ناصر اقبال
خان صاحب سیاست کی تقریباً 26 بہاریں دیکھ چکے۔ طویل سیاسی جدوجہدکے بعد ایک ٹانگہ پارٹی بنانے کا سنگ میل طے کیا۔پھر کہیں جا کر برکت ہونے سے مینار پاکستان کا کامیاب جلسہ ہوا اور قومی اسمبلی کی اپوزیشن میں بہتر جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔مگر طبیعت میں بے چینی کے سبب پھر سے سیاسی جدوجہد اور ایک لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور کنٹینر نشین ہوئے۔پختہ ارادہ تھا کہ حکومت وقت سے استعفیٰ لیے بنا دھرنا نہیں اٹھے گا۔مگر ایک عجیب و غریب یو ٹرن کی وجہ سے خان صاحب جو استغفے لینے گئے تھے الٹا استغفے دے آئے۔اس وقت کی حکومت نے ان کے استغفے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یوں خان صاحب کو قوم و ملک کے وسیع مفاد کے لیے چاروناچار اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔پھر برکت کی بارش ہوئی پانامہ لیکس کا اسکینڈل سامنے آنے سے خان صاحب کی سیاست چمکی اور جنرل الیکشن 2018 ء میں کامیابی سے ایوان اقتدار میں براجمان ہوگئے۔تقریباً ساڑھے تین سال حکومت کرنے کے بعد ایوان اقتدار سے رخصت ہوئے۔اس کے بعد پھر امریکی سازش اور مداخلت کے چرچے اور شہر بہ شہر جلسے جلوس وغیرہ۔
خان صاحب کی موجودہ سیاسی جدوجہد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جا رہا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے خان صاحب کے سیاسی فلسفے، راہنما اصولوں اور طریقہ کار پر ایک نگاہ ڈال لینے میں شاید کوئی حرج نا ہو گا۔
ایک عام شہری کے نزدیک سیاست کا مطلب اور مقصد کسی کی ٹانگیں کھینچنا، منافقت، مکروفریب، کوئی وقتی فائدہ اٹھانا وغیرہ ہوتا ہے۔اسی طرح سے اگر سیاست کا عمرانی فلسفہ یا تشریح کی جائے جو کہ گزشتہ 26 سالوں کے دوران کشید ہو پائی ہے شاید اس طرح ہوسکتی ہے۔یعنی کرکٹ اور سیاست ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جو کپتان یا شخص ایک ورلڈ کپ جیت جائے، ایک دو ہسپتال اور ایک آدھ تعلیمی ادارہ بنا لے وہ ناصرف ایک اچھی حکومت بنا سکتا ہے بلکہ اقتدار اس کا دائمی حق بھی بن جاتا ہے اور اس کے تمام فیصلے حتمی اور ابدی نوعیت کے ہوں گے اور وہ جو کہے گا ٹھیک ہی کہے گا۔ سیاست کی رونق اور طاقت صرف یو ٹرن لینے میں ہے۔براہمنوں کی طرح اپنے آپ کو پوتر ثابت کرنے کے لیے مخالفین کو گندا ثابت کرو اور اگر اس سے بھی کا م نہ چلے اپنے ہی ساتھیوں کو جیل یاترا کروا دو۔جلوت اور خلوت میں ہمیشہ ثابت کر و کہ خان صاحب کو ہر چیز کا پتہ ہے۔گردن کا سریہ جتنا مضبوط ہو گا لیڈر کی شان بھی اسی قدر ہوگی۔ بلند و باغ دعوے اور ارادے کرنے میں چونکہ کوئی پیسے نہیں لگتے اس لیے بے پر کی خوب اڑا کر رکھو اور عین موقع پر قالین بیچنے والے کا طرز عمل اختیار کرو یعنی دس ہزار سے شروع کرو اور پانچ سو پر اکتفا کر لو۔سیاست کا اولین مقصد بڑے بڑے جلسے منعقد کرکے ان میں لچھے دار تقریریں اور مخالفین کو برا بھلا کہنا وغیرہ ہونا چاہیے۔اپنے محسنوں سے دغا کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے۔چندے سے ملک چلایا جا سکتا ہے۔سیاست میں سیکھنے کی بجائے ہمیشہ سکھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاست کی ہر منزل پر ایک نئی شادی باعث خیر ہوتی ہے۔ سیاست صرف گالی گلوچ کے کلچر میں پروان چڑھتی ہے وغیرہ۔
اپنے انہی اعلیٰ اور منفردافکار کی بدولت خان صاحب پوری زندگی اور خاص طور پر سیاسی زندگی میں تو کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکے۔ سیاسی پارٹی بنائی لیکن آج تک پارٹی کا” وین گارڈ طبقہ” وضع ہی نہیں کر سکے۔ نہ یہ مزدوروں کسانوں کی پارٹی ہے اور نہ ہی جاگیر داروں کی اور نہ ہی سرمایہ داروں،تاجروں کی نمائندہ پارٹی ہے۔یاد رہے کہ طبقہ ہی پارٹی کو قائم اور منظم رکھنے کا ضامن ہوتا ہے اور پارٹی کو مشکل وقت سے نکالتاہے۔ آج 26سال گزارنے کے بعد بھی پارٹی ون مین شو ہی ہے۔خداناخاستہ اگر خان صاحب کی ذہنی یا جسمانی صحت کو نقصان پہنچ جائے تو پارٹی بکھر جائے گی اور ساتھ ہی سمندر پار پاکستانی بھائیوں کی خون پسینے کی سرمایہ کاری بھی بھنگ ہو جائے گی۔
