پاکستان

فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ: سیلاب متاثرین کی بحالی کے کاموں میں سنگین خامیوں کا انکشاف

لاہور(جدوجہد رپورٹ)انسانی حقوق کے کارکنوں کے نیٹ ورک جنوبی ایشیا برائے انسانی حقوق(ایس اے ایچ آر) نے 6سے 10جنوری 2025تک صوبہ سندھ میں 2022کے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ سیلاب زدگان کے نقصان، تلافی اور بحالی کے عمل کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن کا انعقاد کیا۔

مشن میں ماحولیاتی حقوق کے وکیل اور ایس اے ایچ آر کے بیورو کے رکن احمد رفع عالم، جنوبی ایشیا پارٹنرشپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق ایس اے ایچ آر بیورو کے رکن محمد تحسین، پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری اور ایس اے ایچ آر کے دیرینہ رکن فاروق طارق اور ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان کی شہناز شیدی شامل تھے۔ مشن کے لیے سہولت کاری کا فریضہ ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان کی جانب سے کیا گیا۔

ایس اے ایچ آر نے سندھ کے اضلاع لاڑکانہ، شکارپور، نوابشاہ اور حیدرآباد کا دورہ کیا۔ مشن کا مقصد سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے عمل میں حکومتی کارکردگی کے اقدامات اور کوتاہیوں کا جائزہ لینا اور اس سلسلے میں ہونے والی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویز سازی کرنا تھا۔ مشن نے درج ذیل اہم معاملات پر تشویش کا اظہار کیا:

رہائش اور بنیادی ڈھانچے کی عدم کفایت

ابتدائی تحقیقات صوبائی حکومت کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے دنیا کے سب سے بڑے ہاؤسنگ پراجیکٹس میں سے ایک شروع کرنے کے دعوؤں کی تردید کرتی ہیں۔ مشن کو تشویش ہے کہ تجویز کردہ ایک کمرے کا سیلاب مزاحم مکان کا ماڈل، جس میں باورچی خانہ اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت بھی موجود نہیں ہے، گھر کے طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ مزید برآن مشن کا خیال ہے کہ اس ایک کمرے کے گھر کی تعمیر کے لیے ابتدائی طور پر فراہم کی گئی تین لاکھ روپے کی رقم اس وقت بھی ناکافی تھی اور موجودہ افراط زر کی شرح کے ساتھ یہ رقم غیر معقول حد تک کم ہو گئی ہے۔ مشن کے مشاہدے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ متاثرہ کمیونٹیز کو جامع نقصان و تلافی اور بنیادی حقوق و استحقاق جیسے صاف پینے کے پانی، غذائیت سے بھرپور خوراک، بجلی، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال سے محروم رکھا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور ریاستی ذمہ داری

مشن کی رائے ہے کہ ایک کمرے کے گھر کسی طور پر موسمیاتی آفات کے خلاف مزاحم نہیں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آفات کی پیش گوئیوں کے مطابق مستقبل میں اس کمزور آبادی پر مزید شدید قدرتی آفات کا اثر پڑے گا اور یہ بعید از قیاس ہے کہ یہ ڈھانچے کسی اور شدید بارش کو برداشت کر سکیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو پناہ، خوراک، تعلیم، صحت اور صاف ماحول فراہم کرے۔ ان کمزور آبادیوں کے یہ بنیادی حقوق پامال کیے گئے ہیں اور انہیں غیر انسانی اور غیر وقار آمیز حالات میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

مشن نے دریافت کیا کہ موزوں گھروں کی ڈیزائننگ اور حقیقی متاثرہ کمیونٹیز میں گھروں کی تقسیم کے عمل میں بہت کم مشاورت کی گئی ہے۔ سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے عمل کو معمول کی سرکاری سروس کے طور پر لینے کے حکومتی رویے نے فنڈز کی بروقت تقسیم کے حوالے سے فوری ضرورت کے احساس کو کم کردیا ہے۔

