ناصر اقبال
کچھ واقعات پوری دنیا کو جھنجوڑ کر ذاتی و مجموعی سوچ اور فکری دھاروں کو یکسر تبدیل کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیرس کمیون 1871ء، پہلی جنگ عظیم، انقلاب ِ روس 1917ء، یورپ کا عظیم اقتصادی بحران 1929ء، جنگ عظیم دوم 1939ء، چاند پر پہلا انسانی قدم 1969ء، انہدامِ انقلاب روس 1991ء اور 11 ستمبر 2001ء کا واقعہ۔ ہر بڑے واقعے بارے کافی کچھ لکھا جاتا ہے۔ بلکہ ابھی تک لکھاجارہا ہے۔ تشریحات و توجیحات اورنتائج سائنسی اور غیرسائنسی طریقہ کار کے مطابق نکالے جاتے ہیں۔
ان میں سازشی نظریہ بادی النظر میں سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ گروہی، ملکی و قومی مفادات کے مطابق بھی بعض اوقات رنگ بھر لیا جاتا ہے اور کبھی ذاتی پسند اور ناپسند کا معیار بھی ہوسکتا ہے۔ سائنسی، ارتقائی، تاریخی اور جدلیاتی جو سکہ بند مارکسی طریقہ کار ہیں کے تحت بھی نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سازشی نظریوں کو گھڑنے کے لیے زیادہ محنت یا مغز کھپائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک عدد خفیہ گروہ، خفیہ علم، مخفی مقاصد، سائنس اور ارتقا کے تمام اصولوں سے چشم پوشی اور زمین و آسمان کے چند قلابے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ عالمی جنگوں حتیٰ کہ 9/11 کی تمام تر ذمہ داری یہووو ہنود پر ڈالی جاتی ہے یا صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں اور خاص طور پر اسلحہ ساز کمپنیوں کو وجہ قرار دیا جاتاہے۔
تسخیر چاند کے متعلق تو یہ سازش پرست گروہ سرے سے ہی انکاری ہے۔ یعنی انسان کبھی چاند پر گیا ہی نہیں۔ ناسا کی پیش کردہ چاند پر فلم بندی کو ہالی وڈ کی کارستانی بیان کیاجاتا ہے اور ثبوت کے طورپر ہوا کی عدم موجودگی میں جھنڈے کا لہرانا دکھایا جاتا ہے۔ خدا بھلا کرے ناسا کے سائنسدانوں کا جنہوں نے چاند پر لہرانے کے لیے ململ کا جھنڈا بھیجاتھا۔ ایڈز جیسے مرض کی ایجاد کا سہرا دوا ساز اداروں کے سر سجانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ ہمارا نقطہ نگاہ ارتقا یا ارتقائی اصولوں کا فروغ ہے اور خاص طورپر سیاسی تجزیہ میں ارتقائی اصولوں کو مدنظر رکھنے کی پرزور وکالت کرنا ہے۔ چنانچہ ہماری دانست میں نظریہ ارتقا کو سازشی نظریات کے ساتھ تقابلی جائزے ہی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ابھی ہم یہاں سازشی نظرئیے کو ضمنی طورپر بیان کررہے ہیں۔ اس پر تفصیل سے بحث کسی اگلے مضمون میں کی جائے گی۔
ہم کافی عرصہ یہی سمجھتے رہے کہ سازشی نظریات کا آغاز پاکستان سے ہوا اور ایک خاص سیاسی جماعت اس کی موجد ہے جس کے ہاتھ ترقی پسندوں کے خون سے لت پت ہیں۔ ان کا یہ مشہور ”فلسفہ“ ہے کہ اگر سمندر کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی آپس میں لڑیں تو اس کا ذمہ دار بھی ایک خاص نسلی گروہ ہوگا۔ 9/11 کے واقعے کے بعد ہمارا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور معلوم ہوا کہ سازشی نظریات کے ”گھڑاؤ“ اور پھیلاؤ کی فیکٹریاں نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیامیں کام کررہی ہیں اوران میں دنیا کے ہر ملک، نسل، نظرئیے، مذہب اور قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ حصہ بقدر جثہ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
11 ستمبر 2001ء کا واقعہ اپنی نوعیت میں انوکھا اور نہایت دور رس نتائج کا حامل ہے جس کی شدت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس کی گونج پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے گلی کوچوں میں آج بھی یعنی 2019ء میں بھی سنی جاسکتی ہے۔ ہم نے اس واقعے کو سیاسی و سماجی سائنس کے طالب علم ہونے کے ناطے سے دیکھا اور ہونے والے اثرات دیکھ بلکہ بھگت بھی رہے ہیں۔
