پاکستان

آئی ایم ایف کی پالیسیاں اور کم ہوتا ترقیاتی بجٹ

حارث قدیر

پاکستان کی وفاقی حکومت رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں پبلک سروس ڈویلپمنٹ پروگرام کا محض10فیصد ہی خرچ کر پائی ہے۔ محصولات میں نمایاں کمی اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر مبنی پالیسیوں کے نفاذ کی وجہ فنڈز کے اجرا پر حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔

’ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کی جانب سے جاری پہلی ششماہی کے اعداد و شمار کے مطابق پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام(پی ایس ڈی پی) کے کل اخراجات تقریباً148ارب روپے رہے، جو 1400ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کا 10.5فیصد بنتے ہیں۔ اسی عرصے کے دوران ملک کو ہدف کے مقابلے میں 386ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ پی ایس ڈی پی بجٹ کا استعمال گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بھی نمایاں طور پر کم ہے۔

نگران حکومت میں مالیاتی کنٹرول منتخب حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ سخت ہونے کے باوجود پی ایس ڈی پی کے اخراجات150ارب روپے تھے، جو سالانہ مختص کردہ بجٹ 940ارب روپے کا 16فیصد بنتا ہے۔

آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ریاستی ڈھانچے کی بوسیدگی بھی بہت سے مسائل کی وجہ ہے۔ وزارتوں اور محکموں میں ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کروانے کی اہلیت اور صلاحیت بھی اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں ہے، جسے عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکا ہو۔ ایک چھوٹا سا منصوبہ منظورکرنا، کسی زیر تعمیر منصوبے کے لیے فنڈز کا اجراء، مانیٹرنگ وغیرہ کا نظام اس قدر سست اور تھکا دینے والا ہے کہ معمولی سے ترقیاتی فنڈز کو بھی مالی سال کے دوران خرچ کرنے کی حکمت عملی نہیں بنائی جا سکتی۔

وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کے ہی اعداد و شمار کے مطابق 36وفاقی وزارتیں، ڈویژن اور ان کے ذیلی ادارے 6ماہ میں صرف124ارب50کروڑ روپے خرچ کر سکے، جو ان کے لیے مختص کردہ 843ارب روپے کا 14.7فیصد ہے۔ پلاننگ کمیشن کا بھی دعویٰ ہے کہ پہلی ششماہی میں وفاقی وزارتوں کو 286ارب60کروڑ روپے دینے کی منظوری دی گئی، جو سالانہ ہدف کا تقریباً34فیصد ہے۔ تاہم اس رقم میں سے محض124ارب50کروڑ روپے ہی منصوبوں پر خرچ کیے جا سکے۔

آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے تحت بجٹ کٹوتیوں کے باعث نئے ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہی منظور کیے جا رہے ہیں۔ پہلے سے موجود سڑکوں کی تعمیر نو و بحالی پر ہی زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ سیلاب کے دوران تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھی ابھی تک اقدامات نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی نے پہلے 6ماہ میں 23ارب60کروڑ روپے خرچ کیے، جبکہ ان دونوں کے لیے مشترکہ طور پر 255ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ توانائی کے شعبے نے مختص بجٹ کا تقریباً 4فیصد استعمال کیا۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان سب سے متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ حکومت نے عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں سمیت دیگر عالمی فورمز پر پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے ازالے کے لیے فنڈز مختص کرنے کی بار بار اپیل کی ہے۔ تاہم اگر سرکاری اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ حکومت محض پوائنٹ سکورنگ اور فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کو ایک کارڈ کے طورپر ہی استعمال کرتی آئی ہے۔ حقیقی بنیادوں پر حکومت نے اس مقصد کے لیے نہ ہونے کے برابر اقدامات ہی کیے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے قائم وزارت نے 6ماہ میں صرف11کروڑ30لاکھ روپے خرچ کیے ہیں، جو اس کے لیے مختص رقم5ارب25کروڑ کا محض 2فیصد بنتا ہے۔ خوراک کے تحفظ کی وزارت بھی 2.5فیصد بجٹ ہی خرچ کر پائی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع کے لیے مشترکہ طور پر257ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ تاہم پہلے 6ماہ میں ان خطوں کی حکومتوں اور متعلقہ حکام نے مشترکہ طور پر 46ارب روپے ہی خرچ کیے ہیں۔

آبی وسائل ڈویژن مختص170ارب میں سے محض32ارب خرچ کر پائی، ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے مختص61ارب روپے کے مقابلے میں 9.6ارب روپے خرچ کیے، کابینہ ڈویژن نے مختص51ارب میں سے 68لاکھ روپے خرچ کیے۔ وزارت تجارت، مواصلات، ہاؤسنگ اینڈ ورکس، انسداد منشیات، مذہبی امور اور اسٹریٹیجک پلاننگ رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں ترقیاتی بجٹ کا ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کر پائی ہیں۔

پی ایس ڈی پی کے اخراجات میں کمی کی وجہ سے پہلے سے بوسیدہ حال انفراسٹرکچر مزید اذیت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ معیشت کا کوئی بھی شعبہ اس وقت چل نہیں رہا ہے۔ ترقیاتی پروگرام کے بجٹ کے استعمال سے معاشی سرگرمی ہوتی ہے اور معیشت کا پہیہ کسی حد تک چلتا ہے۔ معیشت کے ثمرات بھی کسی حد تک نچلی سطح پر منتقل ہوتے ہیں۔ تاہم ترقیاتی پروگرام پر لگنے والی ان غیر اعلانیہ کٹوتیوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اس نظام میں اصلاحات کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ ایک شعبے کو درست کرنے کی حکمرانوں کی کوشش، دیگر کوئی شعبوں کے بحرانات کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر منتقل کرنے کی حکمرانوں اور سامراجی اداروں کی پالیسیاں معاشی سکڑاؤ کا باعث بن رہی ہیں۔مسند اقتدار پر بیٹھے حکمران جس طبقے کے نمائندے ہیں، اسی طبقے کے مفادات کے لیے ہی پالیسیاں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ محنت کش طبقے کے پاس اپنے حق میں پالیسیاں بنانے کے لیے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