہلے بائیں بازو کے نظریات امریکہ میں بہت مقبول تھے۔ اوپن ہائمر کھل کر مارکسزم سے متاثر ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے پیشوں کی طرح اساتذہ، دانشور، مفکر اور سائنسدان بھی انجمن سازی کریں۔ اوپن ہائمر کی ماہر حیاتیات بیوی کیتھرین، سٹینفورڈ میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل ماہر نفسیات گرل فرینڈ جین ٹیٹ لاک اور چھوٹا بھائی فرینک جو خود ایک سائنسدان تھا، یہ سب کے سب امریکی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان تھے۔

میکارتھی ازم اور امریکہ میں بائیں بازو کی صفائی

دوسری جنگ عظیم کے ملبے سے دو بڑی طاقتیں ابھر کر سامنے آئیں ایک امریکہ اور دوسری سوویت یونین۔ یہ دونوں نازیوں کے خلاف ہم صف رہ چکے تھے۔ 1947ء میں امریکی صدر ٹرومین نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس کی رو سے تمام سرکاری ملازمین میں کمیونسٹ اور دیگر ناپسندیدہ رحجانات کی چھان بین ضروری ٹھہری۔ 1949ء میں سوویت یونین نے بھی ایٹمی دھماکہ کردیا، جبکہ 1950ء کی کورین جنگ میں امریکہ، روس اور چین ایک دوسرے کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے۔ ایسے میں ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر میکارتھی نے دعویٰ کیا کہ کمیونسٹ پارٹی کے کارندوں سمیت مختلف شرپسند امریکی حکومت، فلم انڈسٹری، صحافت، جامعات اور ہر جگہ پھیل چکے ہیں،جو غیر ملکی ایجنٹ اور غیر محب وطن ہیں۔ امریکہ کو بچانے کے لئے ان عناصر کا قلع قمع کرنا لازمی ہے۔ اس تحریک کا نام میکارتھی ازم پڑ گیا، حالانکہ اس میں ایف بی آئی کے ایک ڈائرکٹر ایڈگر ہوور کی خدمات کہیں زیادہ اہم تھیں۔

امریکہ کی سرکاری ڈی کلاسیفائڈ دستاویزات کے مطابق ہوور نے مشتبہ افراد کی جان اجیرن کرنے کے ساتھ یونینوں اور سیاسی جماعتوں میں خفیہ اہلکاروں کو بھرتی کروایا۔ خفیہ اہلکار سائے کی طرح سیاستدانوں اور نمایاں شخصیات کے ساتھ لگے رہتے، ان کے فون بھی ٹیپ کئے جاتے۔ فلم دیکھتے ہوئے یاد آیا کہ عین اسی دور میں پاکستان میں راولپنڈی سازش کیس کا ہوا کھڑا کرکے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ فیض احمد فیض سمیت بہت سے ترقی پسند دانشوروں کو پس زنداں پھینک دیا گیا تھا۔

میکارتھی ازم کی اس جنونی مہم سے امریکہ میں آزادیئ فکر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ گلوکار جان لینن سے لے کر چارلی چیپلن اور آئن سٹائن تک صف اول کے سینکڑوں مفکر، صحافی، اداکار، ناشر اس کی زد میں آئے۔ اوپن ہائمر کے سیاسی ماضی اور نیوکلیر ہتھیاروں کے مزید استعمال کی مخالفت نے اسے بھی اس چکی میں پیس دیا۔ فلم میں اس پر چلنے والی انکوائری کی منظر کشی بہت عمدہ کی گئی ہے۔

بابائے ایٹمی بم کی خوب تذلیل کی گئی، اس کی وفاداری اور حب الوطنی کو مشکوک کہا گیااور اسے سکیورٹی رسک ٹھہرایا گیا۔

فلم کے مطابق اوپن ہائمر کے خلاف انکوائری کے پیچھے اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین لیوئس سٹراس کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا، جبکہ سائنسدان ایڈورڈ ٹیلر، جس نے بعد میں سوویت ایٹمی بم کے جواب میں امریکہ کو ایٹم بم سے زیادہ مہلک ہتھیار ہائیڈروجن بم بنا کر دیا، کا کردار بھی کافی منفی دکھایا گیا ہے۔ یادرہے کہ یہ دونوں حضرات بھی اوپن ہائمر کی طرح یہودی النسل تھے۔ ہم نے اپنی باشعور زندگی میں ریگن اور بش سے ٹرمپ اور جو بائیڈن تک جو امریکی حکمران دیکھے ہیں، وہ سب میکارتھی دور کی بہترین صفائی کی عکاسی کرتے ہیں۔

اوپن ہائمر اور ہندوستان

فلم میں ایک بے باک رومانوی منظر میں اوپن ہائمر اپنی گرل فرینڈ کے اصرار پر ایک سنسکرت کتاب سے کچھ پڑھ کر سناتا ہے۔ ”میں موت بن گیا…دنیاؤں کو تباہ کرنے والا“ یہ بھگوت گیتا میں ’بھگوان کرشنا‘ سے منسوب الفاظ ہیں، جنہیں سیکس سین کے دوران استعمال کرنے پر ہندو قوم پرست غصے سے کھول اٹھے ہیں۔ ہمیں یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ کچھ سنسکرت کتب ہزاروں سال سے جنسی معلومات کا خزانہ سمجھی جاتی ہیں۔ پھر یہ سوچ کر اپنے پچھلے خیال پر ندامت ہوئی کہ اگر فلم میں سنسکرت کی جگہ عربی کتاب دکھائی گئی ہوتی تو کیسا بھونچال آتا۔ ہندوستانی اخبارات یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اوپن ہائمر کی امریکہ میں تحقیر کے بعد ہندوستانی وزیر اعظم نہرو نے اسے بھارتی شہریت کی پیش کش کی تھی۔

فلم میں ایٹم بم کی ستائش کا پہلو

فلم کی کہانی اوپن ہائمر کی زندگی پر لکھی کتاب ’امریکن پرومیتھیوس دی ٹرائمف اینڈ ٹریجڈی آف اوپن ہائمر‘نامی کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ پرومیتھیوس یونانی دیومالا کا ایک کردار ہے، جو سب سے بڑے دیوتا ’زیوس‘کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آگ انسانوں کو دے آتا ہے۔ سزا کے طور پر اسے پہاڑ پر زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے، جہاں روز صبح ایک عقاب آ کر اس کے جگر کو نوچتا ہے اور رات میں یہ جگر دوبارہ سالم ہوجاتا ہے۔ تین گھنٹے کی فلم کے تقریباً ڈھائی گھنٹے ایٹمی بم بنانے کی ناگزیریت کا بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ صرف آخری آدھ گھنٹے میں ہیرو اپنی تہذیب کش تخلیق پر تھوڑی ندامت کا اظہار کرتا ہے۔ فلم میں ایٹمی بم سے متاثرہ انسان، حیات اور ماحول کی کوئی منظر کشی نہیں کی گئی۔

اس طویل سنجیدہ فلم کا باکس آفس پر متاثر کن استقبال ہوا۔ ہمارے ساتھ ہال میں بیٹھے خاموشی اور انہماک سے دیکھنے والوں کی اکثریت نوجوانوں اور یونیورسٹی کے طلبا پر مشتمل نظر آئی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts