انصب امیر خان
ترجمہ:ایف ایس
1985ء میں خوبصورت کالی ساڑھی میں ملبوس اقبال بانو نے 50 ہزار کے پرجوش مجمع کو فیض احمد فیض کی نظم ”ہم دیکھیں گے“ سنا کر ان میں انقلاب کی روح پھونک دی تھی۔ 2019ء میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایک نابینا نوجوان اسکالر ششی بھوشن صمد نے حبیب جالب کی باغیانہ اور انقلابی نظم ’دستور‘ سنا کر مظاہرین کے دلوں کو گرمایا۔
ان مذکورہ دونوں اجتماعات کا صرف وقت اور لباس مختلف نہیں تھا۔ اقبال بانو نے ایک ایسے ملک میں اردو شاعری سنائی جہاں (تھوڑی بہت ناگواری کے ساتھ) اردو کو کھلے دل سے قبول کیا جاتا تھا لیکن صمد کی زبان سے گونجنے والے اشعار کی زبان(یعنی اردو) کو منظم انداز میں اور لاشعوری طور پر بھی پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
بلاشبہ نوجوانوں کی احتجاجی لہر اردو کو قومی دھارے میں واپس لائی ہے مگریہ کوئی نیا دعویٰ نہیں ہے کہ انڈیا میں اردو کیلئے زمین تنگ ہو رہی ہے۔ لکھنؤی بولنے والوں اور دہلی کے تاجروں کی زبان بننے سے لے کر اترکھنڈ اور بہار کے سائن بورڈز اور جموں و کشمیر کی قانون سازی تک، اردو کی آخری ہچکیاں صاف سنائی دے رہی ہیں۔
یہ تاجِ برطانیہ کے زیراثر انگریزی تعلیم کا نتیجہ ہو یا ہندی اردو کی لسانی تقسیم کا، حقیقت یہ ہے کہ اردو پر توجہ نہیں دی گئی۔ تاہم گزشتہ سال کے آخر اور رواں سال کے اوائل پر اعلیٰ تعلیم کے لئے فیسوں میں کمی، آزادی اظہار ِرائے، یونیورسٹیوں پر مسلح حملوں اور شہریت ترمیمی ایکٹ اور شہریوں کے قومی رجسٹر کے خلاف نوجوانوں کے احتجاج کی صورت میں ایک خوشی کی لہر بھی در آئی۔
معاشرے کے تمام طبقات اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے دلیراور پرجوش نوجوانوں کی قیادت میں یہ مظاہرے جلد ہی اردو کی انقلابی شاعری کی طرف مائل ہوگئے، جس سے ملکی ثقافتی منظر نامہ اردو نظموں اور غزلوں سے اٹ گیا۔ اردو شہ سرخیاں کا حصہ اور لوگوں کی زبان بن گئی۔ نومبر 2019 ء کے بعد سے انڈیا بھر کے طلبہ نے جو ایک تکثیری بلاک کے طور پر احتجاج کر رہے ہیں، اسٹبلشمنٹ کے خلاف غصے، ناراضگی، جذبات اور پرامید مستقبل کے اظہار کیلئے بینروں اور پوسٹروں پر اردو شاعری کا استعمال کیا۔
اسٹیبلشمنٹ اب اس اتحاد کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالب علم عامر عزیز کی شاعری نے ساری جنتا کو حیرت میں مبتلا کردیا جب اس کے درد کو نظم ”سب یاد رکھا جائے گا“ کے ذریعے محسوس کیا گیا۔ عوام کی نہ صرف اردو کے کلاسیک شعرا کے اصل کام کی طرف رغبت ہوئی ہے بلکہ حبیب جالب، فیض احمد فیض، علامہ اقبال اور احمد فراز کے کلام کی گونج تو میڈیا سے بھی سنائی دی۔