صحت و صفائی کا بحران

مشن کے دورہ کردہ گاؤں میں مناسب نکاسی آب یا صفائی کا نظام موجود نہیں تھا۔ لوگوں نے اپنے احاطوں میں فضلہ اور کچرا تلف کرنے کے لیے زمین میں گڑھے کھود رکھے ہیں۔ ان غیر صحت مند حالات کی وجہ سے کمیونٹی میں ڈائریا، ملیریا اور جلدی امراض پھیل گئے ہیں۔

کیس اسٹڈی: گاؤں ڈھنڈ

لاڑکانہ ضلع میں موئن جو داڑو کے قریب واقع گاؤں ڈھند میں 40گھر مکمل تباہ ہوئے اور اب تک صرف چار گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔ مشن کو بتایا گیا کہ لوگوں کو حکومت کی جانب سے تیار کردہ مستفیدین کی فہرست میں اپنے نام تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کچھ خاندان اب بھی خیموں میں اور کچھ پڑوسیوں کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ سیلاب کے بعد از خود گھر بنانے والے خاندانوں کو حکومتی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ اوسطاً 6افراد پر مشتمل خاندان کے لیے ان ایک کمرے والے گھروں میں رہنا ناممکن ہے، خاص کر جب خاندان کے کچھ افراد شادی شدہ ہوں۔

صحت کی دیکھ بھال تک رسائی اور متعلقہ مسائل

مشن نے پایا کہ خواتین اور بچے سیلاب کے بعد کے اثرات کا غیر متناسب بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔ وہ شدید غذائی قلت کا کار ہیں اور تباہ شدہ سڑک نیٹ ورک کی وجہ سے مناسب صحت کی دیکھ بھال تک رسائی محدود ہے۔ مشن نے دیکھا کہ بچے ننگے پاؤں اور بنیادی سامان کے بغیر سکول جا رہے ہیں، جبکہ بہت سی لڑکیوں کو سکول چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ سیلاب نے سڑکوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا، جس سے آبادی کے لیے ہسپتالوں تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔ متاثرین کی ذہنی صحت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اور کچھ گاؤں میں لوگ مشکلات کی وجہ سے ذہنی طو رپر بیمار ہو گئے ہیں۔

زرعی اور معاشی اثرات

سیلاب روزی روٹی کے ذرائع بھی بہا لے گیا ہے۔ کچھ لوگ تھوڑی مقدار میں زمین کے مالک تھے اور دیگر وڈیروں کی زمینوں پر کام کرتے تھے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے زمین پر فصلیں اگانا مشکل بنا دیا ہے اور فصلوں کی پیداوار نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ شکار پور اور نوابشاہ کے اضلاع میں زمینیں سیم و تھور کے مسائل کا شکار ہیں۔ پہلے دی جانے والی حکومتی سبسٹیز افراط زر کی وجہ سے آج ناکافی ہیں اور لوگوں کو اپنے خاندانوں کو کھانا کھلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی

سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی تقریباً غیر موجود ہے۔ انہیں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے بارے میں بنیادی تصور بھی نہیں ہے۔ متاثرہ لوگوں کا خیال ہے کہ آفات مذہبی نقطہ نظر سے ان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے آئی ہیں۔

نظامی ناکامیاں

سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے عمل کی باقاعدہ نگرانی اور جائزے کو یقینی بنانے والے جامع فریم ورک کی عدم موجودگی نے بحالی میں غیر ضروری تاخیر اور تعمیر نو میں سست پیش رفت کی راہ ہموار کی ہے۔ سیاسی اور دیگر وجوہات نے سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی میں تیزی لانے کے لیے عوامی آواز کو منتشر کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ متاثرہ کمیونٹیز کے لیے جامع یکجا ترقیاتی عمل کی وکالت کرنے والے مقامی کارکنوں اور تنظیموں کی سفارشات کو متعلقہ حکومتی حکام نے نظر انداز کر دیا۔

