ناصر اقبال
تاج محل آگرہ، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، شالامار باغ لاہور، لال قلعہ، شاہی مسجد، مقبرہ ہمایوں دہلی کے علاوہ اور بھی بیشمار قابل دید تاریخی تعمیرات جو مغل عہد حکومت سے منسوب ہیں، ان کے علاوہ سلاطین دہلی، نوابین اور ہندو راجاؤں کی بنوائی ہوئی بیشمار یادگاریں جن میں قلعے، مساجد، مندر، مینار، محلات، دروازے، مقبرے، باغ، بارہ دریاں، باولیاں، تالاب وغیرہ شامل ہیں پورے برصغیر میں جا بجا قائم دائم ہیں اور ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سیاح لاکھوں روپے خرچ کر کے ان کی سیر کرنے برصغیر آتے ہیں۔ ان خوبصورت اورپائیدار عمارتوں کو تاریخ کے مختلف اوقات میں اور مختلف محل و قوع پر مختلف افراد نے مختلف حالات میں بنوایا لیکن اس کے باوجود ان میں چند خصوصیات مشترک ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ہم نہایت وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان تمام تعمیرات کو کسی ٹھیکیدار یا ٹھیکیداری نظام کے تحت نہیں بنایا گیاتھا۔
برصغیر مغلیہ سلطنت کے اختتام تک ٹھیکیداری نظام اور اسکی کی ’برکات‘ سے قطعاً نا آشنا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو ٹھیکیداری نظام یا تصور سے روشناس کرایابعد میں برٹش راج نے نہ صرف اس نظام کو جاری رکھا بلکہ کنٹریکٹ ایکٹ 1872ء کو نافذ عمل کر کے اس کو قانونی تحفظ بھی دیا۔ یہی ایکٹ پاکستان میں آج تک من وعن نافذ عمل ہے۔
اس وقت کا برٹش راج یا یورپ صنعتی انقلاب سے گزر چکا تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ ٹھیکیداری نظام نے وہاں کے معاشروں پر قدر ے بہتر اثرات یا نتائج مرتب کئے ہوں مگر ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اور بعد میں برٹش راج نے اپنے وفاداروں اور حواریوں کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ٹھیکیداری نظام کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا۔ وفادار ی بشرط استواری یا’کر سیوا تے کھا میوہ‘ جیسے اصولوں کے تحت ٹھیکیداروں کی ایک نرسری تیار کی گئی جس میں کئی قسم کے ٹھیکیدار شامل تھے۔ جنرل اور سپلائی کنٹریکٹر، سرکاری اور پرائیویٹ کنٹریکٹر، لائسنس یافتہ اور غیر لائسنس یافتہ کنٹریکٹر وغیرہ۔ ٹھیکیداری نظام سے جڑی قباحتوں اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ہندوستان میں شروع دن سے ہی ٹھیکیداروں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا اور آج تک روزمرہ کی بول چال میں لفظ ٹھیکیدار ایک منفی محاورے کے طور پر مستعمل ہے۔
انگریز ی عہد حکومت میں ٹھیکیداری نظام نے قدرے بہتر نتائج دیئے کیونکہ ٹھیکے دینے والا انگریز تو صاحب بہادر تھا اور ٹھیکیدار طبقہ زیادہ تر دیسی باشندوں پر مشتمل تھا اس لیے قدرتی طور پر انگریز میرٹ، نگرانی، قیمت، لاگت اور کوالٹی پر سمجھوتا نہیں کرتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے انگریزی دور کی تعمیرات کو آج بھی بہتر اور مضبوط گردانا جاتا ہے۔
