لاہور(جدوجہد رپورٹ) کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلیوال کی تادم مرگ بھوک ہڑتال کے45روز مکمل ہو چکے ہیں۔ بھارتی کسانوں نے 10جنوری کو ملک بھر میں حکومت کے پتلے جلانے اور 13جنوری کو لوہڑی کے تہوار کے موقع پر حکومت کے قومی پالیسی فریم ورک کے مسودے کو جلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسان تنظیموں نے 26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی نکالنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کے درمیان کھنوری بارڈر پر تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے 70سالہ کسان رہنما کی صحت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے انتباہ جاری کر دیا ہے، لیکن وہ طبی امداد لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ وہ فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب کسانوں کی الگ الگ تنظیموں نے نئے سرے سے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
’آل انڈیا کسان مزدور مورچہ‘ اور ’سمیوکت کسان مورچہ‘ نے 10 جنوری کو ملک گیر سطح پر حکومت کا پتلا جلانے اور 13 جنوری کو سکھوں کے تہوار لوہڑی پر زرعی مارکیٹنگ کے سلسلے میں حکومت کے قومی پالیسی فریم ورک کے مسودے کو نذر آتش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دونوں تنظیموں کے رابطہ کار سورن سنگھ پنڈھیر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ 26 جنوری یعنی یوم جمہوریہ پر ملک گیر ٹریکٹر ریلی نکالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ مذکرہ دونوں تنظیموں کی جانب سے ہریانہ اور دہلی کے شمبھو بارڈر اور پنجاب اور ہریانہ کے کھنوری بارڈر پر گزشتہ سال 13 جنوری سے ہی دھرنا دیا جا رہا ہے۔ کسانوں نے گزشتہ سال 8 دسمبر کو شمبھو بارڈر سے دلی مارچ شروع کیا تھا جسے پولیس نے شیلنگ کرکے ناکام بنا دیا تھا۔ اس موقع پر کئی کسان ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
کسانوں کے مطالبات ہیں کیا؟
کسانوں کا اصل مطالبہ حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے تین زرعی قوانین کی واپسی اور ایم ایس پی کی گارنٹی تھا۔ دیگر کئی مطالبات اور تھے۔ کسانوں کا مؤقف تھا کہ یہ قوانین کسانوں کے مفادات کے خلاف ہیں اور یہ کہ انھیں غیر ملکی کمپنیوں اور کارپوریٹ کے دباؤ میں بنایا گیا ہے۔
حکومت نے احتجاج کے نتیجے میں تینوں زرعی قوانین واپس لے لیے تھے۔ جب کہ دیگر مطالبات کو منظور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس نے کسانوں کے مفاد میں یہ قوانین بنائے ہیں۔ اس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔
اس نے دباؤ میں قوانین بنانے کے الزام کی تردید کی تھی۔ اس کے بعد بھی اس نے کسانوں کے لیے کئی فلاحی پروگراموں کا اعلان کیا تھا۔
لیکن ڈاکٹر متل کہتے ہیں کہ حکومت کسانوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ وہ اس الزام کا اعادہ کرتے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیوں اور کارپوریٹ کے دباؤ میں قوانین وضع کیے گئے تھے اور دباؤ کی وجہ سے ہی اب وہ کسانوں کی بات نہیں سن رہی ہے۔
ان کے مطابق کسانوں کے مطالبات حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان 9 دسمبر 2021 کو ہونے والے تحریری سمجھوتے کے مطابق ہیں۔ اس سمجھوتے پر آگے کی کارروائی کرنے کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی بنائی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ان کے مطابق کسانوں کی الگ الگ تنظیمیں اپنے اپنے طور پر احتجاج کر رہی ہیں۔ ایک تنظیم نے بھوک ہڑتال شروع کی اور ایک دوسری نے دلی مارچ کا اعلان کیا۔ اب ایک تنظیم نے 26 جنوری کو ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ حکومت نے کسانوں کے خلاف جو طاقت کا استعمال کیا اس کے خلاف بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ کسان تنظیمیں الگ الگ مقامات پر جلسے کر رہی ہیں۔ ان کی تنظیم کی جانب سے منگل کو موگا کے مقام پر ایک بڑا جلسہ کیا گیا۔ اب ہم لوگ ہر ضلعے میں بھوک ہڑتال کرنے والے ہیں۔
جگجیت سنگھ ڈلیول ایک معروف کسان رہنما ہیں۔ قبل ازیں انھوں نے پنجاب میں زمینوں کو حکومت کی جانب سے تحویل میں لیے جانے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ انھوں نے 2018 میں دہلی کی طرف مارچ کرنے والے ایک ٹریکٹر قافلے کی قیادت کی تھی۔
ان کا مطالبہ تھا کہ 2004 میں حکومت کی کمیٹی نے کسانوں کے لیے جو سفارشیں کی تھیں ان پر عمل کیا جائے۔ اب وہ ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی اور دیگر مطالبات کے ساتھ 26 نومبر سے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر ہیں۔