مظاہروں اور مزاحمت کے دوران معروف انقلابی شاعروں کی انٹرنیٹ پر تلاش میں بھی بے حد اضافہ ہوا۔ انٹرنیٹ پر اردو شعرا کو بہت زیادہ پڑھنے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق چیئرمین سراج الدین اجملی اس رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ گزشتہ چند ماہ سے بھارتیوں کے اندر مشترکہ ورثے کے طور پر اردو اور ہندوستانی کے ساتھ ساتھ ہندی، کھڑی بولی، دکنی، دہلوی، اودھی اور برج بھاشا میں دلچسپی بڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی خوبصورتی اس کی روانی اور اس کی شائستگی میں ہے۔ جیسا کہ زیادہ تر لوگ ٹی وی اور احتجاج کی وائرل ویڈیوز کے ذریعہ اسے سنتے ہیں، مظاہرین کی آوازوں میں یہ مزاحمتی شاعری سننے والوں کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ اردو ایک پرجوش زبان ہے اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ نوجوانوں کی مزاحمت کے اظہار کا ذریعہ بنی ہے۔ آخر کار مولانا حسرت موہانی نے اسی زبان میں ہمیں انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا تھا۔
اردو ایک اور وجہ سے بھی نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہے کہ اس کے توسط سے وہ برادریوں اور قومیتوں کی تقسیم کو ختم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ پروفیسر اجملی کا خیال ہے کہ زبان کو سیاست اور فرقہ واریت سے جس طرح جوڑا جا رہا ہے موجودہ نسل، خاص طور پر یونیورسٹی کے طلبہ اس کو محسوس کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اردو کا انتخاب کر رہے ہیں۔
نجی کالج بکسی جگبھندھو بدیادھر میں عمرانیات کے ایک طالب علم امرت مہاپترا کا کہنا ہے کہ ”وہ تقریباً ایک سال سے اردو میں دلچسپی لے رہے ہیں، لیکن سی اے اے، این آر سی اور این پی آر مخالف مظاہروں کے دوران ان کی دلچسپی زیادہ بڑھ گئی۔ ”ہم دیکھیں گے“ یا اس مزاج کی دوسری شاعری نے عوام کی توجہ حاصل کی ہے۔ میرے لئے اس کو سمجھنا آسان تھا، یہ ایک اعلیٰ پائے کا ادب ہے اور اس میں ان تمام محسوسات کو سمیٹ لیا گیا ہے جو میرے اندر موجود تھے۔ اس نے مجھے بے خوف کر دیا ہے۔ اس کے بعد میں نے کئی بار کوک اسٹوڈیو پاکستان کے گانے سنے ہیں“۔ مہاپترا کا کہنا ہے کہ زبان واقعی کسی حد بندی اور نفرت کو نہیں جانتی۔
ایک بنیادی وجہ جس کے باعث موجودہ نسل اردو کو دوبارہ دریافت کر سکی اس کا روایتی عربی رسم الخط کے علاوہ دیگر اسکرپٹ میں دستیاب ہونا ہے۔ ریختہ، عشق اردو اور صحرائے گلاب جیسی ویب سائٹوں نے رومن اور دیوناگری اسکرپٹ میں اردو شاعری کو رواج دینے کا کلچر پیدا کیا ہے۔ اردو کے تحفظ اور ترقی کے لئے کام کرنے والی تنظیم ’ریختہ‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن سلیم سلیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ میں نہیں سمجھتا کہ اردو اشعار کی دوسرے رسم الخط میں مقبولیت اردو زبان کی گرائمر اور اسکرپٹ کو پھیلانے میں معاون ہے، لیکن یہ یقینی طور پر لوگوں کو اس خیال سے واقف کرنے میں مدد دیتی ہے کہ اردو اور ہندی اتنے مختلف نہیں ہیں، حقیقت میں یہ زبان کے خاندانی درخت کی ہم شاخ بہنیں ہیں۔ لیکن اردو کو صحیح معنوں میں پھلنے پھولنے کے لئے مخلصانہ اور ٹھوس حکومتی اقدام کی ضرورت ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے اردو کو انڈیا میں ایک نئی زندگی ملی ہے۔ کیا اب یہ مزید پھلے پھولے گی یا پھر سے مرجھا جائے گی… ہم دیکھیں گے۔
بشکریہ:دی سٹیزن