سیاسی جدوجہد 2014ء میں اسلام آباد کے 126 روزہ دھرنے کو اہم کامیابی قرار دیا جا سکتاہے وہ بھی صرف اس حد تک کہ خان صاحب وہاں سے ایک عدد دلہن لے اڑنے میں کامیاب رہے۔ اگر اس دھرنے میں سے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے عنصر کو منہا کر دیا جائے تو پیچھے چند بے تکی تقریوں کے سواکچھ بچتا ہی نہیں۔
خان صاحب کی جکومت کا واحد کارہائے نمایاں یعنی کرونا وبا سے نمٹنا ہے کو کہا جا سکتا ہے۔لیکن کریڈٹ دیتے وقت ’NCOC‘ کی تنظیم میں فوج اور عالمی برادری کے کردار اور تعاون کو بھی ملحوظ خاطر رکھناپڑے گا۔
حکومت کے معمولی فرائض میں اشیائے صرف کی قیمتوں پر کنٹرول شامل ہے جس کے لیے کسی عالمی بینک یا آئی ایم ایف کی امداد یا قرضوں کی ضرورت نہیں ہوتی، حکومت کی معمولی توجہ ہی درکار ہوتی ہے۔ خان صاحب کے پورے دور حکومت میں اکثر اوقات ہر چیز تین سے چار مختلف نرخوں پر فروخت ہوتی رہی۔ قیمتوں پر کنٹرول شایدکسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا کم از کم پیمانہ ہو سکتا ہے۔
حکومت کی رخصتی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمل آئی۔جمہوری اصولوں یا اقدار کا تقاضا تھا کہ خان صاحب کو خندہ پیشانی سے اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے تھا لیکن خان صاحب نے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال کر ایک اور وکھری ٹائپ کا یو ٹرن لے کر جمہوریت کی بساط مکمل طور پر لپیٹنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔
ہمارے ہمسائیہ ملک انڈیا میں اٹل بہاری واجپائی ایک دفعہ 11دن کی حکومت اور دوسری دفعہ 11ماہ حکومت کرنے کے بعد عدم اعتماد ہی کے چکر میں اپوزیشن میں جا بیٹھے تھے۔ الیکشن کے بعد واجپائی صاحب پھر وزیراعظم منتخب ہوئے اس بار انہوں نے اپنی مدت حکومت پوری کی۔
قومی اسمبلی سے استغفے دے کر پھر سے جگہ جگہ احتجاج، جلسے اور عید کے بعد لانگ مارچ اور دھرنوں کی شنید، سول وار، خون خرابے اور انقلاب کی دھمکیوں کے ساتھ مطالبہ صرف قبل از وقت انتخابات کا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ حکومت وقت اور شاید ریاست بھی قبل از وقت ہی انتخابات میں جانا چاہتے ہوں۔
ہم یہاں تجزیہ کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ خان صاحب کی موجودہ جدجہد کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کا مقصد انقلاب ہو مگر نا تو وہ لینن، چی گویرا یا کاسترو ہیں اور نا ہی ان کی پارٹی بالشویک پارٹی ہے اور ان کے پاس پرولتاریہ تو بالکل ہی نہیں ہے۔ ان کا دوسرا مقصد جو زیادہ قرین قیاس ہے کہ قبل از وقت الیکشن یا بروقت الیکشن میں اکثریت حاصل کی جائے۔ کیا وہ یہ مقصد حاصل کر پائیں گے ِ؟
2018ء سے پہلے کا عمران خان ایک ابھرتا ہوا ستارہ تھا اندرون اور بیرون ملک ہمدردوں، سپوٹرز کی وسیع تعداد میں موجودگی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر عوامی تائید بھی حاصل تھی۔ گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا۔آج خان صاحب کی پارٹی تن تنہا کھڑی ہے۔ اس دفعہ کی سیاسی جدوجہد میں خان صاحب کے سیاسی کزن ڈاکٹر صاحب بھی ان ساتھ دینے کے لیے پاکستان نہیں ہوں گے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ خان صاحب کی دعوت اصرار پر وہ کینیڈا سے بھی دو چار ہاتھ دور جانیں کو ترجیح دیں۔کیش مشینیں (ATMs) کب کی راندہ درگاہ ہو چکیں۔اب امیر کارواں کے رخت سفر میں صرف نگاہ بلند اور ہم جیسے لاکھوں سادہ لوح عوام ہی موجود رہ گئے ہیں۔اس ضمن میں نہایت معذرت سے عرض ہے اور شاید یہ تلخ دنیاوی حقیقت ہے کہ چالیس یا پچاس ہزارشائقین کے سٹیڈیم میں چار یا پانچ نیوٹرل اور سخت گیر قسم کے ایمپائر، ایک تگڑی میڈیا گیلری کے علاوہ کھلاڑی صرف بائیس ہی ہوا کرتے ہیں۔