عوامی سطح پر یہی ٹھیکیدار انگریز افسر شاہی اور عوام کے درمیان رابطہ کاری کی خدمت بھی سرانجام دیتے۔ اگر کسی عام شہری کا کوئی کام کسی سرکاری محکمہ میں پھنس جاتا تو متعلقہ ٹھیکیدار انگریز افسران کی منت سماجت کر کے کام نکلوا کر اور سماجی خدمت کے دعویٰ دار بھی بن جاتے۔
پاکستان کو 1947ء میں جاگیرداری، سرداری اور ٹھیکیداری نظام انگریزی راج سے ورثے میں ملے۔ مخصوص سوچ، ذہنیت، نفسیات اور میکانیات میں جاگیرداری اور سرداری نظام کسی طرح سے بھی ٹھیکیداری نظام سے مختلف نہیں۔ فرق صرف قانونی حیثیت اور حجم یا پیمانے کا ہو سکتا ہے۔
ملکی بٹوارے کے بعد ٹھیکیداری نظام میں فرق صرف اتنا پڑا کہ انگریز آقاؤں کی جگہ دیسی آقا آ گئے اور محمود و ایاز صحیح معنوں میں اسطرح سے یکجا ہوئے کہ دیکھنے میں کلبوت تو زیادہ تھے مگر ان میں روح ایک ہی کارفرما تھی۔ ٹینڈر نوٹس، بولی، کنٹریکٹ ایوارڈ، کوالٹی کنٹرول، بقایا جات کی ادائیگی وغیرہ جیسے تمام معاملات نہایت ’صلح اور خاموشی‘ سے طے پا جانے لگے۔
پاکستان میں جمہوری حکومتیں تین پرتوں یعنی لوکل گورنمنٹ، صوبائی اور قومی حکومت میں کام کرتی ہیں۔ بڑی سیاسی پارٹیاں ہی ان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر جیتنے والے کونسلر یا چیئرمین، ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی کے سیاسی کور گروپ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اکثریت ٹھیکیداری نظام سے منسلک افراد ہی کی نظر آئے گی۔ ٹھیکیدار حضرات اپنے پسندیدہ امیدوار پر ناصرف سرمایہ کاری کرتے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے حصول کے لیے عوام کے اندر بھی ان کی نیک نامی کے قصے مشہور کرتے ہیں۔ کامیابی کے بعد پھر ان عوامی نمائندوں کے اثرو رسوخ سے افادہ حاصل کیا جاتا ہے۔
پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں ٹھیکیداروں کی سیاسی و سماجی اہمیت سے واقف ہیں اس لیے وہ ان کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتیں اس لیے ہر جنرل الیکشن سے پہلے ترقیاتی و تعمیری سرگرمیاں عروج پر نظر آتی ہیں۔ ملک میں بسا اوقات فوجی حکومتیں بھی آ جاتی ہیں۔ ٹھیکیداروں کی یہی فوج ظفر موج پھر ان کے کام آتی ہے اور ان کے لیے سیاستدانوں کی ایک نئی نرسری اگانے میں معاون ہوتی ہے۔
انگریز کا قصور صرف اتنا ہی تھا کہ اس نے ٹھیکیداری نظام کو متعارف کروایا اور کسی حد تک چلایا بھی لیکن اسے ایک کلچر کا روپ دے کر اپنی سوچوں پر طاری ہم نے خود کیا۔ مثال کے طور پر ایسے لوگ جو ٹھیکیداری نظام کا حصہ تو نا تھے مگر انہوں نے اپنے تئیں اپنے آپ کو کسی نا کسی کام یا حرکت کا ٹھیکیدار تصور کر لیا۔ یہ سوچ اس قدر گہری ہے کہ برصغیر کا ہر بالغ شہری دن میں دو چار دفعہ ’ٹھیکیداری نفسیات‘ کا مظاہرہ ضرور کرتا ہے یعنی دوسروں کے کام میں خواہ مخواہ کیڑے نکالنا وغیرہ حتیٰ کہ ہمارے راج مستری و مزدور اور صنعتی مزدوروں وغیرہ کی ترقی کی معراج لیبر کا ٹھیکیدار بن جانے میں ہے۔