ہم اس واقعے کو صرف مثال کے طورپر بیان کررہے ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی ماضی کی طرح واقعے کی تشریح کے طورپر سازشی نظریوں کا سیلاب برپا ہوا۔ فلموں اور سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا، ٹی وی حتیٰ کہ کتابوں کی شکل میں ثابت کیاجانے لگا کہ عالمگیر تسلط کو قائم کرنے کے لیے امریکہ نے خود ہی اپنی عمارتیں گرا دیں۔ خفیہ گروہ کے ساتھ ساتھ خفیہ ایجنسیوں پر بھی ذمہ داری عائد کی گئی۔ اسلحہ ساز کمپنیاں تو ماضی بعید سے ہی ذمہ دار تھیں۔حالانکہ کوئی حادثہ اچانک رونما نہیں ہوتا، وقت برسوں پرورش کرتا ہے۔
ہمارے خیال کے مطابق ان واقعات کو سمجھنے کے لئے ترک خلافت کا انہدام، 18ویں صدی میں برپا ہونے والی احیائے اسلام کی تحاریک، عرب نیشنل ازم، خطہ عرب میں تیل کی دولت سے مالا بادشاہوں کا از سرنو آغاز، سرد جنگ، امریکی سامراجی سوچ (خاص طورپر وعدے کر کے کام نکالنا اور بعد میں یکسر مکر جانا) وغیرہ کو تفصیل سے جاننا چاہئے۔ تب ہی موجودہ مذہبی انتہا پسندی کی لہر کو کافی حد تک سمجھا جاسکتا ہے اورمستقبل بارے بھی بہتر رائے قائم کی جاسکتی ہے۔
ماضی بعید میں میڈیا ایک خاص حد تک ہی اثرانداز ہوتا تھا لیکن 9/11 کے وقت سے پرنٹ اور الیکٹرانک کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی اپنے پورے کروفر کے ساتھ موجود ہے۔ جس کی وجہ سے سازشی نظریات کے پھیلاؤ میں بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ سازشی نظریات نے اپنے اس خوف ناک حجم کی وجہ سے نہ صرف سادہ لوح عوام کو گمراہ کو کیا ہے بلکہ دنیا بھر کے نظریہ دان یا صاحب الرائے افراد بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ پاکستان میں ہر قسم کے میڈیاکیساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ترقی پسند کارکنان اور رہنما بھی سازشی نظریات سے متاثر ہوئے جو ناقابل بردشت حد تک تکلیف دہ بات تھی۔
تاریخی طور پر ترقی پسندوں کی سیاست کی بنیاد کسی جاگیر یا سرمایہ کی طاقت پر نہیں ہوتی بلکہ وہ علم تاریخ کے درست تجزئیے، جدلیاتی مادیت اور زمینی حقائق کی روشنی میں حال اور مستقبل کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ اوٹ پٹانگ باتیں بنانے کی صورت میں ترقی پسند لوگ اپنے واحد اثاثے یعنی فکری برتری سے محروم ہو کر تاریخ سے معدوم ہونے کے خدشات سے دو چار ہوسکتے ہیں۔
غیر سائنسی نظریات کے پھیلاؤ سے کسی فرد یا گروہ کو فائدہ یا نقصان ہو نہ ہو البتہ اس سے کنفیوژن ضرور جنم لیتی ہے اور یہ کنفیوژن بالآخر بالادست طبقات کے لیے ہی فائدہ مندثابت ہوتی ہے اور ان طبقات کا یہ فائدہ حتمی طورپر ترقی پسندوں کا نقصان ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر دفعہ نقصان قابل برداشت ہی ہو۔
ہمارے سمیت دنیا کے تمام ترقی پسندوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ غیر سائنسی نظریات کو آگے بڑھانے کی بجائے ڈٹ کر ان مقابلہ کرنا چاہئے بلکہ جواب دینا چاہیے۔ اکثر یہ کہا جاتاہے کہ غلطی کے سبب تباہی نہیں آتی البتہ غلطی پر ڈٹ جانے سے تباہی ضرور آتی ہے۔ ہمیں خود تنقیدی سے ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرناچاہیے اورسیکھناچاہیے۔ استادِ محترم پروفیسر علی عباس جلالپوری کی مشہور کتاب عام فکری مغالطے کے تسلسل میں اب خاص فکری مغالطوں کی درستی پر کام کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں حالیہ مضمون ابتدائیہ کے طورپر لکھا گیا ہے۔ موضوع پر تفصیلی بحث آئندہ مضامین میں کی جائے گی۔
راقم ذاتی طور پر روزنامہ جدوجہد آن لائن کی ادارتی و مشاورتی مجلس کا شکرگزار ہے جنہوں نے باضابطہ طورپر ناچیز کو لکھنے کی دعوت دی۔ نظریہ ارتقا پر کام کرنا دشوار اور بعض صورتوں میں خاصا متنازعہ بھی ہوسکتاہے۔ البتہ یہ پرانی بحث کا ازسرنو آغاز ہے اور تمام ساتھیوں سے درخواست ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کر کے زیادہ سے زیادہ فیڈ بیک دیں۔ یہاں ہم یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ ہمارا مقصد قطعاً یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ اس دنیا میں سازشیں نہیں ہوتیں اور سامراج وغیرہ کو استثنا حاصل ہے۔ مقصد صرف سازشوں کو سائنسی و ارتقائی اصولوں اور طریقہ کار کے مطابق بے نقاب کرنا ہے۔ (جاری ہے…)