حاتم خان
جب ہم بطور طالب علم طلبہ سیاست یا یونین سازی کی بات کرتے ہیں تو یہاں کے سیاست دان، یہاں کی سرمایہ دارانہ ریاست، ان کے ریاستی گماشتے اور یہاں کے دانشور اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بیٹھے پروفیسرز طلبہ سیاست کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ ہمیشہ انتشار کا باعث بنی ہے۔ طلبہ سیاست اور یونین سازی میں تصادم ہوتے ہیں۔ طلبہ میں لڑائیاں ہوتی ہیں، خون خرابے ہوتے ہیں اور اس طرح کے کئی جواز تلاش کر کے طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ لیکن ان تمام تر پابندیوں کے باوجود بھی طلبہ نے ہر اس موقع پر جہاں ان کی تعلیم پر حملے ہوئے اور ان کی تعلیمی پالیسیوں میں رد و بدل کیا گیا تو طلبہ ان ضابطوں کے خلاف چٹان بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس حبس کے ماحول میں بھی ایک ہوا کے جھونکے کی مانند ان تمام مسائل کے حل کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر یہاں کے گونگے، بہرے اور اندھے حکمران اور ان کے گماشتے، طلبہ کے حوصلے پست کرنے کے لیے ان پر وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پھر لاٹھی چارج بھی کیا جاتا ہے، شیلنگ اور گرفتاریاں بھی کی جاتی ہیں لیکن ان سے بات چیت کرنے کے لیے قطاً کچھ نہیں کیا جاتا۔ ان پالیسی ساز اداروں، دانشوروں اور صاحب علم سے کوئی پوچھنے والا ہے کہ طالب علموں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے وہ ہوتے کون ہیں؟ ان پالیسی سازوں کے ذہنی معیار کا اندازہ ان کی پالیسیوں سے ہوتا ہے۔ ان کے پاس طالب علموں کو دینے کے لیے نہ تو تعلیمی ادارے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں کوئی روزگار۔ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لیے پھر وہ مختلف جواز تلاش کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، وہاں پر پڑھانے والے اساتذہ اور تعلیم کے بعد روزگار کی قلت کو چھپانے کے لیے طلبہ کو مختلف زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ کبھی انٹری ٹیسٹ کی صورت تو کبھی بھاری بھرکم فیسوں کی بھر مار سے۔
اسی پیرائے میں اگر ہم موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو آج طلبہ کو یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ دینے پڑتے ہیں اور ان ٹیسٹوں کی مد میں فیسیں وصول کی جاتی ہیں جن کو ان تعلیمی اداروں نے ایک کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے۔ بعض اوقات تو یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کی سیٹوں کو جعلی طور پر بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ اس ٹیسٹ کی فیس ادا کریں۔ اس کے بعد جب طلبہ یونیورسٹی میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس سے ہزاروں لاکھوں روپے فیسوں کے لیے لئے جاتے ہیں۔ یہاں اس نظام کی پستی کا یہ عالم ہے کہ تعلیم پوری ہو جانے کے بعد ان کو اپنی ڈگری کی تصدیق کے لیے مزید ٹیسٹ دینے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال چالیس لاکھ طلبہ تعلیم مکمل کر کے روزگار کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔ اب روزگار کے لیے بھی اسے ان مختلف امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی پھر بھاری بھرکم فیسیں ہوتی ہیں۔
میڈیکل کے طلبہ داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ اور ڈگری کرنے کے بعد پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) کے ٹیسٹ اور قانون کے طالب علموں کو لا ایڈمیشن ٹیسٹ (LAT) اور ڈگری مکمل ہونے کے بعد لا گریجویشن ٹیسٹ (GAT) جیسے امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں دی جانے والی تعلیم اور اس کے امتحانات کیا طلبہ کی قابلیت پر پورا پورا نہیں اترتے؟ اور پھر ان تعلیمی اداروں میں امتحانی فیسوں سے یونیورسٹی مزید منافع بٹورتی رہتی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں ہونے والے میڈیکل کے ٹیسٹ کے فارم فیس کی مد میں 75 کروڑ روپے وصول کئے گئے۔ لیکن پھر ان پیسوں کا کوئی حساب موجود نہیں اور نہ ہی یہ پیسے پھر تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے میں لگائے جاتے ہیں۔
آج اگر دیکھا جائے تو طلبہ اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کرنے کی امید سے جب تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے اوپر بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ انہیں اپنے مستقبل کی فکر ہوتی ہے اور اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے کچھ کر گزرنے کا ارادہ، ہمت، حوصلہ، جرات اور بہادری ہوتی ہے لیکن ان تعلیمی اداروں میں طلبہ کے اپر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ان کو جو ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں تو یہ تعلیمی ادارے کم اور جیل خانے زیادہ لگتے ہیں۔ اسی وجہ سے طلبہ اپنی زندگی کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مختلف مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ اگر ہم ماضی کی بات کریں تو ماضی میں طلبہ یونینوں کی وجہ سے طلبہ اپنی تعلیم کو فروغ دینے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے تھے۔ انہیں اپنی طاقت اور بلند حوصلوں کا ادراک تھا جس کے سامنے بڑی سے بڑی آمریت بھی نہیں ٹک نہیں پائی۔ لیکن آج کا طالب علم کیا ہے؟ اس کی منزل کیا ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ آج تعلیم کو کاروبار بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ سب غلاظتیں سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں۔ اس نظام کے پاس نہ تو عام لوگوں کے بچوں کو دینے کے لیے تعلیم ہے اور نہ ہی روزگار۔ اس نظام میں نجی اداروں نے اپنا اجارا دارانہ تسلط قائم کیا ہوا ہے اور اب ان کی زندگیوں کے فیصلوں میں بھی اپنی اجارا داری بڑھاتا جا رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ یہاں کی ریاست لوگوں کو ان کے بنیادی آئینی حقوق فراہم کرے الٹا ان حقوق پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ ریاست کے ان تمام تر اقدامات میں آج کا نوجوان بہت کچھ سیکھ رہا ہے اور ان کے خلاف لڑنے کے لیے منظم بھی ہو رہا ہے اور ان کے خلاف نوجوانوں کے اندر غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو درپیش آنے والے مسائل کا حل نہ تو ان بوکھلاہٹ کے شکار حکمرانوں، سرمائے کے گماشتہ دانشوروں، پالیسی سازوں اور روائتی پارٹیوں کے پاس ہے اور نہ ہی یہ ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ ان مسائل کا حل اگر کسی کے پاس ہے تو صرف اور صرف ان نوجوانوں کے پاس ہے۔ یہاں ضرورت صرف ایک جٹ ہو کر لڑنے کی ہے اور تمام قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو جھٹک کر کندھے سے کندھا ملا کر ایک ایسی طبقاتی لڑائی لڑنے کی ہے جو چند مٹھی بھر امیروں کی اقلیت سے اقتدار چھین کر نوجوانوں اور محنت کشوں کی اکثریت کے ہاتھوں منتقل کرے۔