افسر شاہی، سیاستدانوں اور ٹھیکیداروں کے مہلک مرکب نے گذشتہ 75 سالوں میں عوام پر جو قیامتیں برپا کی ہیں۔ اس مختصر مضمون میں صرف تین ہی کا ذکر نمونے یا مثال کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔
آج برصغیر کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہر ایک دو گھنٹے کی بارش ہی برداشت نہیں کر سکتے۔ گلیاں اور بازار ندی نالوں کو منظر پیش کرتے ہیں اور زیریں آبادیاں کئی کئی دنوں تک جوہڑ کی شکل اختیار کیے رہتی ہیں۔ دیہات میں سڑکیں اور پلیاں بہہ جاتی ہیں۔
سرکاری اور اخباری رپورٹس کے مطابق 2005ء میں کشمیر اور بالاکوٹ میں زلزلہ سے 90 ہزار کے قریب افراد جان بحق اور تقریباً اتنے ہی زخمی ہوئے۔ ان میں اکثریت سکولوں کے طلبہ کی تھی۔ مورد الزام زلزلہ کو ٹہرایا گیا لیکن حقیقت یہ تھی زلزلہ کی وجہ سے ان علاقوں کی 70 فیصد سرکاری عمارات زمین بوس ہو گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زلزلہ کی نسبت کہیں زیادہ جانی نقصان ناقص تعمیرات کی وجہ سے ہوا۔
گذشتہ 75 سالوں کے دوران ملک بھر کی بڑی سڑکوں، شہروں کی اندرونی سڑکوں اور گلیوں کے زمینی لیول میں پانچ فٹ سے لے کر تیس فٹ تک کااضافہ ہوا ہے۔ لاہور کا شالامارباغ جو جی ٹی روڈ کنارے واقع ہے ہر دو چار سال بعد سڑک کے بتدریج اونچا ہونے سے اب وہ روڈ سے پانچ سے چھ فٹ نیچے ہے۔ بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کو اگر پرانی تصاویر جو انٹر نیٹ پر باآسانی دستیاب ہیں میں دیکھا جائے تو سڑک کی نسبت کہیں بلند نظر آتی ہیں مگر آج وہ سڑک کے لیول پر آچکی ہیں۔
ملکی شہروں کی 70 سے 80 فیصد آبادی بے منصوبہ آبادیوں میں رہتی ہے۔ ہر دو چار سال بعد ترقیاتی کاموں کے نام پر گلیاں دو سے چار فٹ ’بھرتی‘ ڈال کر اونچی کر کے پکی کر دی جاتیں ہیں۔ نتیجتاً مکان گلی کے لیول سے نیچے ہو جاتے ہیں۔ گزرے 40 سالوں میں مکین چار چار دفعہ اپنے گھروں کو ’اونچا‘ کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ان آبادیوں میں اکثریت محنت کش طبقہ پر مبنی ہے جو اپنی آدھی زندگی مکان بنانے اور باقی زندگی اسے اونچا کرنے میں گزار دیتی ہے۔
گلیوں اور سڑکوں کو اونچا کرنے میں ریاست کے کروڑوں خرچ ہو جانے سے عوام کی اربوں کی پراپرٹی (مجموعی طور پر) برباد ہو جاتی ہے اور انفرادی طور پر عام شہری عذاب میں آجاتا ہے۔ ہم نے اس مسئلہ پر خاصی ریسرچ کی کہ سڑکوں کو گلیوں کو اونچا کرنے کا فائدہ آخرکار کس کو ہوتا ہے۔ ہماری ناقص سمجھ میں یہی ایک بات ہی آسکی کہ بھرتی ڈالنے سے ٹھیکے کی لاگت بڑھ جاتی ہے اور پھر اسی حساب سے کمیشن، منافعوں اور حصے پتیوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
ٹھیکیداری نظام اور کلچر سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے اور بالا دست طبقات کی بالادستی کو قائم رکھنے کے سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ کسی بہتر متبادل یا سوشلزم کے آنے تک کے عبوری دور میں ترقی پسند تحریک اور سول سوسائٹی اگر ٹھیکیداری کلچر کو ہی اپنا ہدف تنقید و مزاحمت بنا لے تو نصف لڑائی اسی محاذ پر جیتی جا سکتی ہے۔