موسمیاتی فنانس اور معاشی بوجھ

مشن نے نوٹ کیا کہ اگرچہ پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے، لیکن جو بوجھ یہ برداشت کر رہا ہے وہ ناقابل جواز ہے اور موسمیاتی فنانس کا طریقہ کار مسائل پیدا کر رہا ہے۔ سندھ کو عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے تقریباً 2ارب امریکی ڈالر موصول ہوئے ہیں۔ یہ رقم زیادہ تر قرض کی مد میں ہے، جو سود کے ساتھ واپس کرنا ہوگی۔ اس رقم کی ادائیگی غریب پاکستانیوں سے ناجائز ٹیکسوں کے ذریعے وصول کی جائے گی اور ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ پہلے ہی پاکستان میں بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے۔

40ارب ڈالر کا سیلابی بل، امداد کی کوئی امید نہیں

سندھ میں تباہ کن سیلابCOP27میں قائم کردہ Loss and Damages Fundکی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، جبکہ خطہ عالمی اخراج میں کم سے کم حصہ ڈالتا ہے۔ یہ غیر متناسب موسمیاتی اثرات برداشت کرتا ہے۔ 2022کے سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 40ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ موجودہ مالیاتی ماڈل، جو ورلڈ بینک جیسے اداروں سے قرض پر انحصار کرتا ہے، متاثرہ کمیونٹیز کی بحالی کے لیے اضافی قرض کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ معاشی کمزوری کا ایک چکر پیدا کرتا ہے، جیسا کہ سندھ میں دیکھا گیا ہے کہ جہاں سیلاب متاثرین کو بڑھے ہوئے ٹیکسوں کے ذریعے سود کے ساتھ قرضے واپس کرنا پڑ رہے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ پہلے ہی غربت اور افراط زر سے جدوجہد کر رہے ہیں۔

Loss and Damages Fundسندھ جیسی کمیونٹیز کے لیے زیادہ منصفانہ مالیاتی طریقہ کار فراہم کر سکتا ہے، جو قرض کا بوجھ بڑھائے بغیر براہ راست مدد فراہم کرے گا۔ تاہم ترقی یافتہ ملکوں کی محدود شراکت اور غیر واضح تقسیم کے طریقہ کار کے ساتھ فنڈ کی موجودہ صورتحال کا مطلب ہے کہ سندھ جیسے خطوں کے لیے فوری امداد ناکافی رہے گی۔ موسمیاتی انصاف کے اصولوں اور عملی نفاذ کے درمیان یہ خلا کمزور کمیونٹیز کو موسمیاتی آفات کے جسمانی اور مالی نقصانات کا بوجھ برداشت کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

مشن کی ان دریافتوں اور مخصوص سفارشات پر مشتمل رپورٹ آنے والے ہفتوں میں جاری کی جائے گی۔

ابتدائی سفارشات

گھروں کے ڈیزائن کا جائزہ لیا جائے اور بیت الخلاء، صفائی کے نظام اور باورچی خانوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
موجودہ تعمیراتی اخراجات کی روشنی میں گھروں کی تعمیر کے لیے ادا کیے گئے معاوضے کی رقم کا جائزہ لیا جائے۔
متاثرہ لوگوں کے نئے سروے کیے جائیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا حقیقی متاثرین کو زیر غور لانے سے چھوڑ دیا گیا ہے یا نہیں۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے لیے زیادہ تر ذمہ دار گلوبل نارتھ ممالک کو موسمیاتی مالیات اور نقصان و تلافی کی فنڈنگ فراہم کرنے کے اپنے وعدوں پر عہدوں کو پورا کیا جانا چاہیے۔ ایسی مالیات اور فنڈنگ قرضوں کی شکل میں نہیں ہونی چاہیے۔
نقصان و تلافی کی سہولیات میں مضبوط تصدیق اور جائزے کے عمل ہونے چاہئیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ فنڈنگ موسمیاتی بحران سے متاثرہ لوگوں اور کمیونٹیز تک پہنچے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