حاتم خان
جدلیاتی بنیادوں پر حالات کا تجزیہ کرنا ہی نظریات کو پختگی دیتا ہے اور یہ جدلیاتی پرکھ ہر انقلابی کا زیور ہونا چاہیے۔ آج سے کئی صدیوں قبل تمام سابقہ معاشی، سماجی اور سائنسی نظاموں کو ختم کر تے ہوئے دنیا آج سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی زد میں ہے اور بقول لینن ”اب یہ نظام سرمایہ داری سے سامراج تک کے سفر میں داخل ہوچکا ہے۔“ ہر چیز اپنے آغاز سے اختتام کی طرف روا دواں ہوتی ہے۔ جب انسان پیدا ہوتا ہے اور اگر اس کی نشوونما صحیح سے ہوتی ہے تو پھر جا کر وہ زندگی گزارنے کے قابل ہوتا ہے اور آخر کار زندگی کے اس سفر میں باقی انسانوں کی طرح موت کی طرف روا دواں چلتا ہے۔
مادے کی تعریف کے مطابق ہر وہ چیز جسے ہم اپنے حواس خمسہ سے محسوس کرسکتے ہیں مادہ ہے۔ مادہ کبھی ختم نہیں ہوتا البتہ اپنی شکل و ہیت تبدیل کرتا رہتا ہے۔ یہ دنیا جب سے وجود میں آئی ہے ایسی نہ تھی اور زندگی جتنا تیز آج ہے شاید ہی ہم سے پہلے ایسی ہو۔ جب سماج کا معاشی، سیاسی اور سماجی ارتقا نہ ہو رہاہو تو اسے جمود کا شکار سمجھا جاتا ہے اور اس دوران کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو ایک جست کی مانند ہوتے ہیں۔ جو سماج کے جمود کو نکالتے ہوئے کہیں آگے لے جاتے ہیں اور سماجی سوچ بھی کہیں آگے نکل آتی ہے۔ اس جست کو مارکس ’انقلاب‘ کا نام دیتا ہے۔
آج ہم ایک پر انتشار عہد میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور سرمایہ داری نے زندگی کو پر خطر بنا کے رکھ دیا ہے۔ دولت کا ارتکاز اکثریت سے اقلیت کی طرف گامزن ہے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ دنیا کی آدھی سے بھی زیادہ آبادی کا پیسہ صرف آٹھ لوگوں کے پاس ہے اور دولت جمع کرنے کا یہ عمل جاری و ساری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی کی معیشت ہوا کرتی ہے۔ یہاں ہر چیز جنس ہے اور انسان اس کا صارف بھی ہے اور خود جنس بھی۔ مارکس نے کہا تھا”سرمایہ داری کی ایک کمزوری یہ ہے کہ اس میں پیداوار کے ساتھ ساتھ کھپت کا ہونا بھی ضروری ہے۔“ سو سرمایہ داری کی اس ایک کمزوری کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام میں بسا اوقات کئی بحرانوں نے جنم بھی لیا جوکہ زائد پیداواریت کا بحران تھے۔ جن میں 2008ء کا بحران بھی شامل ہے آج اس بحران نے ایک دھائی مکمل کر لی ہے لیکن سرمایہ داری اس بحران سے نہ نکل پائی۔
سرمایہ داری کے بڑے بڑے ٹائکونوں نے مختلف پالیسیاں اپنائیں تاکہ بحران سے نکلا جا سکے مگر سب بے جا ثابت ہوا۔ اکثر قرضوں کی اور رئیل اسٹیٹ کے کام کی پالیسی اپنائی گی لیکن آج کئی ممالک ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف کے مقروض ہیں اور اس دنیا میں رہنے والا ہر ایک شخص 30 ہزار ڈالر کا مقروض ہے اورعالمی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے۔ رئیل اسٹیٹ کی پالیسی اور عمل میں پھر ہوا یوں کہ منافع کے چکر میں بڑے بڑے جنگلوں کو کاٹ کر زرعی زمین کو بنجر کر کے وہاں پر بے ہنگم سے شہر بننے لگے۔ جنگلات کو بڑی بے دردی سے کاٹا گیا اور پچھلے کئی مہینوں سے آسٹریلیا کے جنگلات میں بڑھکنے والی آگ کے واقعات بھی انہی وارداتوں کی ایک کڑی ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کی لپیٹ میں ہے۔ ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے بھی ان قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ سیلاب، طوفان، بے موسمی بارشیں، گرمی و سردی میں شدت اور اس کے انسانی زندگی پر اثرات بھی کئی حد تک بڑھ چکے ہیں۔ جہاں ماحولیاتی تباہی سے باقی جانداروں کی بقا کو خطرہ ہے ویسے ہی انسانوں کو بھی کئی خطرات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔
جنگوں، دہشت گردیوں، بم دھماکوں، غربت، مہنگائی اور جبر و تشدد کو اگر ایک طرف کر دیں تو صرف ماحولیاتی تبدیلیوں اور تباہیوں سے نسل انسانی کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ جس کا اندازہ پچھلے ایک دو ماہ سے پھیلی کرونا وائرس وبا سے لگایا جاسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس وبا کی روک تھام میں ناکام ہوچکا ہے جن میں بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی کافی حد تک متاثر ہیں اور ناکام و پریشان نظر آرہے ہیں۔ اس ایک وبائی مرض نے سرمایہ دارانہ نظام کا بھانڈا پھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اس نظام میں اب اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ عالمی سطح پہ پھیلی اس وبا سے لوگوں کو بچا سکے۔ عالمی ادارہ براے صحت اور عالمی ادارہ برائے ماحولیات نے آج سے کئی سال پہلے پیشین گوئی کر دی تھی کہ ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے اس طرح کی وبائی امراض پنپ سکتی ہیں لیکن یہ بے حس و بے رحم سرمایہ دار اور سامراجی دلال بجائے اس بات پر یا وارننگ پر کان دھرنے کی بجائے پراکسی وارز کو طول دینے اور اسلحہ کی خریدوفروخت میں مصروف تھے۔ اس ایک وبا نے ظاہر کر دیا ہے کہ یہ نظام اس قابل نہیں جو انسانی زندگی کو سہل کر سکے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ نظام مر چکا ہے اور اس کی لاش گل سڑ کر اب بدبو کر رہی ہے اور یہ پر انتشار عہد اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ اب ایک منظم نظام کی ضرورت ہے جس میں انسانی بقا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کرہ ارض کو تباہ ہونے سے بچانے کے اقدامات کیے جائیں اور وہ منظم نظام ایک سوشلسٹ سماج ہی ہوسکتا ہے جس میں انسان ان غلازتوں سے نجات حاصل کرسکیں گے۔